جو بدبخت کہتے ہیں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے‘ ہم نے ان کے منہ پر ایک اور تھپڑ مارا ہے۔ زناٹے دار تھپڑ! کیا یہ لوگ اندھے ہوگئے ہیں ؟ کیا تعصب ان کی آنکھوں میں موتیا بن کر اتررہا ہے ؟ ہم ان کو کتنے ثبوت دیں گے۔ اس ناقابل تردید حقیقت کے کہ ہم ناکام ریاست نہیں ہیں۔ ہم کامیاب ریاست ہیں۔ ہماری کامیابی کی کہکشائیں آسمانوں پر دمک رہی ہیں۔ آپ یہ نہ سمجھیے کہ ایک روز قبل جوکچھ بلوچستان میں ہوا ہے، کالم نگار اس کا ذکر کرنا چاہتا ہے۔ صوبائی وزیر اپنے ذاتی مسلح گارڈ بلوچستان اسمبلی کے اندر لے جانا چاہتا تھا۔ وہ صرف وزیر نہیں تھا‘ سردار بھی تھا۔ پولیس نے اجازت نہ دی۔ تلخ کلامی ہوئی۔ وزیراعلیٰ نے انصاف کیا اور ایس پی کو معطل کردیا۔ ملک میں پڑھے لکھے لوگوں نے مسرت کے شادیانے بجائے تھے کہ پہلی بار مڈل کلاس کے ایک تعلیم یافتہ فرد کو وزیراعلیٰ بنایا گیا ہے۔ مڈل کلاس کے عروج کا مزہ اہل وطن کراچی میں پہلے چکھ چکے ہیں اور مسلسل چکھ رہے ہیں۔ خیر‘ ایک مزہ اور سہی۔ یہ صوبائی وزیر مسلم لیگ نون کا بلوچستان میں ایک اہم ستون ہے۔ صوبے کا وزیر اعلیٰ مسلم لیگ نون کا مرہون احسان ہے ورنہ وزیراعلیٰ کیسے بنتا۔ ایس پی کی ماتحت پولیس نے قانون کی عملداری رائج کرنے کی کوشش کی۔ اسے سزا نہ دی جاتی تو مسلم لیگ نون کے ماتھے پر بل پڑجاتے اور یوں وزارت اعلیٰ کی کشتی بھنور میں پھنس سکتی تھی۔ یوں تو یہ واقعہ ایک روشن برہان ہے اس حقیقت کی کہ ہم ناکام ریاست نہیں ہیں لیکن جو واقعہ ثبوت کے طورپر کالم نگار پیش کرنا چاہتا ہے وہ اور ہے۔ یہ لوگ کسی دلیل کسی ثبوت کو نہیں مانتے ۔ ہم اس زمانے میں‘ جب بے وقوف ممالک انٹرنیٹ اور ڈی این اے کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں، اپنے ملک کو بہت صفائی کے ساتھ عہد حاضر سے نکال کر پتھر کے زمانے میں لے آئے ہیں۔ پھر بھی ہمیں ناکام قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارے گھروں میں لالٹینیں ہیں۔ ہماری چھتوں پر ڈاکو ہیں۔ ہماری بسوں‘ ویگنوں اور ٹرکوں کی ڈرائیونگ سیٹوں پر قاتل بیٹھے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسے ایسے حصے ہیں جہاں ہزاروں اغوا شدہ پاکستانیوں کو جانوروں کی طرح رکھا جاتا ہے اور چوری شدہ کاروں کے سودے کاروں کے اصل مالکان کے ساتھ نماز پڑھ کر کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں مردوں‘ عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں اور مریضوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا ہے۔ جنازے پڑھنے والوں کو بارود سے اڑایا جاتا ہے۔ قبروں سے لاشیں نکال کر چوراہوں پر لٹکائی جاتی ہیں‘ یہ اور بات کہ ہمارے لیڈروں کی نزدیک کی نظریں کمزور ہیں‘ انہیں یہ سب کچھ نظر نہیں آتا۔ ہاں، دور کی نظریں عقابی ہیں۔ برما، فلسطین اور عراق کے ایک ایک شخص کا دکھ دکھائی دیتا ہے۔ ہر چوٹ ہم دل پر محسوس کرتے ہیں۔ اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اب ہم اپنی افرادی قوت مملکت شام کو بطور تحفہ بھیج رہے ہیں۔ ہم نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھول رکھے ہیں۔ کسی پاسپورٹ کی ضرورت ہے نہ ویزے کی۔ بس شرط یہ ہے کہ وہ مسلح ہوں اور جنگ جُو ہوں۔ یہ سب ثبوت ہماری کامیابی کے ہیں۔ افسوس ! پھر بھی ہمیں ناکام ریاست کہا جاتا ہے۔ لیکن اب ایسا ثبوت منظر عام پر آچکا ہے کہ ہم جو ایٹمی طاقت ہیں‘ ہمیں کامیاب تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ایٹمی ملک کی تازہ ترین کامیابی کی خبر یہ ہے کہ دارالحکومت کے شہریوں کو پینے کے لیے غلیظ پانی مہیا کیا جارہا ہے۔ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے نے شہر کے مختلف مقامات پر 37فلٹریشن پلانٹ لگائے ہیں تاکہ پانی کو پینے کے قابل بنایا جاسکے ۔ ان میں سے گیارہ پلانٹ بند ہیں اور باقی چھبیس میں سے پچیس گندا پانی سپلائی کررہے ہیں۔ صرف ایک پلانٹ ایسا پانی نکال رہا ہے جو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہے۔ پارلیمنٹ ، پارلیمنٹ لاجز، وزیروں کی رہائشی کالونی اور ایوان صدر کے ملازموں کی کالونی میں لگے ہوئے تمام فلٹریشن پلانٹ گندا پانی مہیا کررہے ہیں۔ اس معاملے میں اسلامی مساوات واخوت کے سنہری اصولوں پر پوری طرح عمل کیا گیا ہے۔ جہاں ’’جی‘‘ اور ’’آئی‘‘ جیسے غریبانہ اور متوسط سیکٹروں کو گندا پانی دیا جارہا ہے وہاں ’’ایف سکس‘‘، ’’ایف ٹین‘‘، ’’آئی ایٹ تھری‘‘ اور ’’آئی ایٹ ٹو‘‘ جیسے امیر سیکٹروں کو بھی ویسا ہی پانی دیا جارہا ہے۔ پینے کے اس پانی میں جو بیکٹیریا پایا جاتا ہے وہ معمولی نہیں ہے اور انسان کی چھوٹی آنت میں نہیں بلکہ بڑی آنت میں پرورش پاتا ہے جس کا تعلق فضلے سے ہوتا ہے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان تمام فلٹریشن پلانٹوں پر شہریوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ پانی صاف کرنے کا کام ترقیاتی ادارے نے ٹھیکے پر آگے کسی اور کودیا ہوا ہے جس کی کارکردگی ترقیاتی ادارہ چیک کررہا ہے نہ کنٹرول۔ تاہم اطمینان بخش امر یہ ہے کہ ٹھیکے کی مدت ختم ہونے کے بعد اسی ٹھیکیدار کو مزید مدت کے لیے توسیع دی جارہی ہے تاکہ غلیظ پانی کی سپلائی تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔ ترقیاتی ادارے میں تقریباً گیارہ یا بارہ ہزار افراد کام کررہے ہیں جن میں افسروں کی تعداد غالباً ایک تہائی سے کم نہ ہوگی۔ ترقیاتی ادارے کے ان تمام افسروں اور کارکنوں کو ترجیحی بنیادوں پر گراں ترین سیکٹروں میں رہائشی پلاٹ دیے جاتے ہیں۔ غالباً ان تعمیری (یعنی مکانوں کی تعمیری ) سرگرمیوں کی وجہ سے ترقیاتی ادارہ پینے کے پانی جیسے ’’غیر ضروری‘‘ شعبوں پر توجہ نہیں دے پارہا۔ ہماری کل آبادی اٹھارہ کروڑ سے زیادہ ہے۔ دارالحکومت کی آبادی گیارہ بارہ لاکھ سے زیادہ نہیں۔ یہاں دوسرے ملکوں کے سفیر، وفاقی حکومت کے وزیر، پارلیمنٹ کے ارکان، بڑے بڑے افسر اور بین الاقوامی کمپنیوں کے ایگزیکٹو رہتے ہیں‘ اگر ہم چند لاکھ نفوس پر مشتمل ایک اہم شہر میں پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کرسکتے تو دوسرے شہروں قصبوں اور بستیوں میں رہنے والے عوام کی حالت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کامیابی کیا ہوسکتی ہے کہ ہم ان حالات میں بھی دنیا کو بار بار یاد دلاتے ہیں کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ اب بھی اگر کوئی کہے کہ ہم ناکام ریاست ہیں تو اس بدبخت کے لیے ہلاکت کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔