پہلی خبر یہ ہے کہ گومل زام ڈیم کے اغوا شدہ اہلکاروں کی نئی ویڈیو جاری ہوگئی ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر مطالبات پورے نہ ہوئے تو اگلی ویڈیو میں ایک اہلکار کو گولی مار دی جائے گی۔ ان سرکاری ملازموں کو اغوا ہوئے ایک سال ہونے کو ہے۔ ان لوگوں نے خیبر پختونخوا کے گورنر اور وزیراعلیٰ اور واپڈا کے حکام سے فریاد کی ہے کہ خدا کے لیے انہیں رہائی دلوائی جائے۔ دوسری خبر یہ ہے کہ کراچی میں ایک خاتون ایک اولڈ ہوم ٹرسٹ چلا رہی ہے۔ 22 مئی 2013ء کو ایک شخص اس ٹرسٹ کے دفتر میں آیا۔ اس نے بتایا کہ وہ ملا عمر کا بھتیجا ہے اور یہ کہ اسے پچاس لاکھ روپے بھتہ درکار ہے۔ نہ دینے کی صورت میں ٹرسٹ چلانے والی خاتون کو قتل کر دیا جائے گا اور عمارت کو دھماکے سے اڑا دیا جائے گا۔ پولیس کو بتایا گیا لیکن کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ 25 جون کو وہ شخص دوبارہ آیا‘ اس کے ساتھ مسلح افراد بھی تھے۔ خاتون رپورٹ درج کرانے تھانے پہنچی تو وہ شخص تھانے میں پہلے سے موجود تھا! تیسری خبر یہ ہے کہ مری کے ایک معروف بزنس مین کو دو ماہ سے بھتے کے مطالبات اور دھمکیاں مل رہی تھیں۔ اس سے دس کروڑ روپے طلب کیے جارہے تھے۔ تقاضا کرنے والے اپنے آپ کو طالبان کہتے تھے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ طالبان تھے یا کوئی اور۔ پولیس کو بتایا گیا لیکن بزنس مین کو کوئی سکیورٹی مہیا نہ کی گئی۔ چار جولائی کو اس کے گھر میں دھماکہ ہوا۔ پولیس کی رپورٹ کے مطابق ایک کلوگرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔ لیکن اصل خبر یہ نہیں ہے۔ اصل خبر وہ ہے جو دو دن پیشتر قومی سطح کے ایک انگریز معاصر نے اپنے ایک مضمون میں دی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک ہزار پاکستانی پاکستان ہی کے ایک خاص علاقے میں ہر وقت اغوا شدہ حالت میں محبوس ہوتے ہیں۔ ہر شخص کو معلوم ہے کہ یہ علاقہ کون سا ہے۔ یہ افراد پاکستان کے مختلف علاقوں سے اغوا کیے جاتے ہیں۔ ہر شہر کے لیے الگ الگ گروہ مختص ہیں۔ انہیں جس حالت میں رکھا جاتا ہے اس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بھاری رقوم وصول کرکے انہیں چھوڑا جاتا ہے۔ بھتہ اس کے علاوہ ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ بھتے کی وبا کراچی تک محدود ہے تو وہ بے وقوف ہے یا بے وقوف بنا رہا ہے۔ کوئی بڑا شہر ایسا نہیں جو اس سے محفوظ ہو۔ اس پس منظر میں اب ان خبروں پر غور کیجیے کہ نوازشریف چین کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں کاروبار کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ بلٹ ٹرین چلانا چاہتے ہیں۔ خنجراب سے گوادر تک راہداری کا قیام عمل میں لانا چاہتے ہیں۔ جس ملک میں سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اغوا ہورہے ہیں‘ مری سے لے کر کراچی تک تاجروں سے بھتہ مانگا جارہا ہے‘ ان کے گھروں کو بموں سے اُڑایا جارہا ہے اور بھتہ مانگنے والے تھانوں میں پائے جاتے ہیں‘ اس ملک میں سرمایہ کاری کا سوچنا ہی مضحکہ خیز ہے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ افغانستان کے صدر اور پاکستان کے وزیراعظم میں کتنی مماثلتیں ہیں۔ یقینا بہت سی ہیں۔ ماشاء اللہ دونوں مسلمان ہیں۔ دونوں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں امریکہ دوست ہیں۔ فرق صرف ایک ہے۔ افغانسان کے صدر کا اقتدار کابل سے باہر نہیں لیکن کابل کے اندر ضرور ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم کا اقتدار بدقسمتی سے اسلام آباد کے اندر بھی موجود نہیں۔ تقریباً تین یا چار گاڑیاں دارالحکومت سے ہر روز چوری ہوتی ہیں۔ تازہ ترین خبر کے مطابق اہم افراد کو اغوا کرنے کے نئے منصوبے کا انکشاف ہوا ہے۔ کمال یہ ہے کہ ہر دھماکے اور ہر کارروائی کی پیشگی اطلاع مل جاتی ہے لیکن اس کا سدباب نہیں ہوتا! مزے کی بات یہ ہے کہ برما اور مصر کے حالات پر زاروقطار رونے والے رہنمائوں کو اغوا کی ان وارداتوں کی خبر ہے نہ بھتے کی پرچیوں ہی کا معلوم ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کارروائیوں کی پشت پر ان حضرات کی اخلاقی مدد بھی شامل حال ہے؟ اس باب میں دو آرا نہیں ہوسکتیں کہ خود مختاری کا نعرہ لگانے والی اس حکومت کا اپنے علاقوں پر کوئی کنٹرول نہیں۔ وسیع و عریض علاقوں پر اس کی خودمختاری کا یہ عالم ہے کہ وہاں قانون ہے نہ پولیس۔ فوج وہاں جائے بھی تو حالت جنگ میں ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس صورتحال سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتیں۔ جس کا بس چلتا ہے ملک سے بھاگ رہا ہے۔ پشاور میں ڈاکٹروں کا اغوا تسلسل اور منظم طریقے سے ہورہا ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں عضو معطل ہیں۔ خوف زدہ عوام مجبوراً فوج کی طرف اور آئی ایس آئی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ریڑھی والے ان پڑھ پاکستانی سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ بزنس مین اور مراعات یافتہ بیورو کریٹ تک ہر شخص کو معلوم ہے کہ حکومت بے بس ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ اگر سول حکومت اپنی بے بسی کا اعتراف نہیں کرتی تو کیا مسلح افواج اور متعلقہ ایجنسیاں اپنے عوام کو غلامی اور قید میں سسکتا بلکتا دیکھتی رہیں گی؟ ایک حل یہ ہے کہ ان علاقوں کو خودمختاری دے دی جائے۔ اُن کو اُن کی اصل پوزیشن پر بحال کردیا جائے۔ وہاں سے آنے اور وہاں جانے والوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اغوا شدہ پاکستانیوں کی تعداد سینکڑوں ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں میں ہوجائے گی اور بھتہ پرچی شہروں سے ہوتی ہوئی قصبوں تک پہنچ جائے گی۔ اگر کسی نابغے یا عبقری کے ذہنِ رسا میں اس کے علاوہ کوئی اور حل موجود ہے تو اس مظلوم معتوب اور مقہور قوم کو جلد بتائے اور ثواب دارین حاصل کرے۔ رہیں گیدڑ بھبکیاں اور قاہرہ کے لیے پیٹ میں اٹھتے مروڑ تو سیانے کہہ گئے ہیں: ’’ ما پنّے تے پتر گھوڑے گِھنے‘‘ ماں بھیک مانگتی پھر رہی ہے اور بیٹا گھوڑوں کی خریداری میں مصروف ہے!