یہ 1973ء کا واقعہ ہے۔سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم کے بینک میں ڈاکہ پڑا ۔ ڈاکوئوں نے بینک کے چار ملازمین کو یرغمال بنالیا۔ چھ دن تک یہ ملازمین ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر رہے۔ اس اثناء میں پولیس کے حکام ان کی رہائی کے لیے مذاکرات کرتے رہے۔لیکن ایک عجیب و غریب رویہ یرغمالیوں میں نوٹ کیا گیا۔ وہ پولیس کے بجائے ڈاکوئوں کا ساتھ دینے لگ گئے۔ رہائی کے بعد بھی وہ قید میں رکھنے والوں کے وفادار رہے۔ یہاں تک کہ ان کے خلاف گواہی دینے سے بھی انکار کردیا۔ پھر جب ڈاکوئوں کو رقم کی ضرورت پڑی تاکہ وہ عدالت میں مقدمہ لڑ سکیں تو یرغمال رہنے والے ملازمین نے رقم اکٹھی کرنے میں ان کی مدد بھی کی۔
ماہرین نفسیات نے ،اس عجیب و غریب رویے پر گہری دلچسپی لی۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں ریسرچ ہونے لگی ، یہاں تک کہ ماہرین نفسیات نے اس رویے کو ''سٹاک ہوم سنڈروم ‘‘ (Stockhom Syndrome)کا نام دیا۔ اس سنڈروم کا مطلب یہ ہے کہ قیدیوں کا جیلر کے ساتھ یا یرغمالیوں کا ڈاکوئوں کے ساتھ ایک طرح کا انس پیدا ہو جانا، جس میں قیدی جیلر کے لیے اپنے دل میں کشش سی محسوس کرتا ہے ۔ ایک گیت یا غزل کے بول ہمارے ہاں عام ہیں ع
اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے
اس رویے کے اسباب و علل کیا ہیں؟ اس پر کتابوں کی کتابیں تصنیف کی گئیں۔ڈھیروں رپورٹیں تیار ہوئیں‘ کئی تجزیے کیے گئے ۔جیلوں میں قید مجرموں کو زیرِمشاہدہ رکھا گیا لیکن یہ سب کچھ ہمارے موضوع سے باہر ہے!اب آپ ایک لمحے کے لیے‘ فقط نکتے کی وضاحت کی خاطر‘ اُن عمائدین کو جیلر سمجھیے جو حکمران جماعت (نون لیگ) کے کرتا دھرتا ہیں اور فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہیں ۔ اس میں شریف خاندان کے اکابرین ہی آتے ہیں۔دونوں بھائی اور ان کے قریبی رشتہ دار!!ان سربراہان سے وابستہ لوگوں کو یعنی وزیروں ،مشیروں اور پارٹی کے اہم ارکان کو ایک لمحے کے لیے قیدی سمجھیے۔یہ تمام وابستگان ، یہ تمام قیدی، خواہ اقتدار کے قیدی ہیں یا پارٹی کے۔''سٹاک ہوم سنڈروم‘‘ میں مبتلا ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کسی حال میں یہ اپنے ''جیلروں‘‘ سے بغاوت نہیں کرتے۔ جو سلوک بھی ان سے روا رکھا جائے ان کی وابستگی ‘ ان کی وفاداری‘ ان کے استقلال میں کمی نہیں آتی۔اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ ایک بہت دبنگ وزیر نے‘ جو حساس محکموں کے خلاف بیانات دے کر اپنے آپ کو فاتح قسم کی چیز محسوس کرتے ہیں‘ کچھ دن پہلے کابینہ کے اجلاس کے دوران سخت ترین الفاظ میں احتجاج کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک صوبہ ان کی وزارت میں مداخلت کر رہا ہے۔ صوبائی حکمران اعلیٰ کا ایک سیکرٹری اور ایک مشیر ان کی وزارت کے درپے ہیں۔ اور یہ کہ وہ ایک کمزور وزیر کے طور پر کام جاری نہیں رکھ سکتے یہاں تک کہ وہ استعفیٰ دینے کے لیے بھی تیار تھے۔ لیکن وزیر اعظم نے کوئی ایکشن لینے کی بجائے اور وجہ شکایت دور کرنے کی بجائے انہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ بس اتنی سی دیر تھی کہ وزیر صاحب جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ غصہ کافور ہو گیا۔ رام ہو گئے اور بات ختم ہو گئی۔ اسے سٹاک ہوم سنڈروم کا نام نہ دیا جائے تو کیا کہا جائے!اسی طرح ثقہ قسم کے جغادری ارکانِ جماعت کی موجودگی میں کل کے بچے اور آج کے لڑکے بالے پارٹی اورصوبہ چلا رہے ہیں،لیکن کسی کو احتجاج کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
ایک اور ''قیدی‘‘ ایوانِ صدر میں مقیم ہے ۔دھرنے کے بعد جو بحران پیدا ہوا،اس میں وزیر اعظم نے ایک سابق صدر کو اس قدر اہمیت دی کہ خود اس کی گاڑی ڈرائیو کی‘ ستر سے زیادہ پکوان حاضر کیے۔ موجودہ صدر کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی ،کسی مرحلے پر انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا، لیکن سٹاک ہوم سنڈروم کی یہ کیفیت ہے کہ صدر صاحب کے لیے یہ صورتحال گوارا ہے اور یہ سب کچھ جیسے انہیں بھلا لگتا ہے!تاہم ایک ''قیدی‘‘ ایسا آ گیا ہے جس پر اس سنڈروم کا مطلق اثر نہیں ہو رہا۔ یہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور ہیں۔ آگہی ایک عذاب ہے۔ جو پاکستانی بیرونِ ملک سے ہو آتے ہیں‘ وہی جانتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی یافتہ ملکوں سے کتنا پیچھے ہے اور قانون کی یہاں کیا درگت بن رہی ہے۔چودھری صاحب کئی بار برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔انہوں نے ایک عرصہ برطانوی سیاست میں گزارا اور اس کے نشیب و فراز سے گزرے ۔شریف برادران کا طرزِ حکومت ان کے لیے عجیب و غریب تجربہ ہے جسے وہ ہضم نہیں کر پا رہے ۔ اس طرزِ حکومت کا اندازہ اس حقیقت سے لگائیے کہ صوبائی وزیر داخلہ کا چارج وزیر اعلیٰ نے اٹھارہ سال اپنے پاس رکھا۔اٹھارہ سال میں پہلی بار انہوں نے اب اس قلمدان کو اپنے سے جدا کرنا گوارا کیا۔اسی طرح درجنوں وزارتوں کا چارج انہیں کے پاس ہے۔
وزیر اعظم نے چودہ ماہ سینیٹ کا رخ ہی نہیں کیا۔ یہ طرزِ حکومت آمریت کو بھی مات کر دیتا ہے۔پارلیمنٹ کو علم ہے نہ پاکستان ریلوے کو لیکن وزیر اعظم نے اپنی پسند کا ایک بہت بڑا منصوبہ منظور کر کے اس پر کام بھی شروع کرا دیا۔ سینیٹر تاج حیدر دہائی دے رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کی اجازت (Legislation)کے بغیر کمپنی کس طرح بن گئی؟ یہ بھی معلوم نہیں کہ کمپنی سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے ہاں رجسٹر بھی ہوئی ہے یا نہیں۔لیکن کمپنی (نام جس کاکشمیر ریلوے ہے) وجود میں بھی آ چکی ہے۔ وزیر اعظم کی ''خواہش‘‘ ہے کہ اسلام آباد سے مری اور مظفر آباد تک ریلوے لائن بنے اور ریل چلے؛ چنانچہ متعلقہ محکمے کو درمیان میں لائے بغیر آسٹریا کی ایک کمپنی کو تقریباً پونے چھ کروڑ روپے کا کنٹریکٹ بھی عطا کر دیا گیا کہ وہ جائز ہ رپورٹ تیار کرے ،دو ارب روپے منصوبے کے لیے مختص بھی کر دیے گئے۔ ریلوے کا نمائندہ دوسری طرف سینیٹ کمپنی کو یہ بتا رہا ہے کہ اس کمپنی (کشمیرریلوے) کاپاکستان ریلوے سے کوئی تعلق نہیں!!
چودھری سرور کی جگہ فرض کیجیے اگر سعیدہ وارثی ہوتیں تو کیا وہ اس طرزِ حکومت کو قبول کرلیتیں؟ہرگز نہیں! یہ تو ہمارے پاکستانی وزیر ،گورنر اور صدر ہیں جو ہر قسم کی صورتحال میں ''محبت ‘‘ اور ''تعلق‘‘ پر ''آنچ‘‘ نہیں آنے دیتے۔یہ سب سٹاک ہوم سنڈروم میں مبتلا ہیں۔انہیں رہائی درکار ہے ،نہ آزادی پسند !یہ ایک خاندان کے اقتدار میں خوش ہیں۔ ان کے سفید بالوں والے سروں پر حمزہ شہباز بھی دست شفقت رکھ دے تو آمناّ و صدّقنا کہتے ہیں۔ ان پر مریم نوازشریف بھی حکم چلائیںتو خوشی محسوس کرتے ہیں،لیکن چودھری سرور رنگ میں بھنگ ڈال رہے ہیں۔وزیر اعظم سے تازہ ترین ملاقات میں انہوں نے رونا رویا ہے کہ اختیارات ان کے پاس بالکل نہیں ،نہ ہی وہ اپنی مرضی سے کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع کر سکتے ہیں۔خبر یہ ہے کہ انہوں نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے حوالے سے بھی بھرپور شکوہ کیا ہے!
تو کیا میر تقی میر نے چودھری صاحب کے حوالے سے کہا تھا کہ ع
جی کا جانا ٹھہر گیا ہے‘ صبح گیا یا شام گیا؟