ہر محلے میں ایک متبرک شخصیت ہوتی ہے جس کا نام اس وقت سننے میں آتا ہے جب دو پارٹیوں میں نزاع برپا ہو اور یہ نزاع لڑائی تک جا پہنچے۔ یہ متبرک شخصیت جتنی بھی پارسا ہو‘بہر طور ‘ دل کے کسی نہاں خانے میں یہ خواہش ضرور پالتی ہے کہ کہیں نزاع برپا ہو اور معتبری کو ایک بار پھر ابھرنے کا موقع ملے‘کیوں کہ بصورت دیگر تو بس کمرہ ہے اور تکیہ اور حقہ اور اکا دکا ملاقاتی۔یہی صورت احوال ان معزز حضرات کی ہے جو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان برپا نزاع کو لڑائی میں بدلتا دیکھ کر سامنے آتے ہیں۔ جیسے محترم اعجاز الحق اور مولانا ساجد میر۔رہے سراج الحق تو ان کی ''غیر جانب داری‘‘ پر افسوس ہوتا ہے اور ہمدردی بھی۔ ایک صوبے میں شریک حکومت عمران خان کی جماعت کے ہیں اور مرکز میں غیر جانب داری سے فریقین سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔اس انگریزی زبان کے کالم نگار کا نام نہیں یاد آ رہا جس نے جماعت اسلامی کے بارے میں کمال کا فقرہ لکھا تھا:
It thrives in martial law.
کہ یہ مارشل لاء کے زمانے میں ویسی ہی ہو جاتی ہے جیسے وہ پہاڑی ندی جس کے حوالے سے اقبال نے ساقی نامہ آغاز کیا ہے ؎
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی
اٹکتی لچکتی سرکتی ہوئی
اچھلتی پھسلتی سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ
مارشل لاء کے دوران پہاڑوں کے دل چیر دینے والی یہ جماعت عام زمانوں میں میدانی ندی کی طرح ہے اور موجودہ نزاع کے دوران اس کی سرگرمیاں اس شخص کی ہیں جس کی سوئی کمرے میں گم ہوئی تھی لیکن ڈھونڈ وہ سڑک پر رہا تھا‘ کیوں کہ سڑک پر روشنی تھی اور کمرے میں اندھیرا تھا۔ جو امور باعث نزاع ہیں ان کے بارے میں سراج الحق صاحب آخر کہہ بھی کیا سکتے ہیں۔
لیکن اصل موضوع قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ صاحب کا وہ بیان ہے جو بدھ کے دن انہوں نے امیر جماعت اسلامی سے ملاقات کے بعد میڈیا کو دیا‘‘کہ وہ سسٹم کو بچانے کی کوششوں میں ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ہماری بھر پور کوشش ہے کہ سسٹم جیسا بھی ہو چلتا رہے‘‘۔
آ پ ہمارے چوٹی کے سیاستدانوں کی ادائے تغافل دیکھیے اور انداز بے نیازی ملاحظہ کیجیے کہ سسٹم ''جیسا بھی ہو‘‘ اسے بچانے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس امر پر غور نہیں کرنا چاہتے کہ لاکھوں لوگ عمران خان اور طاہر القادری کے ساتھ کیوں آ ملے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی شخصیت تضادات سے پُر ہے اور یہ بات ان کے معتقدین سمیت ہر وہ شخص جانتا ہے جو اخبار کا مطالعہ کرنے والا ہے۔ عمران خان پر بھی اعتراضات کی بھر مار ہے۔ چودھری ارسلان افتخار سمیت بہت سے لوگ رات دن ان کے خلاف مواد جمع کررہے ہیں اور نشر بھی کر رہے ہیں۔ ا س سب کچھ کے باوجود عوام کی کثیر تعداد ان کے ساتھ ہے۔یہاں تک کہ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات تک کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ تاہم سید خورشید شاہ صاحب جیسے سیاستدان اس پہلو پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ سسٹم سے تنگ آ کر ہی تو لوگ ان لیڈروں کے ساتھ آ ملے ہیں جن کے تضادات سے وہ بخوبی آگاہ ہیں۔
شاہ صاحب جیسے ''بے نیاز‘‘سیاستدان چاہتے ہیں کہ موجودہ سسٹم چلتا رہے۔ سسٹم؟کون سا سسٹم؟جس میں زنداں کے ساتھی سیاہ و سفید کے مالک بنا دیے جائیں؟ شاہ صاحب خدا کو حاضر ناظر جان کر دل پر ہاتھ رکھ کر تنہائی میں اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا ایک میڈیکل ڈاکٹر کو پٹرولیم اور گیس کے معاملات کا مالک بنا دینا قرین انصاف تھا؟
''سسٹم چلتا رہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اداروں پر ڈاکے پڑتے رہیں۔ وزیر‘بیٹیوں کی شادیوں پر کنڈے لگا کر جشن برپا کرتے رہیں۔ ان کی بیٹیاں مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہونے والوں کے چہروں پر زناٹے دار تھپڑ مار کر پاکستانی سفارتخانوں میں براہ راست افسر لگتی رہیں۔جن کروڑ پتیوں کے ٹیکس کارڈ تک نہیں بنے وہ وزیر لگتے رہیں۔اکائونٹس میں چار چار کروڑآتے جاتے رہیں۔ضمانتیں ہوتی رہیں اور گرفتاری کی نوبت قیامت تک نہ آئے۔
سسٹم ؟ کون سا سسٹم؟جس میں وہ شخص جو کل گھر کے اخراجات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے گھڑی بیچ رہا تھا‘اقتدار میں آئے تو بیٹے کے پاس بلٹ پروف گاڑی آ جائے اور بیٹا تن کر کہے کہ ایسی تو میں ایک اور بھی لے سکتا ہوں۔ اس پر فخر کیا جائے کہ آپ ایک سوٹ دوبارہ نہیں پہنتے۔ڈیفنس میں راتوں رات گھر بھی اپنے ہو جائیں‘ ان کے پورچوں میں بی ایم ڈبلیو بھی کھڑی کر دی جائیں اور چار چار ٹرکوں میں چالیس چالیس کنٹینر ڈیزائز سوٹوں کے بھی آ جائیں ۔وزیر کا بھائی ادارے کو نیلام کر دے اور کبھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ہاتھ نہ لگے۔اسّی اسّی سال کے افراد کو بیورو کریسی کے آئینی عہدوں پر فائز کر دیا جائے‘ صرف اس لیے کہ خاندانی وفادار ہیں۔
یہ سسٹم چلتا رہے۔ آپ پانچ سال پورے کر لیں۔پھر آپ جیسا گروہ ایک اور آ جائے ۔ آپ کے تعینات کردہ خاندانی وفاداروں پر آنچ تک نہ آئے۔حکومت بدل جائے۔سسٹم وہی رہے۔ بیرون ملک سرکاری دوروں میں ایک ہی صوبے کا وزیر اعلیٰ ساتھ جائے۔ صاحبزادہ بھی ہر دفعہ ہمراہ ہو۔بھائی وزیر خارجہ کے معاملات بھی دیکھے اور ضرورت پڑے تو وزیر داخلہ بھی بن جائے۔ممبر قومی اسمبلی کا ہو لیکن عملی طور پر صوبے کی حکمرانی اس کی جیب میں ہو۔ چودہ بے گناہ شہری قتل کر دیے جائیں اور ہفتے مہینے گزر جانے کے باوجود یہ نہ معلوم ہو سکے کہ قاتل کون ہیں۔پولیس گھر کی باندی ہو۔بیورو کریسی کی حیثیت دربان سے زیادہ نہ ہو۔ایک علاقے‘ ایک شہر‘ ایک برادری کے ساتھ ترجیحی سلوک ہو۔پورا ملک چیخ چیخ کر اس ترجیحی سلوک پر احتجاج کرے لیکن کان پر جوں تک نہ رینگے!
سسٹم چلتا رہے۔چار چار میل لمبی قطاریں سی این جی کے لیے لگتی رہیں۔لوگ گرم پانی پی پی کر ‘دو دو کلو سی این جی کے لیے کڑکتی چلچلاتی دھوپ میں غیر انسانی سلوک برداشت کرتے رہیں۔روٹ لگتے رہیں۔ حاملہ عورتیں شاہراہوں کے کناروں پر بچوں کو جنم دیتی رہیں اور آپ کی سواریوں کے شاہانہ قافلے دھول اڑاتے لوگوں کے چہروں پر مٹی ڈالتے گزرتے رہیں‘ عوام بھتّے دیتے رہیں۔اغوا ہوتے رہیں۔ ان کی کاریں اور موٹر سائیکل چوری ہوتے رہیں۔ آپ ریڈ زون میں یوں محفوظ بیٹھے رہیں‘ جیسے بتیس دانتوں کے درمیان زبان۔کسی کی کار برآمد ہو‘ نہ کسی کا موٹر سائیکل واپس ملے۔تاوان ادا کر کے چھوٹنے والے ہونٹوں پر مہر لگا لیں۔آپ کی جیبوں سے فہرستیں نکلتی رہیں کہ کن کو نوکری دینی ہے اور کن کو بیرون ملک تعینات کرنا ہے۔ سسٹم چلتا رہے۔واہ شاہ صاحب واہ! ؎
بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو
پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو