پانچ دن اور چھ راتیں ! اذیت کے دن اور عذب کی راتیں ! جن '' کیلا ریاستوں ‘‘ (Banana Republics)میں حکومتیں خاندانوں پر مشتمل ہیں یا خاندانی ملازموں پر، جہاں وژن اس پلاننگ کا نام ہے کہ بھائی یا بیٹا مستقبل کا حکمران بنے اور کیسے بنے ، ان ریاستوں میں وہی ہوتا ہے جو پانچ دن اور چھ راتوں کے دوران وفاقی دارالحکومت کی بغل میں ہوتا رہا۔ جی ہاں ! بغل میں ، شاہراہ دستور پر اربوں کھربوں روپے کی عالی شان عمارات !اور ان میں چلتی پھرتی کروڑوں میں پڑنے والی نااہل بیورو کریسی ...! بیورو کریسی جو مردوں پر مشتمل ہے۔ چلتے پھرتے مردے(Zombies)! غلام ... بدترین غلام... ریٹائرمنٹ کے بعد دس دس پندرہ پندرہ سال کی نوکری کے لیے ایمان، ضمیر، عزت، سب کچھ بیچ دینے و الے۔ عزت نفس ان کی نسلوں تک سے اٹھ چکی ہے۔
مری اور دارالحکومت کے درمیان رہنے والے لوگ ان پانچ دنوں اور چھ راتوں کے دوران جس عذاب سے گزرے اور وہ ''سیاح ‘‘ ۔ جن کی اکثریت نیم خواندہ عوام پر مشتمل تھی، جس کرب سے دوچار ہوئے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر اس ملک میں حکومت نام کی کوئی شے ہوتی تو ذمہ داروں کا تعین ہوچکا ہوتا۔ لیکن ٹھہریے! ابھی تو ماڈل ٹائون میں گرنے والی تیرہ لاشوں کے قاتلوں کا تعین نہیں ہوا!
ہزاروں گاڑیاں اور موٹرسائیکل مری کی طرف رواں تھے۔ دوپہر کے بعد مری سے واپس آنے والی شاہراہیں بند ہوجاتیں اور دوپہر سے پہلے جانے والی۔ ہزاروں نے راتیں گاڑیوں میں اور ہزاروں نے فٹ پاتھوں پر گزاریں۔ پیدل چلنا ناممکن تھا۔ کھانا ناپید تھا۔ بچے پانی کے گھونٹ گھونٹ کے لیے ترس رہے تھے۔ پٹرول پمپوں پر پٹرول ختم ہوگیا۔ تفریح عذاب بن گئی۔ '' سیاح‘‘ تو خیر ، اپنے شوق کے ہاتھوں خوار ہوئے لیکن مری اور دارالحکومت کے درمیان جو بستیاں تھیں ان کے مکینوں کا کیا قصور تھا؟ وہ یہ پانچ دن اور چھ راتیں گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے۔ بارہ کہو سے اسلام آباد کلب تک دس منٹ کا فاصلہ دو گھنٹوں میں طے ہورہا تھا!
اس کا حل کیا ہے؟ سیاحوں پر پابندی؟ گاڑیوں پر پابندی؟ موٹرسائیکلوں پر پابندی؟ اگر ٹوپی چھوٹی ہو تو سر کاٹنا چاہیے یا ٹوپی کو بڑا کرنا چاہیے ؟ موٹرسائیکلوں پر پابندی تو قطعی طور پر غیر منطقی اور غیر منصفانہ ہے۔ ایک موٹرسائیکل ایک گاڑی کی نسبت بہرطور کم جگہ گھیرتا ہے۔ اس کی نقل و حرکت بھی تیز تر ہے پھر یہ بھی ہے کہ موٹرسائیکل غریب آدمی کی سواری ہے۔ سیرو تفریح اس کا بھی حق ہے۔ یہ جو دانش ور حضرات ناک سکیڑ کر ، سگریٹ کا دھواں چھوڑتے ہوئے فتویٰ دیتے ہیں کہ سوسائٹی Entertainment Starvedہے، یعنی تفریح کو ترس گئی ہے ، تو موٹرسائیکلوں والے بھی تو تفریح کو ترس گئے ہیں!
مہذب ملکوں میں کوئی پابندی لگتی ہے تو اس بنیاد پر نہیں لگتی کہ کس کے پاس سائیکل ہے ، کس کے پاس سکوٹر ، کس کے پاس گاڑی اور کس کے پاس شان و شوکت والی گاڑی ہے۔ وہاں پابندی شہریوں پر لگتی ہے۔ عید کے موقع پر مری کے حوالے سے جو بدنظمی دیکھنے میں آئی اس کا حل ایک ہی ہے کہ گاڑیوں یا موٹرسائیکلوں پر نہیں۔ سیاحوں کی تعداد پر پابندی لگائی جائے۔ اتنے ہی سیاح مری میں داخل ہوں ۔ جتنوں کی گنجائش ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پرائیویٹ گاڑی کو اجازت دی جائے نہ موٹرسائیکل کو۔ صرف بسیں اور ویگنیں سیاحوں کو لے جائیں۔ یہ پبلک ٹرانسپورٹ فرض کیجیے، فیض آباد سے چلتی ہے تو ہر بس کے روانہ ہوتے وقت پولیس یا انتظامیہ کے لیے گنتی کرنا ممکن ہوگا کہ اب تک کتنے لوگ جاچکے ہیں۔ اسی طرح مری سے واپس آنے والوں کا حساب رکھنا بھی ممکن ہوگا۔ جب انتظامیہ دیکھے گی کہ اب مری میںمزید سیاحوں کو بھیجنا مناسب نہیں ، تو وہ پبلک ٹرانسپورٹ کو اسی حساب سے کنٹرول کرے گی۔ جنہیں اجازت نہیں ملے گی، وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے کہ گھروں میں رات گزارنی ، شاہراہوں یا فٹ پاتھوں پر رات گزارنے سے بہرطور بہتر ہے!
اس مسئلے کا بہترین حل تو یہ تھا کہ راولپنڈی سے مری تک ریل گاڑی چلائی جاتی۔ لیکن یہ کام وہاں ہوتے ہیں جہاں بے لوث منصوبہ بندی ہو۔ وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والا شاہی خاندان کئی دہائیوں سے صوبے پر قابض ہے۔ اس خاندان کے بادشاہوں اور شہزادوں کے بارے میں یہ بات بھی زبان زد خاص و عام ہے کہ وہ مری کے ٹھنڈے پہاڑوں کو پسند کرتے ہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود پنڈی سے مری تک ریل گاڑی نہ چلائی جاسکی۔ ہاں، لوگوں کو وہ معاملہ اب بھی یاد ہے جب ڈونگہ گلی میں ایک اعلیٰ شخصیت کے فرزند ارجمند کا محل بنا تھا اور وہاں گیس پہنچانے کے لیے گیس کے سارے منصوبے کو تلپٹ کرکے رکھ دیاگیا تھا۔ درجنوں بستیوں کو محروم کرنے کا ارادہ کرلیاگیا تھا۔ یہاں تک کے لوگوں نے احتجاج کیے اور سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا پڑا!جہاں ترجیحات اس قبیل کی ہوں وہاں عوام کی فکر کون کرے گا! ع
کسی نمی پر سد کہ بھیا! کیسی؟
پس نوشت۔1، ایم کیوایم کے سربراہ الطاف حسین نے ایک تازہ بیان میں وزیراعظم کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ وہ آگے بڑھیں، معاملات کا فکر اور گہرائی سے مطالعہ کریں ان کا تفصیلی جائزہ لیں اور اگر وہ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ دھرنوں یا دھرنوں کی آڑ میں کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں سے ملک میں جانی و مالی نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ جرأت کا مظاہرہ کرکے اپنے آپ کو وزارت عظمیٰ سے الگ کرلیں اور پارٹی ہی کے کسی اور فرد کو یہ ذمہ داری سونپ دیں۔
الطاف حسین کی اس تجویز میں منطق ہے اور خیر کی خوشبو بھی اس سے آرہی ہے! مسلم لیگ نون ایک عرصہ سے اس الزام کی تردید کرتی چلی آرہی ہے کہ وہ صرف پنجاب کی نہیں ، پورے پاکستان کی پارٹی ہے اور یہ کہ ہر صوبے میں اس کی جڑیں موجود ہیں۔ اس دعویٰ کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے اس سے بہتر موقع شاید ہی کوئی اور ملے۔ حکومت مسلم لیگ نون ہی کی رہے اور وزیراعظم کسی چھوٹے صوبے سے ہو تو معترضین کے ہونٹوں پر بھی مہر لگ جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ لیکن اس حوالے سے ایک گھسا پٹا پامال شدہ عامیانہ شعر یاد آتا ہے ؎
آرزوئے وصال کرتے ہو!!
یار! تم بھی کمال کرتے ہو!
پس نوشت۔2، روزنامہ ''دنیا‘‘کے ایک فاضل کالم نگار نے لکھا ہے کہ خیبرپختونخوا میں پولیس کی تعیناتیاں سوفیصد میرٹ پر ہورہی ہیں اور عمران خان ہوں یا وزیراعلیٰ ، کوئی بھی مداخلت نہیں کرتا! یہ ایک ایسا تاریخی کارنامہ ہے جس کی تشہیر ہونی چاہیے۔ فن اشتہار بازی میں شدبد حاصل کرنے کے لیے عمران خان اگر پنجاب کے وزیراعلیٰ کے سامنے زانوئے تلمند تہہ کرلیں تو حرج ہی کیا ہے!