آپ ٹیلی ویژن دیکھ رہے ہیں۔ دلچسپ پروگرام ہے۔ معلومات افزا ہے۔ آپ کے علم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دفعتاً پروگرام پیش کرنے والے صاحب ایسی بات کہہ جاتے ہیں جو علمی یا تحقیقی اعتبار سے قطعاً غلط ہے یا تاریخی لحاظ سے خلافِ واقعہ ہے۔ اس ضمن میں آپ نے بھی پڑھ رکھا ہے اور جان رکھا ہے۔ آپ حیران ہوتے ہیں کہ ایک بات جو صریحاً غلط ہے‘ کتنے اعتماد کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے اور پوری دنیا میں لاکھوں کروڑوں افراد اسے سن اور دیکھ رہے ہیں۔
آپ اضطراب میں پہلو بدلتے ہیں‘ مصمم ارادہ کرتے ہیں کہ اس کی نشاندہی کریں گے لیکن اصل صدمہ اس وقت پہنچتا ہے جب آپ پر یہ دردناک حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ آپ نشاندہی نہیں کر سکتے۔ آپ کیا کر سکتے ہیں؟ پروگرام پیش کرنے والے ''علامہ‘‘ صاحب کا فون نمبر آپ کو معلوم ہے نہ ای میل۔ اگر ٹیلی ویژن چینل کے نام خط لکھیں تو اول تو یہی نہیں معلوم کہ خط ٹی وی چینل کے کراچی آفس کو لکھنا ہے یا لاہور یا اسلام آباد یا دبئی؟ یہ بھی نہیں معلوم کہ ''علامہ‘‘ صاحب کس شہر میں ہیں۔ ہمارے ملک میں احساسِ ذمہ داری جس ''بلند‘‘ سطح پر ہے‘ اس کے پیشِ نظر سو فی صد امکان اس بات کا ہے کہ یہ خط متعلقہ فرد تک پہنچ ہی نہیں پائے گا۔ آپ بے چینی میں پھر پہلو بدلتے ہیں‘ تھوڑی دیر بعد آپ راضی برضا ہو جاتے ہیں۔ کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ متعلقہ چینل کو یا متعلقہ اینکر پرسن کو یا پروگرام کے میزبان کو یہ بتانے کا کوئی طریقہ ہی نہیں کہ جو کچھ فرمایا گیا ہے لاعلمی ہے یا جہالت یا جعل سازی!
یہ کربناک حقیقت ہے کہ میڈیا عفریت بن چکا ہے۔ نہ صرف یہ کہ عفریت بلکہ فرعون بھی۔ جو بھی پردۂ سیمیں پر آتا ہے‘ یہ سوچ کر کہ اسے لاکھوں ناظرین دیکھ رہے ہیں‘ اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے لگتا ہے۔ پھر یہ کہ وہ سچ کی نشاندہی کرنے والوں سے اس طرح محفوظ ہے جیسے چوبیس دانتوں میں زبان! کسی کی اس تک رسائی ہی نہیں ہو سکتی اور اگر بفرضِ محال یہ اطلاع پہنچ بھی جائے کہ فلاں ارشاد غلط تھا‘ تو بہترین ردعمل یہ ہے کہ پی جائو۔ غلطی کا اعتراف کرنے کی یا ا پنی تصحیح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
جس ملک میں خواندگی کا تناسب بیس تیس فی صد سے زیادہ نہیں‘ وہاں تحقیق و جستجو کرنے والے کتنے ہوں گے؟ اس لیے جو کچھ کہنا چاہتے ہیں بلا کھٹکے کہہ ڈالیے۔ میڈیا کے گھوڑے پر آپ سوار ہیں‘ کسی کی مجال نہیں کہ آپ کی لگام پکڑ سکے۔ فارسی کا مشہور قطعہ ہے (بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ ابنِ یمینؔ طغرائی کا کلام ہے)
آنکس کہ بداند و بداند کہ بداند
اسپِ خرد از گنبدِ گردون بجہاند
آنکس کہ بداند و نداند کہ بداند
آگاہ نمایید کہ بس خفتہ نماند
آن کس کہ نداند و بداند کہ نداند
لنگان خرکِ خویش بہ منزل برساند
آن کس کہ نداند و نداند کہ نداند
در جہلِ مرکب ابدالدہر بماند
اس کا مفہوم یہ ہے کہ علم کے معاملے میں چار قسم کے افراد ہیں۔ ایک وہ ہے جو جانتا ہے اور اُسے معلوم ہے کہ وہ جانتا ہے۔ اس کا درجہ بلند ترین ہے۔ وہ کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔ دوسرا وہ ہے جو علم رکھتا ہے لیکن اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ اس کے پاس علم ہے۔ اسے بیدار کرنا چاہیے کہ اس لاعلمی میں اسے نقصان نہ پہنچے۔ تیسرا وہ ہے جسے علم نہیں لیکن اسے احساس ہے کہ وہ جاہل ہے۔ اس کا بھی کسی نہ کسی طرح گزارا ہو جائے گا کیونکہ وہ کسی جھوٹے زعم میں گرفتار نہیں۔ بدترین شخص چوتھا ہے۔ ایک تو وہ علم سے محروم ہے۔ اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ اسے اپنی جہالت کا علم ہی نہیں! وہ یہی سمجھتا ہے کہ نہیں! میں عالم فاضل ہوں۔ ایسا شخص ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہلِ مرکب (Compoud ignorance) میں غرق رہتا ہے۔
ہم میں سے ہر شخص کو‘ بالخصوص میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کو... خواہ وہ پروگرام کرتے ہیں یا پرنٹ میڈیا میں لکھتے ہیں... کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارا تعلق چوتھی قسم سے نہ ہو کیونکہ اس میں ہلاکت کا امکان بہت زیادہ ہے۔
بعض اوقات غلطی صادر ہوتی ہے لیکن اس کی تہہ میں بدنیتی نہیں ہوتی‘ نہ ہی غلطی کا ارتکاب کرنے والا کسی بحث مباحثے میں جیتنے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ تین چار دن پہلے ایک معروف ٹی وی پروگرام میں میزبان نے‘ جنہیں ادب سے شغف وراثت میں ملا ہے‘ ایک ایسی بات کہہ دی جو درست نہیں۔ دعویٰ کی دلیل میں کوئی حوالہ بھی نہیں دیا گیا۔ دعویٰ یہ تھا کہ ولیمہ دراصل وہ دعوت ہے جو لڑکی والے دیتے ہیں! جب کہ گزشتہ چودہ پندرہ سو برس سے ولیمہ اس دعوت کو کہتے ہیں جو دولہا کی طرف سے منعقد کی جاتی ہے۔ ہمارے سامنے اس وقت ''معارف الحدیث‘‘ کا حصہ ہفتم ہے۔ احادیثِ نبویؐ کا یہ انتخاب مشہور و معروف عالمِ دین مولانا محمد منظور نعمانی نے کیا ہے اور پاکستان میں اسے ''دارالاشاعت‘‘ کراچی نے شائع کیا ہے۔ سالِ اشاعت 2007ء ہے۔ صفحہ 461 پر یہ حدیث درج ہے۔ ''حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف (کے کپڑوں یا جسم) پر زردی کا کچھ اثر دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے اور اتنا مہر مقرر کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اللہ تمہیں مبارک کرے۔ ولیمہ کی دعوت کرو‘ اگرچہ پوری بکری کر ڈالو‘‘ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)۔ اس سے اگلے صفحہ پر ایک اور حدیث نقل کی گئی ہے۔ ''حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے اپنی کسی بیوی کے نکاح پر ایسا ولیمہ نہیں کیا جیسا کہ زینب
بنتِ جحش کے نکاح کے موقع پر کیا‘‘۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
ان دونوں احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ ولیمہ کی دعوت دولہا کی طرف ہی سے ہوتی ہے۔ اس موقع پر مولانا منظور نعمانی نے اپنی طرف سے جو نوٹ لکھا ہے اس میں بھی یہی وضاحت کی ہے۔ ''ولیمہ میں یہ حکمت بھی ہے کہ اس کے ذریعہ شادی کرنے والے مرد اور اس کے گھرانے کی طرف سے خوبصورتی کے ساتھ اس کا اعلان و اظہار ہوتا ہے کہ اس رشتہ سے ہم کو اطمینان اور خوشی ہے‘‘۔ (صفحہ 461)
میڈیا کا زیادہ خطرناک پہلو اس وقت اجاگر ہوتا ہے جب کسی بحث میں اپنا پلہ بھاری کرنے کے لیے حقائق کی صورت بدل دی جائے۔ ہم نے کل ہی ایک فاضل دوست کی تحریر میں پڑھا ہے کہ ایران میں فارسی صرف 47 فی صد لوگوں کی مادری زبان ہے۔ ہم بہت ادب کے ساتھ اختلاف کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔ 2001ء میں ایران کی مردم شماری کے مطابق 68 فیصد آبادی کی اولین زبان فارسی ہے۔ معروف محقق مہرداد ایزادی نے‘ جن کی تحقیق کولمبیا یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر ہے‘ فارسی بولنے والوں کی تعداد 55.3 فی صد بتائی ہے (اس میں آزری‘ ماژندرانی اور دوسرے لہجے بولنے والے شامل نہیں ہیں)۔
لیکن سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ میڈیا سے کون جیت سکتا ہے؟ اسی کی سنی جائے گی جس کی آواز بلند ہے۔ ہم تو ظفرؔ اقبال کے الفاظ میں یہی کہہ سکتے ہیں ؎
دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت‘ خاک اُڑا اور بہت