دکاندار دکان میں وہی شے رکھے گا‘ جس کی طلب ہو۔ طلب جاسوسی اور جنسی کہانیوں کی ہو تو وہ ٹائن بی‘ ابن خلدون اور برٹرینڈ رسل کیوں رکھے گا؟ گاہک اگر تیل میں تلی ہوئی پھیکے پیلے رنگ کی جلیبی مانگتا ہے تو حلوائی ڈبوں میں بند صاف ستھری مٹھائی رکھنے کی تکلیف نہیں کرے گا۔ ٹریفک سے چھلکتی شاہراہوں کے کنارے کٹے ہوئے سردے اور مِٹھے دھڑا دھڑ فروخت ہو رہے ہوں تو پھلوں کو پلاسٹک کور میں محفوظ کرنے پر وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے! یہی حال الیکٹرانک میڈیا کا ہے‘ یہ جو کُھمبیوں کی طرح ٹی وی چینل اُگ آئے ہیں تو یہ ریڑھیاں‘ کھوکھے اور دکانیں ہی تو ہیں! جو لوگ ان چینلوں کے مالک ہیں اور جو چلانے والے ملازم ہیں‘ وہ ثواب کمانے کے لیے نہیں بیٹھے۔ بھائی! یہ تو کاروبار ہے۔ اشتہار بازی کا سلسلہ ہے۔ روپوں کا مسئلہ ہے۔ وہی شے پیش کی جائے گی جس کی طلب ہے۔ ناظرین گاہک ہیں۔ ٹی وی چینل دکاندار ہیں۔ جو نیکوکار بڑبڑا رہے ہیں کہ ریٹنگ کی وجہ سے غلط پروگرام پیش ہو رہے ہیں تو ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ آپ کے شکم مبارک میں اصلاح کے بخارات اُٹھ رہے ہیں تو اس تبخیر کو کنٹرول کرنے کے لیے آگے بڑھیے اور ایسا چینل لے آیئے جسے اشتہاروں کی ضرورت ہو نہ ریٹنگ کی۔ گاہک کیا چاہتا ہے؟ ناظرین کیا دیکھنا پسند کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب آسان ہے اور واضح بھی۔ بشرطیکہ تجزیہ کرتے وقت ’’نظریے‘‘ کو ایک طرف رکھ دیا جائے اور حقیقت کو تسلیم کیا جائے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ چسکے کے شائق ہیں۔ نعرے‘ ہجوم‘ سینہ کوبی‘ جلوس‘ دھرنے‘ ہڑتالیں ’’پسند‘‘ کرتے ہیں۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ دانش کا تقاضا کیا ہے۔ وہ ہمیشہ جذبات کے ہاتھوں میں کھیلے۔ تحریکِ خلافت کی مثال لے لیجیے۔ سلطنتِ عثمانیہ کے حکمران خلیفہ کہاں کے تھے‘ وہ تو موروثی بادشاہ تھے۔ پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر اتحادیوں نے قسطنطنیہ اور سمرنا پر قبضہ کر لیا تو عثمانی ’’خلیفہ‘‘ کچھ نہ کر سکا۔ یہ اتاترک تھا جس نے ان شہروں کو آزاد کرایا اور ترکی سے غیر ملکیوں کو بھگایا۔ لیکن برصغیر کے مسلمان ان حقائق سے بے نیاز تھے۔ انہوں نے خلافت کی بحالی کی تحریک چلا دی اور وہ بھی گاندھی کے تعاون سے! آج بھی پاکستانی مسلمانوں پر جذبات کی حکمرانی ہے۔ وہ جو کچھ پسند کرتے ہیں‘ ٹیلی ویژن چینلوں پر وہی دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ چینل پر کوئی صاحب جمہوریت کو غیر اسلامی کہہ رہے ہوں‘ طالبان کو اپنے بچے قرار دے رہے ہوں‘ جو کچھ ہم خود کر رہے ہیں اسے بھارتیوں‘ امریکیوں اور اسرائیلیوں کی سازش کہہ رہے ہوں‘ بھتہ خوروں‘ اغواکاروں‘ قاتلوں اور ڈاکوئوں کے ہاتھوں میں جکڑے ہوئے اس بے بس ملک کو اسلام کا قلعہ قرار دے کر پوری دنیا پر اپنا پرچم لہرانے کی بات کر رہے ہوں تو ناظرین خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ پھر اگر مقرر نے شلوار قمیض کے اوپر پھتوئی بھی پہنی ہوئی ہو تو سبحان اللہ! آنکھیں فرطِ جذبات سے چھلک چھلک پڑتی ہیں۔ جس چینل سے یہ سب کچھ ہو رہا ہو‘ وہ چینل پسندیدہ ہو جاتا ہے۔ گھر کے افراد کو تلقین کی جاتی ہے کہ یہی چینل دیکھیں اور اُن چینلوں سے پرہیز کریں جن پر ’’خلافِ اسلام‘‘ یا وہ گوئی کی جاتی ہے! ٹی وی چینلوں کو معلوم ہے کہ جن اصحاب کو وہ بلا رہے ہیں وہ کیا کہیں گے۔ لیکن وہ مجبور ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن آکر فرمائیں گے کہ وہ حکومتِ وقت کا ساتھ اسلامی نظام کی خاطر دے رہے ہیں‘ تحریک انصاف ناکام ہو گئی ہے اور عمران خان یہودیوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ سید منور حسن تشریف لائیں گے تو انتخابات میں اپنے امیدواروں کی شکست کا سبب ایجنسیوں کو قرار دیں گے‘ اپنی گفتگو امریکہ سے شروع کریں گے‘ اُسی پر جاری رکھیں گے اور اُسی پر ختم کریں گے۔ لیکن چینل والے یہ بھی جانتے ہیں کہ لاکھوں ناظرین مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن کو سننا پسند کرتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں اور میڈیا گروپوں کی ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ جو بھی ان کی ملازمت میں ہیں، ’’جہاں ہیں اور جیسے ہیں‘‘ کی بنیاد پر اُنہی سے کام چلانا ہے۔ ایک معروف گروپ کے کچھ ملازم سراپا تعصب ہیں۔ اس قدر کہ چند روز پہلے انہوں نے الزام لگایا کہ جو لوگ طالبان سے مذاکرات کی مخالفت کر رہے ہیں‘ ان کی اکثریت شراب پیتی ہے اور قادیانیوں کی حا می ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ وہ ڈالر وصول کرتے ہیں۔ اب یہ ایسا الزام تھا کہ اس پر ہنسا ہی جا سکتا تھا لیکن گروپ کی مجبوری تھی کہ جو کچھ ملازمین کہہ رہے ہیں وہی چھاپنا ہے۔ جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے رفقا شہید ہوئے تو چینل کے ملازمین کے اس بیان کی خوب تشہیر کی گئی کہ پاکستانی جرنیل اور افسروں کو شہید کر کے طالبان نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اگر بھارت خدانخواستہ ہمارے جرنیل اور افسروں کو شہید کرتا تو کیا اس کی مذمت انہی الفاظ میں کی جاتی؟ عالمِ اسلام کی سب سے بڑی فوج کے جرنیل اور افسروں کو شہید کرنا اسلام سے دشمنی اور غداری ہے یا محض ’’غیر ذمہ داری‘‘؟ معروف ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کے خیالات نشر کرنا بھی چینلوں کی مجبوری ہے۔ ان حضرات کے چاہنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں! چاہنے والے آمنا و صدقنا کہتے ہیں‘ سوچتے نہیں‘ نہ سوال کرتے ہیں۔ قوم کو یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ایمن الظواہری کا یہ بیان کہ پاکستان میں اسلامی نظامِ حیات ہونا چاہیے‘ پاکستان کے آئین اور قراردادِ مقاصد کے عین مطابق ہے! تو کیا یہ بھی ایمن الظواہری طے کریں گے کہ اسلامی نظامِ حیات کون سا ہے؟ فرض کیجیے پاکستان کے علماء اور دانشور اُس نظامِ حیات کو اسلامی نہیں مانتے جس کا حکم ایمن الظواہری دیتے ہیں۔ اس صورت میں کیا ایمن الظواہری اپنے موقف میں تبدیلی لائیں گے؟ بات ٹیلی ویژن چینلوں کی مجبوریوں سے چلی تھی۔ دور نکل گئی۔ لیکن دور تو ہم کب کے نکل چکے ہیں۔ منزل کے آثار دور دور تک نہیں۔ ایک طرف سمندر ہے دوسری طرف لامتناہی صحرا جس میں ناگ پھنی کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہاں اُجڑے ہوئے خیموں کی قناتیں ہیں یا انسانی ہڈیاں‘ سچ عوام سننا نہیں چاہتے۔ واہ واہ کے نشے میں مخمور رہنما وہی کچھ کہتے ہیں جسے لوگ سننا پسند کرتے ہیں۔ ہماری حالت تو ظہور نظرؔ کے شعر کی سی ہو کر رہ گئی ہے ؎ آبنائے خوف کے چاروں طرف ہے دشتِ مرگ اب تو چارہ جان دینے کے سوا کچھ بھی نہیں