گلو سسٹر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے ۔لندن سے چلیں تو دو اڑھائی گھنٹوں میں پہنچ جاتے ہیں کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے اس قلم کار نے وہاں کے ایک سٹور سے کوٹ خریدا ۔قیمت ادا کی۔کائونٹر پر بیٹھے شخص نے ایک رسید نما کاغذ دیا۔پوچھا یہ کس لیے ہے؟ کہنے لگا تم یہاں نہیں رہتے۔برطانیہ سے رخصت ہوتے وقت ہوائی اڈے پر ٹیکس والوں کا کائونٹر ہے ۔ا س کوٹ کی قیمت میں جتنا ٹیکس شامل ہے‘ وہ جاتے ہوئے تم ان سے واپس لے لینا۔پوچھا ‘ کیوں؟ٹیکس دے دیا تو دے دیا۔کہنے لگا۔''اس لیے کہ اس ٹیکس سے حکومت شہریوں کو سہولیات فراہم کرتی ہے۔تم یہاں کے رہنے والے نہیں۔ تم ان سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔اس لیے تم سے ٹیکس لینا ازروئے انصاف درست نہیں!ایسے خریداروں کو ان کی روانگی کے وقت ٹیکس واپس کر دیا جاتا ہے۔‘‘ہیتھرو کے ہوائی اڈے پر ٹیکس کے محکمے کا کائونٹر موجود تھا۔رسید دکھائی انہوں نے دو منٹ کے حساب کتاب کے بعد ٹیکس کی رقم واپس کر دی۔
میں مملکت پاکستان کا شہری ہوں اورباقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتا ہوں۔جب تک ملازمت رہی‘ سال کے بارہ مہینوں میں سے دس ماہ کی تنخواہ ملتی تھی ۔تقریباً دو ماہ کی تنخواہ ہر سال حکومت ٹیکس کی مد میں واپس لے لیتی تھی۔اب میں اخبار‘ریڈیو اور ٹی وی میں مزدوری کرتا ہوں۔ جب بھی معاوضہ ملتا ہے‘ دس فیصد حکومت کے ٹیکس میں کٹ جاتا ہے‘ میں صبح سے شام تک ٹیکس ادا کرتا ہوں۔موبائل فون کا کارڈ خریدتا ہوں تو تقریباً ایک چوتھائی ٹیکس کٹ جاتا ہے۔اس کے بعد جب بھی کال کرتا ہوں‘ ہر کال پر بھی ٹیکس ادا کرتا ہوں۔ادویات خریدتا ہوں تو اس پر ٹیکس لیا جاتا ہے۔مرچ مصالحے سے لے کر صابن اور شیمپو تک ۔گھی کے ڈبے سے لے کر ٹماٹر کی چٹنی تک۔ دالوں سے لے کر چینی اور چائے کی پتی تک کوکا کولا کی بوتل سے لے کر شربت کے گلاس تک بجلی کے بل سے لے کر گیس اور پانی کے بل تک‘سٹیشنری سے لے کر کتابوں تک۔پوتوں اور نواسیوں کے لیے کھلونوں سے لے کر ان کے ملبوسات تک۔جوتوں سے لے کر جوتوں کی پالش تک‘ ریل اور جہاز کے ٹکٹ سے لے کر پٹرول اور سی این جی تک۔ہر شے پر ‘ ہر خریداری پر ٹیکس ادا کرتا ہوں۔لاہور سے اسلام آباد جانا ہو تو راستے میں ہر چند میل کے بعد ایک بیریئر آتا ہے جہاں ٹیکس دیے بغیر گزرنا ناممکن ہے۔کلب میں بھنڈی اور مسور کی دال کھائو تو اس پر بھی سولہ فیصد ٹیکس ادا کرتا ہوں۔بیٹے یا بیٹی کی شادی پر چند قریبی اعزہ واحباب کو بھی دعوت پربلائوں تو حکومت اس خوشی کے موقع پر کوئی تحفہ دینے کے بجائے میرے معزز مہمانوں کے منہ سے ٹیکس کے نام پر نوالے چھین لیتی ہے ۔ اور میں دل خون کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔حکومت نے مجھے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں دیا لیکن جب آمدو رفت کے لیے ، موٹر سائیکل یا گاڑی خریدتا ہوں تو اس پر ٹیکس اتنا لیتی ہے کہ سواری کی قیمت خرید‘ اصل قیمت سے دوگنا ہو جاتی ہے۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ مجھ سے اس آکسیجن پر بھی ٹیکس لیا جائے گا جو میں سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں انڈیلتا ہوں۔عینک خریدتے وقت تو ٹیکس دیتا ہی ہوں‘ آنکھوں کی بینائی پر بھی حکومت ٹیکس لگا دے گی۔ جب تک چارپائی پر نہیں پڑ جاتا‘ چلنے پر‘ جب تک معدہ کام کر رہا ہے‘چبانے پر‘ جب تک زبان تندرست ہے بات کرنے پر اور جب تک سماعت ختم نہیں ہو جاتی‘سننے پر ٹیکس لگ سکتا ہے ۔سوچنے پر بھی محصول کا مطالبہ ہو سکتا ہے ۔ ہو سکتا ہے حکومت میرے جسم پر کوئی ایسی چپ لگا دے کہ جب بھی تازہ وضو کرنے کی ضرورت ہو‘ٹیکس ادا کرنا پڑے۔اب وہ وقت قریب ہے کہ میرے تن پر ایک انڈرویئر نما چڈی کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔
صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک ہر سانس کے ساتھ جو ٹیکس ادا کر رہا ہوں‘اس کے بدلے میں حکومت مجھے کیا دے رہی ہے؟
حکومت کا سب سے بڑا فرض مجھے تحفظ فراہم کرنا ہے‘ اس سے حکومت نے ہاتھ اٹھا لیا ہے ۔ چنانچہ ہم محلے والوں نے چوکیدارکھا ہوا ہے جسے ہم ہر ماہ بھاری رقم معاوضے میں دیتے ہیں۔گاڑی کی حفاظت کے لیے انشورنس کمپنی کو رقم دینا پڑتی ہے۔حکومت مجھے پانی بھی فراہم نہیں کر رہی۔ایک دفعہ پانی کے لیے بور کرایا تو ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ ہوئے۔کچھ عرصہ بعددوبارہ کرانا پڑا اس پر دو لاکھ روپے لگے۔حکومت مجھے بجلی بھی مسلسل نہیں دے سکتی۔تیس تیس ہزارروپے کے بل ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مجھے یو پی ایس اور اس کی بیٹریاں خریدنا پڑتی ہیں۔ان پر ٹیکس الگ ہے ۔حکومت کے فرائض میں میرا اور میرے اہل خانہ کا مفت علاج معالجہ بھی شامل ہے۔اس کے لیے میں سرکاری ہسپتال میں جائوں اور کوئی ڈاکٹر ذاتی طور پر واقف نہ ہو تو جو سلوک ہسپتال میں میرے ساتھ ہوتا ہے اس سے بہتر ہے کہ میں اپنے گردے اور انتڑیاں نکال کر خود ہی تار پرلٹکا دوں۔ چنانچہ مجھے پرائیویٹ ڈاکٹروں کے پاس جانا پڑتا ہے جن کی فیسیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
حکومت کا کام میری گلی پکا کرنا ہے جہاں میں رہتا ہوں‘ اس آبادی میں سڑکیں ٹوٹی ہوئی اور پل بیٹھے ہوئے ہیں۔فٹ پاتھ غائب ہیں‘گلی کی حالت یہ ہے کہ گاڑی نہیں گزار ی جا سکتی ۔محلے کے لوگ مجھے میڈیا پرسن سمجھتے ہوئے میرے پاس آئے۔ یہ علاقہ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی تحویل میں ہے۔ضلعی انتظامیہ وزارت داخلہ کے چارج میں ہے۔میں نے سیکرٹری داخلہ شاہد خان صاحب کو خط لکھا۔سیکرٹری صاحب نے خط کا جواب تک نہیں دیا۔مجھے یقین ہے کہ میں تقسیم سے پہلے پیدا ہوتا اور سیکرٹری جو رچرڈ یا رابرٹ ہوتا‘ تو مجھے ضرور جواب دیتا۔بہر طور‘ اس کے بعد میں نے دارالحکومت کے چیف کمشنر جناب جواد پال کو خط لکھا۔ انہوں نے ازراہ لطف و کرم جواب دیا اور وعدہ کیا کہ نئے مالی سال یعنی جولائی سے کام شروع ہو جائے گا۔جولائی اب ستمبر میں تبدیل ہو رہی ہے۔آثار تو دور کی بات ہے‘ضلعی انتظامیہ کا کوئی ادنیٰ سا اہلکار بھی اس علاقے میں کبھی نظر نہیں آیا۔ مجھے یقین ہے کہ میں تقسیم سے پہلے پیدا ہوتا تو چیف کمشنر جو کوئی جانسن یا فرانسس ہوتا‘ ایک شہری کا خط ملنے پر پہلی فرصت میں خود موقع پر آتا اوروہیں احکام جاری کر کے چند ماہ میں کام مکمل کرا دیتا۔ اب ہم محلے والے اپنے خرچ پر گلیاں پکی کرانے کی سوچ رہے ہیں جو لاکھوں میں ہے اور ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں ۔ کچھ نقل مکانی کا سوچ رہے ہیں۔
میں ملک کے وزیر اعظم سے دست بستہ گزارش کرتا ہوں کہ عالی جاہ!اگر آپ کو پارلیمنٹ میں (جہاں اب جہاں پناہ باقاعدگی سے جانے لگے ہیں) آئین اور جمہوریت کے تحفظ پر تقریریں سننے سے فرصت ملے تو خدا کے لیے اور اس کے رسول ؐ کے واسطے لاکھوں کروڑوں کی وہ رقم تو مجھے واپس فرما دیجیے جو ٹیکس کی مد میں حکومت مجھ بے کس غریب سے لے چکی ہے!