سوار پیدل کو سلام کرے، چلتا ہوا بیٹھے کو سلام کرے، چھوٹا بڑے کو سلام کرے‘ جو تعداد میں کم ہیں وہ انہیں سلام کریں جو تعداد میں زیادہ ہیں اور دو پیدل چلتے ہوئے افراد کا آمنا سامنا ہو تو سلام میں پہل کرنے والا برتر ہوگا۔ یہ ہے وہ سبق جو ہمیں دیا گیا تھا۔ یہ سبق محض سبق نہیں تھا‘ یہ ایک علامت تھی اس بات کی کہ پورا معاشرہ حسنِ آداب پر استوار ہوگا۔ خوش اخلاقی چھتری کی طرح سروں پر تنی ہوئی ہوگی۔ ہر شخص مسکرا کر دوسرے سے بات کرے گا۔ ہر فرد اپنی باری کا انتظار کرے گا۔ مذہب کا بنیادی کردار فرد کی اصلاح تھی۔ افسوس! آج مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جبکہ فرد‘ دوسرے کے لیے ناقابلِ برداشت ہورہا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ دوسرا اپنی اصلاح کرے۔ وہ اپنے آپ کو بھول رہا ہے‘ اس بے وقوف شخص کی طرح جو گروہ کو گنتے وقت اپنے آپ کو نہیں گنتا تھا! آپ گزرتے وقت پیچھے آنے والے شخص کے لیے دروازہ پکڑ کر کھولے رکھتے ہیں۔ وہ گزرتا ہے۔ شکریہ ادا کرنا تو دور کی بات ہے‘ آپ کی طرف دیکھتا تک نہیں۔ جیسے آپ اس کے ملازم ہی تو ہیں اور آپ نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ تنگ راستے پر آپ اپنی گاڑی ایک طرف کرکے روک لیتے ہیں تاکہ سامنے سے آنے والی گاڑی پہلے گزر جائے‘ وہ گزرتے وقت آپ کا شکریہ نہیں ادا کرتا۔ ایک ہاتھ ہی تو ہلانا ہے لیکن وہ آپ کی طرف دیکھتا تک نہیں۔ اگر وہ آپ کے لیے گاڑی روکتا ہے اور آپ شکریہ ادا کرنے کیلئے ہاتھ لہراتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے نہ آپ کی طرف دیکھتا ہے۔ اس کے پاس تصور ہی نہیں کہ شکریہ ادا کرنا ہے یا وصول کرنا ہے۔ آپ پولیس سکیورٹی کی کھڑی ہوئی رکاوٹ سے گاڑی گزار رہے ہیں۔ ایک وقت میں صرف ایک گاڑی گزر سکتی ہے۔ اچانک پیچھے سے گاڑی آ کر دھانسو طریقے سے آگے ہوجاتی ہے۔ آپ مجبوراً اپنی گاڑی روک کر اسے گزرنے دیتے ہیں۔ پارکنگ میں آپ انتظار کررہے ہیں کہ ایک گاڑی جانے والی ہے اور اس کی جگہ خالی ہورہی ہے جہاں آپ گاڑی پارک کرلیں گے۔ ایک شخص پیچھے سے آتا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ آپ پہلے سے انتظار کررہے ہیں لیکن وہ یوں تیزی دکھاتا ہے جیسے مقابلے میں شرکت کررہا ہے۔ وہ مقابلہ جیت جاتا ہے۔ آپ کھڑے رہ جاتے ہیں۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ریلوے کراسنگ پر کیا ہوتا ہے؟ پھاٹک کھلنے پر کوئی شخص اپنی باری کا انتظار نہیں کرتا۔ بائیں والے دائیں طرف اور دائیں والے بائیں طرف دوڑتے ہیں۔ قانون پر چلنے والے کھڑے رہ جاتے ہیں۔ پورا نظام تہس نہس ہوجاتا ہے اور پانچ منٹ کے بجائے ایک گھنٹہ ضائع ہوتا ہے۔ آپ سرخ بتی پر رکتے ہیں۔ بتی سبز ہوتی ہے ایک ثانیہ بھی نہیں گزرتا کہ پیچھے سے پیں، پیں کی آواز آپ کے سر پر ہتھوڑے کی طرح برستی ہے۔ وہ شخص چاہتا ہے کہ بتی سبز ہوتے ہی آپ اپنی گاڑی کو ہوا میں اُچھالیں اور اس کے آگے سے ہٹ جائیں! شاہراہ پر سامنے سے آنے والا ٹرک آپ کو راستہ نہیں دیتا۔ آپ اپنی گاڑی کچے پر اتارنے پر مجبور ہیں۔ آپ بے بسی سے ٹرک ڈرائیور کو دیکھتے ہیں لیکن وہ تو ایک بلند قلعے میں محصور ہے۔ آپ اسے دیکھ ہی نہیں پاتے۔ اس ملک میں اگر فرد تھوڑا سا قانون‘ ذرا سی خوش اخلاقی اختیار کر لے تو حادثوں کی تعداد میں کم از کم پچاس فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے! آپ ٹرین یا بس کا ٹکٹ خرید رہے ہیں۔ کائونٹر والا آپ کو ٹکٹ تھما کر رقم وصول کررہا ہے۔ اچانک پیچھے سے ا یک کرخت آواز آتی ہے اورایک ہاتھ پیسے پکڑے ہوئے آپ کے اور کائونٹر والے کے ہاتھ کے اوپر آجاتا ہے۔ کائونٹر والا بے بسی ا ور غصے سے اسے کہتا ہے‘ بھائی! میںان سے تو فارغ ہو لوں۔ آپ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ایک اچھا بھلا پڑھا لکھا معزز شخص کھڑا ہے اور اس کے چہرے پر ندامت کا شائبہ تک نہیں! یہی کچھ آپ دکان سے سودا لیتے وقت دیکھتے ہیں۔ پیچھے کھڑا ہوا شخص آپ کی فراغت کا انتظار نہیں کرتا او رہاتھ آگے بڑھا کر سودا پہلے خریدنا چاہتا ہے اوراب تو ’’حسن اخلاق‘‘ اس انتہا پر پہنچ چکا ہے کہ بس یا ٹرین میں عورت کے لیے کوئی مرد اور سفید ریش مسافر کے لیے کوئی نوجوان اپنی نشست سے نہیں اٹھتا! ہر طرف وحشت ہے اور بد تہذیبی! اس صورتحال کو کوئی عمران خان‘ کوئی منور حسن‘ کوئی نوازشریف نہیں بدل سکتا۔ نہ ہی اٹھارہ کروڑ افراد پر اٹھارہ کروڑ پولیس مین متعین کیے جاسکتے ہیں۔ یہ میرا اور آپ کا انفرادی فرض ہے۔ اگر میں سب سے پہلے اپنی اصلاح نہیں کرتا اور معاشرے کو کوستا ہوں تو میں پاگل ہوں یا منافق! یہ میرا فرض ہے کہ میں اپنے بچے کو سمجھائوں کہ تم نے کسی صورت میں قانون کا دامن نہیں چھوڑنا اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے! استقامت کی گھڑی وہ ہے جب بچہ دلیل دیتا ہے کہ یہ کام کوئی دوسرا نہیں کررہا۔ آخر میں ہی کیوں؟ لیکن اسے باور کرانا ہے کہ اگر ساری دنیا میں وہ ایک ہی شخص ایسا کرنے والا رہ گیا ہے تب بھی اسے ایسا کرتے رہنا چاہیے۔ کوئی قانون کو پائوں تلے روندتا ہے یا سلام کا جواب نہیں دیتا۔ کوئی اپنی باری کا انتظار نہیں کرتا یا کسی اور بداخلاقی کا مظاہرہ کرتا ہے تو یہ ہرگز جواز نہیں کہ دوسرا بھی ایسا ہی کرے۔ یہ تو وہ معاشرہ تھا جس میں مرتا ہوا شخص پانی نہیں پیتا تھا کہ پہلے دوسرا پیے اور دوسرا نہیں پیتا تھا کہ پہلے تیسرا پیے اور سب دوسروں کی خاطر جان قربان کردیتے تھے۔ خود بھوکے رہتے لیکن پڑوسی کو کھانا بھجواتے تھے۔ خود پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے دوسروں کو نئے ملبوسات مہیا کرتے تھے۔ اس امت کے پیغمبرؐ کو ایک شخص نے کہا تھا آپؐ یہیں انتظارفرمائیے‘ میں ابھی آتا ہوں، وہ بھول گیا اورآپؐ تین دن وہیں انتظار فرماتے رہے۔ آج امت کی یہ حالت ہے کہ دوسرے کی خاطر اپنے حق سے دستبردار ہونا تو دور کی بات ہے‘ دوسرے کا حق غصب کرنا روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔ اپنی باری کا انتظار کرنا کوئی قربانی تو نہیں، جو پہلے سے کھڑا ہے‘ اس کا حق فائق ہے لیکن یہاں یہ بھی گوارا نہیں! آج یہ لطیفہ انگریزوں کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک بھی ہو تو قطار بنا لیتا ہے! کاش یہ ہمارے بارے میں ہوتا! پیغمبروں کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ آخری پیغمبرؐ یہ فرما کر کہ میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں‘ اُمت سے رخصت ہوگئے۔ آسمان سے کوئی فرشتہ بھی اتر کر ہمارے آگے ہاتھ نہیں جوڑے گا۔ ہماری عادات و خصائل پر دوسری قومیں ہنستی ہیں اور انہیں ہنسنے کا حق حاصل ہے۔ کہاں ہمارے دعوے اور کہاں ہمارا اخلاق! کوئی ظاہری صورت‘ کوئی تسبیح و وظیفہ، کوئی تھری پیس سوٹ‘ حسنِ اخلاق کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ صائب تبریزی بھی کہاں یاد آگیا ؎ سبحہ بر کف‘ توبہ برلب‘ دل پُر از شوقِ گنہ معصیت را خندہ می آید ز استغفارِ ما ہاتھ میں تسبیح ہے، ہونٹوں پر توبہ ہے اور دل کو گناہوں کا شوق ہے۔ معصیت کو ہماری استغفار پر ہنسی آرہی ہے!