فرنگی صوفے اور فرنگی نسلیں

یہ وینکوور کی بات ہے۔ کینیڈا کے مغربی کنارے پر بحرالکاہل کے کنارے یہ خوبصورت شہر برٹش کولمبیا کا سب سے بڑا شہر ہے۔ برٹش کولمبیا کو '' بی بی سی‘‘ یعنی بیوٹی فل برٹش کولمبیا کہا جاتا ہے۔ برٹش کولمبیا کینیڈا کا صوبہ ہے (صوبوں کو یہاں ریاست کہتے ہیں) ۔صوبے کا دارالحکومت ایک جزیرہ ہے جس کا نام وکٹوریہ ہے۔ وکٹوریہ کے حسن و جمال کا تذکرہ پھر کبھی سہی۔
چند دن وینکوور میں قیام کے دوران نعیم خان سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ ہر ملاقات میں وہ اس بات پر زور دیتے کہ ملک سے باہررہنے والے پاکستانیوں کو اپنی قدروں کی حفاظت کرنا ہوگی ورنہ آئندہ نسلیں گم ہوجائیں گی۔ مذہب کے بعد ان کی پریشانی کا سبب زبان تھی۔ ان کے خیال میں تارکین وطن کی ایک کثیر تعداد اس ضمن میں اپنے فرائض سے کوتاہی برت رہی تھی۔ اگر پاکستانی زبانیں آئندہ نسلوں کو منتقل نہ ہوئیں تو وہ اجنبی معاشرے میں ضم ہوجائیں گے۔ نعیم خان کی اس درد مندی سے متاثر ہونا لازمی تھا۔ اس قدر اخلاص، اس قدر غور وفکر ! قدروں کو سنبھالنے کی دھن ! جس دن خان صاحب نے کھانے کی دعوت دی ،وقت کی کمی کے باوجود انکار نہ کیاجاسکا۔
نعیم خان کا گھر خوبصورت تھا۔ وینکوور کا ہر حصہ حسن اور شادابی میں اپنی مثال آپ ہے۔ دو بچے ، پانچ سال کی بیٹی اور تین سال کا بیٹا۔ بیگم پاکستانی تھیں۔ شروع کے دس منٹ جب وہ دو تین بار بچوں سے انگریزی میں مخاطب ہوئے تو یہی سمجھا کہ کبھی کبھار انگریزی بول لیتے ہوں گے، لیکن دو گھنٹوں میں دونوں میاں بیوی نے جب بھی بچوں سے کچھ کہا، انگریزی ہی میں کہا۔ بچوں نے انگریزی ہی میں جواب دیا۔ کالم نگار نے بچوں سے اردو میں گفتگو کرنے کی کوشش کی تو خان صاحب ایک عجیب سی ہنسی ہنسے اور ترجمان کے فرائض انجام دیے!
یہ ہے اپنی قدروں کی '' حفاظت‘‘ کے لیے وہ '' اہتمام ‘‘ جو تارکین وطن کی اکثریت سرانجام دے رہی ہے۔ یہی رویہ امریکہ میں بھی دیکھنے کو ملا، برطانیہ میں بھی اور آسٹریلیا کے اطراف و اکناف میں بھی۔ مستثنیات یقیناً موجود ہیں۔ ایسے والدین سے بھی ملاقات ہوئی جو بچوں سے اردو ،پنجابی ،،پشتو یا سندھی ہی میں بات کرتے تھے اور بچے اسی زبان میں جواب دیتے تھے۔ لیکن ایسے والدین محتاط اندازے کے مطابق پچیس تیس فیصد سے زیادہ نہیں۔ ایک بڑے شہر میں '' امہ سنٹر‘‘ کے نام سے ایک عظیم الشان ادارہ کام کررہا ہے۔ وہاں سے ،شاعری سنانے کی دعوت ملی۔ عرض کیا، شاعری کو چھوڑیے، '' زبان‘‘ کے ضمن میں دوستوں سے کچھ گفتگو کرنے کا اہتمام کیجیے۔ لیکن ان کے خیال میں یہ کوئی سلگتا موضوع نہ تھا۔
میاں بیوی جس زبان میں خود گفتگو کرتے ہیں،اسی زبان میں بچوں سے بات کرنا چنداں مشکل نہیں، لیکن دو اسباب ہیں جنہیں اکثر تارکین وطن عذر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ بچے سکول میں یا '' چائلڈ کیئر سنٹر‘‘ میں انگریزی بولتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ یہ بہن بھائی آپس میں بھی انگریزی ہی بولتے ہیں۔ غور کیاجائے تو دونوں عذر عذرلنگ سے زیادہ نہیں۔ بچے سکول میں انگریزی بولتے ہیں تو یہ کس انجیل میں لکھا ہے کہ ماں باپ بھی اسی زبان کو ذریعہ اظہار بنائیں؟ بہن بھائی آپس میں انگریزی بولتے ہیں اس لیے کہ وہ سکول میں دوستوں کے ساتھ انگریزی ہی میں گفتگو کرتے ہیں۔ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ آپس میں اردو میں بات کریں لیکن فرض کربھی لیں کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے تو یہ کوئی وجہ نہیں کہ ماں باپ ہتھیار ڈال دیں۔ ایک بڑا سبب احساس کم تری ہے۔ والدین کے لاشعور میں کہیں نہ کہیں کانٹاچبھ رہا ہے کہ بچے انگریزی بولنے میں پیچھے نہ رہ جائیں۔حالانکہ اس معاشرے میں اگر کوئی ناخواندہ ہو( اگرچہ ناخواندہ مشکل ہی سے ملتا ہے) تو وہ بھی انگریزی ضرور بولے گا۔ اس کی مثال وہ گھسا پٹا لطیفہ ہے کہ دو عربوں کو جھگڑتے دیکھ کر پاکستانی کا ایمان تازہ ہوگیا۔وہ پکاراٹھا۔'' سبحان اللہ ! لڑتے وقت بھی تلاوت کررہے ہیں۔‘‘
تارکین وطن کے لیے ایک قابل تقلید ماڈل ہمارے دوست ایم ایم خان ہیں۔ جو بالٹک ریاست لتھوانیا کے اعزازی سفیر بھی ہیں۔ چالیس سال سے بیرون ملک مقیم ہیں۔ دونوں بیٹے وہیں پیدا ہوئے۔ آکسفورڈ اور ہارورڈ جیسے اداروں میں تعلیم پائی لیکن اردو روانی سے بولتے ہیں۔ اس کے لیے خان صاحب اور ان کی دانش مند اہلیہ نے مشقت جھیلی۔ کاروبار کے پریشان کن جھمیلوں اور پابندیوں کے باوصف ہرحال باقاعدگی سے وطن آئے اور ایک ایک ، دو دو،تین تین اورچار چار ماہ بچوں کو پاکستان کے کلچر ، پاکستان کے ماحول ، پاکستان کی گرمی اور پاکستان کی لوڈشیڈنگ میں رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک بچہ ہارورڈ سے فراغت پاکر کئی سال کراچی اور اسلام آباد میں ملازمت کرتا رہا۔ ایسے بچے کے لیے جس کی پیدائش اور تعلیم دونوں بیرون ملک ہوئی ہوں، وطن واپس آکر رہنا اور ملازمت کرنا ایک قابل تحسین عمل ہے، اس کی پشت پر والدین کی منصوبہ بندی ہے ورنہ ''ہر کہ درکان نمک رفت نمک شد ‘‘ کی مثالیں ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہیں۔
بے مثال شاعر رسول حمزہ توف کے داغستان کا واقعہ ہے۔ ایک شخص وہاں سے ہجرت کرکے یورپ میں جابسا۔ زمانے گزر گئے۔ ایک دن داغستان میں اس کی ماں کے پاس ایک ایسا شخص آیا جو اس کے بیٹے سے یورپ میں ملاقات کرکے آیا تھا۔ ماں نے بیٹے کی خیریت دریافت نہیں کی۔ اس کا پہلا سوال تھا: اس نے تم سے کس زبان میں بات کی ؟ ملنے والے نے بتایا کہ اس نے داغستانی زبان میں نہیں بلکہ یورپی زبان میں گفتگو کی تھی۔ ماں نے ایک دلدوز چیخ ماری اور سر میز پر رکھ کر سسکیاں لینے لگی۔
یہ ترجیحات کا مسئلہ ہے۔ ترجیحات ذہنی پختگی سے متعین ہوتی ہیں۔ احساس کم تری کے مارے لوگوں کی ترجیحات متبذل اور عامیانہ ہوتی ہیں۔ ایسے جوڑوں کی اولاد وطن میں رہ کر بھی عبرتناک اردو اور مضحکہ خیز پنجابی بولتی ہے۔ یہ وہ پودے ہیں جو گملوں میں ہی رہتے ہیں۔ کبھی درخت نہیں بنتے ۔دوسری طرف جن کی فکر بلند ہوتی ہے، نصب العین صرف دولت اور غیرملکی شہریت نہیں ہوتی اورجو دیوار کے پار بھی دیکھ سکتے ہیں ان کی ترجیحات بھی مختلف ہوتی ہیں۔ ان کے بچے باہر رہ کر بھی اسی زبان کی طرح ہوتے ہیں جو بتیس دانتوں کے درمیان رہتی ہے اور محفوظ رہتی ہے۔ اقبال نے کہا تھا ؎
ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالین ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
آج ہوتے تو اقبال ضرور کہتے، خدا کے بندو، صوفے فرنگی رکھتے ہو تو رکھ لو، آئندہ نسلوں کو تو زبان کے حوالے سے فرنگی نہ بنائو!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں