ایشوز

یہ میں کیا دیکھ رہا تھا۔ آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ ہنری کسنجر... اور لاہور میں...! دوبارہ پھرتیسری بار غور سے دیکھا۔وہی تھا۔ وہی سر، وہی عینک، وہی چال، ہاتھ میں وہی مشہور بیگ جو اس کا ٹریڈ مارک بن چکا تھا۔
وہ ایئرپورٹ پر ''آمد‘‘ کے راستے سے نکلا اور لائونج کی طرف چل دیا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ صحافت کی رگ پھڑک رہی تھی۔ ہنری کسنجر لائونج میں داخل ہوا۔ جس حصے میں وہ گیا اور صوفے پر بیٹھنے لگا وہاں ایک معمر شخص اٹھا اور کسنجر سے بغل گیر ہو گیا۔ ایک ثانیہ توقف کے بعد میں نے اسے پہچانا۔ یہ بزرگ نوم چومسکی تھا۔ یہ دونوں بیٹھ کر ایک دوسرے کا حال پوچھ ہی رہے تھے۔ ایک بوڑھا لاٹھی ٹیکتا آیا۔ اس کے آگے پیچھے عرب خدام تھے۔ غور سے دیکھا تو احمد ذکی یمنی تھا جو چوبیس سال سعودی عرب کا تیل کا وزیر اور مشرق وسطیٰ کا پالیسی ساز رہا۔ اس کے بارے میں ریڈرز ڈائجسٹ نے ہنری کسنجر کا یہ قول نقل کیا تھا۔ ذکی یمنی مشاہیر کو مسلسل کھلاتا پلاتا رہتا ہے۔ جب کاہلی اور سیری ان پر حاوی ہو جاتی ہے تو وہ طویل تھکا دینے والے مذاکرات شروع کرتا ہے۔ اکثر و بیشتر کامیاب رہتا ہے اور ٹارگٹ حاصل کرکے رہتا ہے۔
ذکی یمنی کو میں نے جھک کر، گھٹنے چھو کرسلام کیا۔ یااللہ! یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں۔ امریتا سین لائونج میں داخل ہو رہا تھا۔ بھارتی ماہر اقتصادیات جسے 1998ء میں نوبل پرائز دیا گیا تھا۔ فلاح و بہبود کی معاشیات اس کا خاص مضمون تھا۔ قسمت یاوری کر رہی تھی۔ یہ وہ زعما تھے جن کی ایک جھلک دیکھ لینا، تاریخ کے قریب سے گزرنے کے مترادف تھا۔ یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیاں امریتا سین سے لیکچر کا وقت لینے کیلئے قطاروں میں کھڑی رہتی ہیں۔ اتنے میں یہ سب مشاہیر کھڑے ہو گئے اور ایک شخص کی آئو بھگت کرنے لگے جو ابھی ابھی لائونج میں داخل ہوا تھا۔ یہ رابرٹ شلر تھا جسے 2013ء میں اکنامکس کا نوبل پرائز ملا تھا۔ رابرٹ شلر کا پاکستان میں موجود ہونا معجزے سے کم نہ تھا۔ وہ 34 سال سے امریکہ کی نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ سے وابستہ ہے اور پیل یونیورسٹی میں پروفیسر ہے۔
میرا ماتھا ٹھنکا۔ اگر ذکی یمنی، ہنری کسنجر، نوم چومسکی، رابرٹ شلر اور امریتا سین لاہور میں جمع ہیں تو ضرور کچھ ہو رہا ہے۔ یا ہونے والا ہے۔ لیکن میں کس کھیت کی مولی تھا؟ مجھے یہ کیوں بتانے لگے؟ یہی غنیمت تھا کہ لائونج میں ایک طرف کھڑا ہو کرانہیں دیکھنے اور دیکھتے رہنے سے کوئی منع نہیں کر رہا تھا۔
دو چاق و چوبند نوجوان آئے اور سب مہمانوں کو لائونج سے باہر لے گئے۔ ان میں سے ہر ایک مہمان الگ لیموزین میں بیٹھا اور پول گاڑیوں کا یہ قافلہ ایئرپورٹ سے باہر نکلا۔ میں نے ایک ٹیکسی روکی اور ڈرائیور کو اس قافلے کے پیچھے جانے کا کہا۔ لیکن کہاں دردوالم کی ماری ٹھیکرا مارکہ ٹیکسی اور کہاں فراٹے بھرتی بیش بہا کاریں، بہرطور تعاقب جاری رہا۔
میری حیرت دوچند ہوگئی جب دیکھا کہ ساری برق رفتار لیموزینیں بلاول ہائوس کے بیرونی گیٹ سے اندر جا رہی تھیں۔ وہاں بہت سے دوسرے صحافی بھی موجود تھے اور عمارت کے اردگرد منڈلا رہے تھے۔ کبھی پہریدار انہیں بلڈنگ سے دور ہٹا دیتے اور کبھی ترس کھا کر نزدیک آنے دیتے۔
یہ رابرٹ شلرتھا جو تقریباً دو گھنٹے بعد باہر آیا۔ وہ گیٹ کے پاس کھڑا ہوا۔ اردگرد بکھرے ہوئے رپورٹروں اور کیمرہ مینوں کواشارے سے اس نے پاس بلایا اور مختصر بات کی۔ اس نے تمام رپورٹوں کو یاد دلایا کہ یہیں، اسی لاہور میں، اسی بلاول ہائوس میں جناب آصف زرداری نے دو دن پہلے اعلان کیا ہے کہ وہ کرسی کی سیاست نہیں کر رہے، وہ نواز شریف سے کرسی پر نہیں لڑیں گے بلکہ ایشوز پر لڑیں گے۔ رابرٹ شلر نے بیان جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر ان تمام سکالروں نے زرداری صاحب کے اس عزم پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔ ان حضرات نے فوراً ان ایشوز کی فہرست تیار کی جو جنوبی ایشیا میں یکے بعد دیگرے بحرانوں کا سبب بن رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر ایشوز وہ ہیں جن کا اثر نہ صرف پورے خطے پر، بلکہ پوری دنیا پر پڑ رہا ہے۔ یہ نادرموقع تھا۔ تقسیم سے لیکر اب تک پہلی بار ایک بہت بڑی جماعت کے رہنما نے کرسی کی بجائے ایشوز پر بات کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اگر زرداری صاحب اور میاں نواز شریف اہم ایشوز پربات چیت کرکے اپنی لڑائی کو اعلیٰ مقاصد پر مرتکز کردیں تو جنوبی ایشیا کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ چنانچہ ان ماہرین نے فیصلہ کیا کہ وہ رضاکارانہ طور پر جناب زرداری کو اپنے اپنے میدان میں ان ایشوز پر بریف کریں گے۔ شلر نے بتایا کہ ہنری کسنجر امریکی خارجہ پالیسی پر بریف کرے گا۔ نوم چومسکی امریکہ کی افغان پالیسی پر زرداری صاحب کو تیاری کرائے گا۔ احمد ذکی یمنی مشرق وسطیٰ میں کھیلی جانے والی آئل ڈپلومیسی پر پریزنٹیشن دے گا۔ امریتا سین زرعی اصلاحات کے ضمن میں زرداری صاحب کو ایک پورا منصوبہ بنا کر دے رہا ہے جس کی علاقے کو سخت ضرورت ہے۔ خود رابرٹ شلر پاکستان کیلئے ایسی اقتصادی پالیسی بنانا چاہتا ہے جس سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی زنجیروں سے رہائی ممکن ہو۔
یہ اہم خبر لیکر ہم صحافی اس وقت تو اپنے اپنے دفتر کو روانہ ہو گئے لیکن دوسرے دن صبح سویرے ہم نے پھر منڈلانا شروع کر دیا۔ تین چار دن یہ مشاہیر اندر ہی رہے۔ پانچویں دن یہ سب باہر نکلے جس طرح آئے تھے، اسی طرح لیموزینوں میں سوار ہوئے اور قافلہ ایئرپورٹ چل دیا۔ عجیب بات یہ نوٹ کی گئی کہ آمد کے موقع پر یہ حضرات خوش باش تھے اور ایک دوسرے سے خوش گپیاں کر رہے تھے۔ لیکن آج روانگی کے وقت سب چپ تھے۔ ہر ایک کے چہرے پر گہرے غورو فکر کے آثار تھے۔ ذکی یمنی تو اپنے خصوصی طیارے میں بیٹھ کر فوراً روانہ ہوگئے۔ کچھ دیر بعد کسنجر کی پرواز کا اعلان ہوا۔ ہم نے سوچا اگر یہ سب چلے گئے تو اندر کی خبر کون دے گا اور اس گھمبیر خاموشی کا راز کیونکر کھلے گا۔
ہمت کرکے میں اور ایک ساتھی رابرٹ شلر کے پاس گئے اور اجازت لے کر پوچھا کہ بلاول ہائوس میں کیا گزری! شلر نے انتہائی جھلاہٹ کے ساتھ بات کی اور وہ بھی مختصر۔ اس کا کہنا تھا کہ ان سکالروں کی ساری تیاریاں عبث گئیں۔ بلاول ہائوس میں ایشوز کی جو فہرست انہیں دی گئی اور جن پر بریفنگ کا کہا گیا ان کے بارے میں ان کا علم صفر تھا۔ پہلا ایشو، جس پر لڑائی ہوئی ہے، یہ تھا کہ پشاور میں جس بلاول ہائوس کی تعمیر کا اعلان کیا گیا ہے وہ کہاں بنے گا؟ دوسرا ایشو زرداری صاحب کے ان بیس گھوڑوں سے متعلق تھا جن کی خبر حال ہی میں چھپی تھی۔ مربے اور چہارمغز ان کی خوراک تھی۔ کچھ بکریوں کا ایشو بھی ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ لیکن اصل ایشو یہ تھا کہ مریم نواز، حمزہ شہباز اور بلاول زرداری کے درمیان حکمرانی کے حقوق کیسے تقسیم ہوں۔ جھگڑا یہ اٹھنا ہے کہ پہلے مریم نواز وزیراعظم بنیں گی یا بلاول۔ اور حمزہ شہباز کو کیا دیا جائے گا۔ وزارت عظمیٰ کی باری کتنے کتنے سال بعد آئے گی۔ ایک اور ایشو یہ تھا کہ میڈیا میں زرداری صاحب اورمیاں صاحب کی بیرون ملک جائیدادوں کے بارے میں جو ہرزہ سرائی ہو رہی ہے اس کا سدباب کیسے ہو۔ نصب العین یہ بھی تھا کہ ان سارے ایشوز پر جو ''لڑائی‘‘ ہوئی ہے وہ پرامن ماحول میں ''لڑی‘‘ جائے اور معاملات پیار محبت سے طے ہو جائیں۔
ہم نے کچھ ضمنی سوالات پوچھے لیکن شلر نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ بوجھل قدموں سے جہاز کی طرف روانہ ہو گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں