’’مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں شام کی صورتحال پر عرب لیگ کے خصوصی اجلاس کے موقع پر سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری شامی عوام کے خلاف حکومتی جارحیت روکنے کے لیے اقدامات کرے اور اگر شامی عوام نے بشارالاسد کے خلاف امریکی حملے کی حمایت کی تو سعودی عرب بھی اس کی حمایت کرے گا‘‘۔ تو کیا سعودی عرب کو مسلمانوں سے دشمنی ہے کہ وہ امریکی حملے کی حمایت کررہا ہے؟ کیا ترکی اور متحدہ عرب امارات مسلمان نہیں؟ یا کیا وہ ان پاکستانیوں سے کم درجے کے مسلمان ہیں جو امریکی حملے کے خلاف پاکستان میں بیانات دے رہے ہیں اور ایجی ٹیشن کررہے ہیں؟ ہم اہل پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مسائل کا تجزیہ ناپید اور نعرے، ہجوم، جلوس، بینر اور دھواں دار بیانات پیش منظر پر ہر طرف چھائے ہوئے ہیں۔ آج مختلف گروہ یا تو منقار زیر پر ہیں یا بشار الاسد اور اس کے حامیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سیاست بھی کیا شے ہے! اس میں اور دو رنگی کے درمیان ایک مدہم سی لکیر ہے جو مشکل ہی سے نظر آتی ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ ہمیں بشار الاسد سے کوئی ہمدردی نہیں؛ تاہم ہم امریکی حملے کے خلاف ہیں۔ فانی بدایونی نے کہا تھا: ؎ دعویٰ یہ ہے کہ دوریٔ معشوق ہے محال مطلب یہ ہے کہ قرب نہیں اختیار میں مشرق وسطیٰ میں موجودہ کشمکش دراصل اُس وقت آغاز ہوئی جب خطے کے ایک بڑے ملک ایران نے انقلاب برآمد کرنے کا عزم اور اعلان کیا۔ یہ ’’ایکسپورٹ آف ریوولیوشن‘‘ محض ایک اعلان نہیں تھا، جلد ہی اس پر عملدرآمد بھی شروع ہوگیا۔ لبنان پہلی تجربہ گاہ بنی اور جلد ہی وہاں حزب اللہ کی شکل میں ایرانی توسیع وجود میں آگئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاسداران انقلاب وہاں بھیجے گئے۔ اس میں شک نہیں کہ حزب اللہ نے اسرائیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور شام کی مدد بھی کی لیکن دوسری طرف عرب بادشاہتیں محتاط ہوگئیں، یہاں تک کہ وہ اپنے دفاع میں لگ گئیں۔ ایک طرف ایران ان تمام عرب ملکوں میں انقلاب ’’برآمد‘‘ کرنا چاہتا ہے جو اس کے مغرب میں واقع ہیں، دوسری طرف عرب ممالک اس ’’برآمد‘‘ کے آگے بند باندھنا چاہتے ہیں۔ لبنان کی طرح اگر باقی ملکوں میں بھی ایسے ہی ایران نواز گروہ ظہور پذیر ہوجائیں تو پورا خطہ عدم استحکام سے دوچار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عراق اور ایران کی جنگ میں (شام کو چھوڑ کر) دوسرے عرب ممالک عراق کی پشت پر تھے۔ یہ کفر اور اسلام کا مسئلہ نہیں۔ یہ مفادات کا ٹکرائو ہے۔ ایران کی مجبوری یہ ہے کہ شام اس کا مضبوط ترین حلیف ہے۔ یہ اتحاد اس وقت سے قائم ہے جب سے ایران میں انقلاب آیا۔ صدام حسین شام اور ایران دونوں کا مشترکہ دشمن تھا۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ شام نے ایران کو تزویراتی گہرائی (Strategic Depth) مہیا کی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے ایران کی پہنچ بحرروم تک ہے اور لبنان میں حزب اللہ تک رسائی بھی شام ہی کے ذریعے ہے۔ بشارالاسد تخت سے اترجائے تو ایران سب سے بڑے اتحادی سے محروم ہوجائے گا۔ یہ ہے وہ وجہ جس کی بناپر ایران شامی حکومت کی مددکررہا ہے اور یہ مدد دامے‘ درمے‘ سخنے سے کہیں بڑھ کرہے! سعودی عرب کی مجبوری یہ ہے کہ وہ خطے میں ایران کا اثرونفوذ ہرحال میں روکنا چاہتا ہے۔ بشارالاسد کی شکست کی صورت میں ایران کو زبردست دھچکا لگے گا۔ امریکی مداخلت اس لیے بھی سعودی عرب کے لیے خوش آئند ہے کہ یہ مداخلت بشارالاسد کے بعد انتہا پسندوں کو اقتدار سے دوررکھ سکتی ہے۔ یہ انتہا پسند بادشاہتوں کے لیے خطرہ ہیں۔ ترکی کی مجبوری یہ ہے کہ عراق کی شیعہ حکومت کے ساتھ کردوں کے مسئلے پر اس کی مخالفت ہے‘ دوسری طرف عراق کے شیعہ جنگجو شام میں بشارالاسد کے حامیوں کے شانہ بشانہ لڑرہے ہیں۔ اس جلتی پر تیل ایمن الظواہری کے اس بیان نے ڈالا جو اپریل میں جاری کیا گیا۔ اس بیان میں شامی اپوزیشن کو سراہا گیا اس لیے کہ ایمن کے بقول یہ جنگ بشارالاسد اور ایران دونوں کے خلاف ہے۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وقت کے ایک حالیہ ٹکڑے کو چھوڑ کر، ترکی اور ایران ہمیشہ ایک دوسرے کے مدمقابل رہے ہیں، یہ دشمنی اس وقت زیادہ ہوئی جب ایران میں صفوی برسراقتدار آئے اور حکومت سرکاری طورپر شیعہ کہلانے لگی۔ روس کی مجبوری یہ ہے کہ بحیرہ روم میں روسی نیوی کے پاس اڈہ ہے اور یہ شامی حکومت کی وجہ سے ہے۔ روس اور شام میں ہتھیاروں کی فراہمی کا معاہدہ بھی ہے جو تقریباً پانچ ارب ڈالر کا ہے۔ لیبیا میں قذافی کے خاتمے سے روس کو پہلے ہی بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ چارارب ڈالر کا سودا لیبیا سے ہوچکا تھا کہ قذافی پیش منظر سے ہٹ گیا۔ اب اگر بشارالاسد بھی تاریخ کی دھند میں روپوش ہوتا ہے تو روس کو مزید مالی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسلحہ کے علاوہ روسی کمپنیوں نے 2009ء سے اب تک شام میں بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ بشارالاسد کی شکست کی صورت میں یہ معاہدے مٹی میں دفن ہوجائیں گے۔ شام کے اندر حافظ الاسد کی حکومت نے‘ جو ایک اقلیت کی حکومت ہے، اکثریت کے ساتھ کیا سلوک کیا، اور کیا سلوک کررہی ہے، اس کا احوال ہم کل کی نشست میں بیان کریں گے۔