اقبال ساجد کمال کا شاعر تھا۔ اس کا یہ شعر تو ادب کے ہر طالب علم کو یاد ہوگا ؎
کل شب دل بے مہر کو سینے سے نکالا
یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا
زود گو تھا۔ اور غریب اور بے روزگار بھی۔ مشاغل ایسے کہ کچھ رقم آئی بھی تو اسی طرح گئی جیسے عبدالحمید عدم کے ہاں آ کر جاتی تھی! اس غربت کا کچھ علاج وہ زودگوئی سے کر لیتا تھا۔ اِدھر کسی نے کچھ رقم پیش کی‘ اُدھر کھٹ سے اقبال ساجد نے غزل کہی اور خریدار کے حوالے کی! اب اس کا کیا ذکر کہ ان خریداروں میں کون کون تھا یا کون کون تھیں! بہرطور اس کے شعری مجموعے میں ایک غزل ایسی بھی ہے جس کے مقطع میں تخلص ایک شاعرہ کا ا ستعمال ہوا ہے!
اس لکھنے والے نے لاہور میں ایک شاعر بیوروکریٹ... یا بیوروکریٹ شاعر... کے دفتر میں اقبال ساجد کو بیٹھے دیکھا۔ ضرورت اس باکمال شاعر کو وہاں لائی تھی۔ صاحبِ دفتر‘ دفتر سے باہر اپنے سٹاف کو ہدایات دے رہا تھا کہ اقبال ساجد کو بتائو صاحب کہیں کام سے گئے ہیں۔ کچھ خبر نہیں کب لوٹیں گے۔ احتیاج بھی کیا کیا رنگ دکھلاتی ہے ؎
آنکہ شیران را کند روبہ مزاج
احتیاج است، احتیاج است، احتیاج
احتیاج سے شیر بھی لومڑی بن جانے پر مجبور ہوتے ہیں!
اقبال ساجد کی یاد یوں آئی کہ بھوک کے ہاتھوں بے بس ہو کر اس نے ایک غزل کہی تھی۔ افسوس! حافظے کی ڈھلوان سے وہ غزل پھسل چکی ہے مگر اس کا مفہوم یہ تھا کہ میں بھوک بوتا ہوں‘ بھوک اگتی ہے اور بھوک ہی کاٹتا ہوں! آج اقبال ساجد ہوتا تو سیاست کا منظرنامہ دیکھ کر ضرور ایک غزل اس مضمون کی کہتا کہ نفاق بویا جا رہا ہے‘ نفاق اُگ رہا ہے‘ نفاق کاٹا جا رہا ہے‘ نفاق اوڑھا جا رہا ہے اور نفاق ہی پیا جا رہا ہے۔
اس خطۂ زمین پر ان دنوں صبحِ کاذب پھوٹنے کے بعد صبحِ صادق کے انتظار میں آنکھیں پتھرا جاتی ہیں۔ مشرقی افق سے سورج نہیں‘ نفاق طلوع ہوتا ہے۔ دن بھر نفاق ہی آسمان پر چھایا رہتا ہے۔ روشنی کی شعاعیں نہیں‘ اس زمین پر نفاق اترتا ہے۔ بادل آئیں تو بارش نہیں‘ نفاق برساتے ہیں۔ یہاں تک کہ شام پڑ جاتی ہے۔ ہمارے آسمان پر ستارے نہیں‘ جگہ جگہ نفاق ابھرتا ہے‘ پھر نفاق کے علمبردار انگلیاں اٹھا اٹھا کر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ وہ دیکھو! ستارے نکلے ہیں! شام ڈھلتی ہے۔ رات پڑ جاتی ہے۔ بستروں پر نفاق بچھ جاتا ہے۔ نیند آتی ہے مگر نیند بھی کیا نیند ہے۔ پلکیں نہیں! نفاق آنکھوں کو ڈھانک دیتا ہے!
جو حضرات زندگی کے کسی شعبے میں ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں‘ جن کے تعلیمی ادارے الگ الگ ہیں‘ جو ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک پڑھنے کے روادار نہیں‘ جو ایک دوسرے کے خاندانوں میں رشتے کرنے سے گریز کرتے ہیں‘ جن کے جرائد و اخبارات‘ ماہنامے اور ہفت روزے الگ الگ ہیں‘ جن کی ساری زندگیاں ایک دوسرے کی فقہ کو غلط ثابت کرنے میں گزر جاتی ہیں‘ حتیٰ کہ جو کئی مواقع پر ایک دوسرے کو مذہب کے دائرے سے باہر قرار دیتے ہیں‘ وہ اپنے روزگار اور اپنی دکانیں بچانے کے لیے متحد ہو رہے ہیں۔
جس اقبال نے کہا تھا ؎
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
اُسی اقبال نے ضرب کلیم میں کہا ؎
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
کچھ لوگ اس سے پہلے پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔ انہوں نے پاکستان سے وہ فائدہ اٹھایا کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔ مچھلی پانی کے باہر زندہ رہ سکتی ہے لیکن وہ حکومت سے باہر وزارتوں کے بغیر سانس نہیں لے سکتے۔ وزارتیں بھی وہ جو‘ ان کی پسند کی ہوں۔
اب اکیسویں ترمیم کی منظوری میں ساتھ نہ دینے پر شکر ادا کیا جا رہا ہے کہ پھر گناہ سے بچ گئے۔ ساتھ مسلسل دعویٰ کہ ہم حکومت سے الگ ہو رہے ہیں‘ ہم مشاورت کا عمل شروع کر رہے ہیں‘ ہم جلد فیصلہ سنائیں گے۔ ہتھیلی پر بال اگ سکتے ہیں‘ کبوتری انڈے کے بجائے براہ راستہ بچہ جنم دے سکتی ہے مگر حکومت سے یہ الگ نہیں ہوں گے۔ یہ پروٹوکول کے جاہ و جلال‘ تزک و احتشام اور طمطراق کے بغیر چالیس کوس کیا‘ دو فرسنگ کا سفر نہیں کر سکتے۔
ایک صاحب نے اسلام پسندوں کو پھانسیاں دینے کا الزام لگایا ہے! ع
بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو
فرماتے ہیں ہم حکومت کے ساتھ ہیں نہ طالبان کے ساتھ۔ مطلب یہ کہ ''ضرورت‘‘ پڑنے پر دونوں کا ساتھ دیں گے۔ سوشل میڈیا پر خلقِ خدا نے خوب کہا ہے کہ اگر بھارت تشریف لے جائیں تو بیانات کچھ یوں ہوں گے... ''اسلام سچا مذہب ہے مگر دوسرے مذاہب کی بھی حمایت کرتے ہیں‘‘ یا... ''کشمیر پاکستان کا ہے مگر مؤقف ہندوستان کا بھی غلط نہیں‘‘!
نفاق کے بھی کیا کیا رنگ ہیں۔ ووٹ ڈالنے کے بعد آنسو بہائے گئے ہیں! کس کے؟ پانچ سال آپ کی پارٹی اقتدار میں رہی‘ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو پکڑنے کے لیے ادنیٰ سی کوشش بھی نہ ہوئی‘ اُس وقت آنسو نہ نکلے۔ اس خطۂ پاک پر چُن چُن کر ایسے افراد کو حکومت کا سربراہ بنایا گیا جو مہذب ملکوں میں میونسپل کمیٹی کی سرداری کے قابل نہ سمجھے جائیں۔ اُس وقت آنسو نہ نکلے۔ کرپشن میاں بیوی بچوں سمیت (MBBS) زمین سے آسمان تک چھا گئی۔ دنیا کے گراں ترین تفریحی شہروں میں واٹر فرنٹ پر بنے ہوئے محلات کے لیے سلسلہ جنبانیاں ہوئیں۔ حاجیوں کے احرام تک بیچ کھائے گئے‘ آنسو کیا‘ پلکیں تک نم نہ ہوئیں‘ آج آنسو ہیں کہ ٹپ ٹپ گر رہے ہیں۔ تو اگر ضمیر اتنا ہی زندہ تھا تو حضور! انکار کر دیتے ؎
سوداؔ قمارِ عشق میں شیریں سے کوہ کن
بازی اگرچہ پا نہ سکا‘ سر تو کھو سکا
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے رو سیاہ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا