چند روز پیشتر ہم نے جہاد کے ضمن میں عرب علماء کا حالیہ بیان شائع کیا تھا۔ اس کے ردعمل میں بہت سے قارئین نے تصویر کا دوسرا رُخ دکھایا ہے۔ ہم یہ رُخ بھی اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ اوّل۔ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ جہاد کی اجازت صرف ریاست دے گی تو مقبوضہ مسلمان علاقوں میں آزادی کی تمام تحریکیں دم توڑ جائیں گی۔ فلسطین‘ کشمیر‘ مورو‘ ارٹریا اور اس قسم کے دیگر ملکوں میں جہاں مسلمان غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ کون سی ریاست اور کون سی حکومت جہاد کا اعلان کرے گی؟ اگر عرب عالمِ دین جناب احمد الغامدی کے قول پر عمل کیا جائے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ مسلمان دائمی غلامی پر رضامند ہو جائیں۔ یہی صورت حال چیچنیا اور داغستان کی ہوگی جہاں مسلمان طویل عرصہ سے جدوجہد کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔ اگر یہ جدوجہد نہ کی جائے تو ان خطّوں میں ایک نہ ایک دن اسلام کی شمع بھی‘ خدانخواستہ‘ بجھ سکتی ہے! احمد الغامدی کا قول دو ریاستوں کے درمیان تو کارآمد ثابت ہو سکتا ہے لیکن جہاں ریاست خود ہی ظلم کر رہی ہو‘ آزادی سلب کر رہی ہو اور مسلمان بچوں‘ عورتوں اور بوڑھوں کو قہر کا نشانہ بنا رہی ہو‘ وہاں اگر نوجوان جہاد کا راستہ اختیار نہیں کریں گے تو اور کون ان کے مظلوم خاندانوں کی مدد کو آئے گا؟ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے جہاد کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ مسلم ہسپانیہ میں جب حکومت جہاد کے قابل نہ رہی تو یہ غیر حکومتی جہاد ہی تھا جس نے ایک سو سال تک جدوجہد کی اور نصرانی حملہ آوروں کا مقابلہ کیا۔ جنوبی ہند میں جہان خان نے گوریلا جہاد کا آغاز کیا اور کئی برسوں تک مرہٹوں کا مقابلہ کیا۔ ماضی قریب میں جہاد کی بہترین مثال باسماچی تحریک ہے۔ یہ تحریک وسط ایشیا میں روسیوں کے خلاف 1916ء میں اٹھی اور 1934ء تک جاری رہی۔ باسماچ ترکی میں ڈاکو کو کہتے ہیں۔ مجاہدین کو یہ نام روسی استعمار نے دیا تھا۔ روسیوں نے یہ پروپیگنڈہ بھی کیا کہ اس جہاد کو برطانوی مدد حاصل ہے حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اس تحریک کو خالص اسلامی قرار دیتے ہوئے کوئی مغربی طاقت بھی مدد دینے کو تیار نہ تھی۔ باسماچی تحریک سوویت یونین کی اُس دخل اندازی کے خلاف ردعمل تھی جو اس نے مسلمانوں کی عبادات اور حلال و حرام خوراک میں روا رکھی۔ یہ ایک دلچسپ مطالعہ ہے۔ باسماچی جہاد کے کئی پہلو طالبان سے مماثل ہیں۔ وہاں بھی شوریٰ بنائی گئی جسے شورائے اسلام کا نام دیا گیا۔ شوریٰ مسلمان علماء سے مشورہ کر کے فیصلے کرتی تھی۔ قوقند میں اسلامی حکومت بنائی گئی۔ یہ گویا وسط ایشیا (ترکستان) میں اسلامی امارت کا آغاز تھا۔ تاشقند کی سوویت اتھارٹی نے اس اسلامی امارت کو تسلیم بھی کیا لیکن ساتھ ہی پخ لگا دی کہ اس کے احکام شہر کے قدیم محلوں تک محدود ہوں گے۔ ایسا ممکن نہ تھا چنانچہ جہاد بھرپور پیمانے پر شروع ہوگیا۔ جنوری 1920ء میں سوویت یونین نے جنیوا پر قبضہ کر لیا۔ یہاں جنید خان نے باسماچی تحریک کی قیادت سنبھال لی۔ اسی سال اگست میں بخارا پر قبضہ ہو گیا۔ امیر بخارا نے افغانستان میں پناہ لی۔ ابراہیم بے نے بخارا میں تحریک کا آغاز کردیا۔ مجاہدین نے کئی کامیابیاں حاصل کیں۔ تحریک قازقستان تک پھیل گئی۔ 1921ء میں ترکی سے انور پاشا نے آ کر تحریک میں نئی روح پھونکی۔ بخارا‘ سمرقند اور دوشنبہ پر مجاہدین کی حکومت قائم ہو گئی۔ جب سوویت یونین کو یقین ہو گیا کہ ترکستان اس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے تو اس نے مکرو فریب کا لبادہ اوڑھ لیا۔ اعلان کر دیا گیا کہ اسلام پر عمل کرنے کی مکمل ’’آزادی‘‘ ہے۔ بہت سے مسلمان اس فریب میں آ گئے۔ ساتھ ہی بھرپور ہوائی فوج استعمال کی گئی۔ انور پاشا شہید ہو گیا اور تحریک دم توڑ گئی۔ سوویت یونین نے جہاد کی تحریک کچلنے کے بعد مساجد بند کردیں۔ لباس تبدیل کردیا اور عربی رسم الخط پر پابندی لگا دی۔ لیکن یہ باسماچی جہاد ہی کا اثر تھا کہ کئی عشروں کی پابندیوں کے باوجود مسلمان چھپ چھپ کر نمازیں پڑھتے رہے۔ روزے رکھتے رہے اور زیر زمین اسلامی تعلیمات کو زندہ رکھا۔ سوویت یونین کے انہدام پر نوّے کے عشرے میں جس طرح اسلامی عبادات وسط ایشیائی ریاستوں میں فوراً نظر آنے لگیں‘ اس میں بہت بڑا محرک باسماچی جہاد ہی تھا! دوسرا نقطۂ نظر جو عرب علماء کے بیان کے ردعمل میں سامنے آیا‘ خاصا وزن رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مسلمان حکومتیں ہی غیر اسلامی طاقتوں کی آلۂ کار بن جائیں تو مسلمانوں کے لیے کون سا راستہ باقی بچتا ہے؟ جس عرب کے علماء نے کہا ہے کہ جہاد صرف ریاست ہی کر سکتی ہے‘ اس کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ خطے میں امریکی استعمار کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ اسامہ بن لادن کا اختلاف ہی اس بات سے شروع ہوا کہ امریکی افواج کو نکال باہر کیا جائے۔ ہمیں نہیں معلوم یہ بات کہاں تک حقیقت پر مبنی ہے لیکن کچھ قارئین نے بتایا ہے کہ علامہ اقبال کی کتابیں بھی وہاں نہیں لے جائی جا سکتیں؟ اسی طرح پاکستانی ریاست کا رویہ بھی عجیب و غریب تھا۔ طالبان کی جس حکومت کو پاکستان نے افغانستان میں تسلیم کیا تھا‘ ایک امریکی اشارے پر اُس حکومت کی پیٹھ میں خنجر بھونک دیا گیا۔ امریکی فضائیہ کو اڈے دیے گئے جہاں سے امریکی جہاز اُڑ کر مسلمانوں پر بمباری کرتے رہے۔ جو مغربی افواج افغان مسلمانوں کو تباہی سے دوچار کر رہی تھیں‘ انہیں پاکستانی علاقوں سے سپلائی فراہم ہو رہی تھی۔ مشرق وسطیٰ کی دیگر حکومتوں کا رویہ بھی اس سے مختلف نہ تھا۔ عراق پر امریکی حملہ ہوا تو خطے کی مسلمان حکومتیں ہی امریکہ کی مدد کر رہی تھیں۔ آخر اس صورت حال میں کون سی ریاست جہاد کا اعلان کرے گی؟ جہاں تقریباً ساری کی ساری مسلمان ریاستیں امریکی استعمار کے سامنے دست بستہ کھڑی ہیں‘ وہاں اگر مسلمان نوجوان بھی جہاد کی تحریک نہ چلائیں اور اُٹھ نہ کھڑے ہوں تو پھر کون اُٹھے گا؟ یہ وہی صورتِ حال ہے جس کی طرف حافظ شیرازی نے اشارہ کیا تھا ؎ درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش! یعنی ہاتھ پائوں باندھ کر دریا میں پھینک دو اور ساتھ ہی یہ حکم بھی دے دو کہ جسم کا کوئی حصہ پانی سے گیلا نہ ہو! امریکی صدر بش نے جن ہتھیاروں کو ڈھونڈنے کے لیے عراق پر حملہ کیا تھا‘ وہ ہتھیار وہاں تھے ہی نہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ نائن الیون کی کارروائی مسلمانوں نے کی تھی تو ان میں ایک بھی افغان نہیں تھا۔ اس کے باوجود افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ کسی مغربی ملک نے آج تک کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی حالتِ زار پر سنجیدگی سے افسوس نہیں کیا۔ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے لیکن مغرب کے ’’جمہوری‘‘ رویے مُہر بہ لب ہیں۔ مورو مسلمان ایک عرصہ سے فلپائن میں علاقائی خود مختاری کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں مگر سوڈان اور ایسٹ تیمور کے نصرانیوں کی مدد کرنے والے مغربی ملک مسلمانوں کے معاملے میں مکمل خاموش ہیں۔ اس سارے پس منظر میں اگر عرب علماء یہ کہتے ہیں کہ جہاد صرف ریاست کر سکتی ہے تو کیا وہ انصاف کی بات کر رہے ہیں؟ اگر غور کیا جائے تو مغرب کا رویہ تضادات سے بھرپور ہے۔ جانوروں کی نسل کُشی کے خلاف کئی تحریکیں چلائی جا رہی ہیں۔ گوشت خوری کے خلاف انجمنیں بنی ہوئی ہیں۔ ہم جنس پرستی کی تائید میں سر دھڑ کی بازی لگائی جا رہی ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے کروڑوں اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ اوزون کی تہہ کو بچانے کی جدوجہد کی جا رہی ہے۔ اگر نہیں نظر آ رہیں تو انسانوں کی وہ تڑپتی لاشیں نہیں نظر آ رہیں جو قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کا نتیجہ ہیں۔ نہتے بوڑھے‘ بچے اور عورتیں بموں کا شکار ہو رہی ہیں۔ قطب شمالی کی لومڑیوں کے لیے جن کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے رہتے ہیں انہیں انسانی چیخیں نہیں سنائی دیتیں!