شمیم زیدی کراچی کے اخبارات کے لیے کارٹون بناتے تھے۔ مشرق وسطیٰ چلے گئے۔ وہاں کے انگریزی روزناموں میں ایک عرصہ ان کے کارٹون شائع ہوتے رہے۔ کئی سال پہلے جب میلبورن آنا جانا شروع ہوا تو وہاں ان سے ملاقات ہوئی۔ کئی عشروں سے وہاں مقیم ہیں۔ ادبی محفلوں کی نظامت ان کے سپرد ہے۔ مزاحیہ جملوں سے بزم کو کشتِ زعفران بناتے ہیں۔ کارٹون بنانے کو ذریعۂ معاش نہیں بنایا۔ مستند مترجم اور ترجمان ہیں۔ لیکن چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ کارٹون اب بھی بناتے ہیں اور یوں کہ جو بات کئی صفحات پر مشتمل مضمون میں بیان کی جائے‘ وہ ایک کارٹون میں سما جاتی ہے۔
لگتا ہے کارٹون بنانے والوں کا ہمارے ہاں کال پڑ گیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ روزانہ کارٹون ہر اخبار کا ضروری جزو ہوتا تھا مگر اب یہ صنف کم از کم ہمارے پرنٹ میڈیا سے غائب ہو گئی ہے۔ ایک آدھ انگریزی اخبار میں کارٹون نظر آ جاتا ہے مگر وہ بھی کبھی کبھی۔ اب کارٹونوں کے بجائے تصویریں شائع ہوتی ہیں اور بے شمار!
ایسا نہیں کہ تصویروں میں نظر آنے والے لوگ کارٹون لگتے ہیں! مگر ایک مماثلت ایسی ہے جس کی بنا پر تصویروں ہی سے کارٹونوں کا کام لیا جا سکتا ہے۔ جس طرح ایک کارٹون کئی مضامین پر حاوی ہوتا ہے‘ اسی طرح ایک تصویر بھی بہت کچھ کہتی ہے اور بہت کچھ بتاتی ہے۔ ہنستی ہے‘ روتی ہے‘ نوحہ کرتی ہے۔ یوں کہ دیکھنے والا سر پر دو ہتھڑ مارنے لگتا ہے۔
دو دن پیشتر اخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں ایک صوبائی حکمران‘ ترک وزیراعظم سے ملاقات کر رہے ہیں‘ یہ تصویر اہتمام سے شائع کرائی گئی یا اس کا اہتمام سے شائع ہونا محض حسنِ اتفاق یا محض سوء اتفاق تھا! بہرطور یہ تصویر بہت کچھ کہہ رہی ہے۔
یہ تصویر چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ حکمت‘ دانائی‘ دوراندیشی اور مستقبل بینی کا یہاں نام و نشان ہے نہ ضرورت! دوسرے صوبوں کی حکومتوں کو تو چھوڑیے‘ دوسرے صوبوں کے پڑھے لکھے نوجوان اس تصویر کو دیکھ کر کیا سوچیں گے؟ ان کے ذہن میں کس قسم کے خیالات پرورش پائیں گے؟ جو جراثیم ایک صوبے کے خلاف پہلے ہی ان میں پائے جاتے ہیں‘ کیا وہ تقویت نہیں پکڑیں گے؟ ان کے اس سوال کا جواب کون دے گا کہ اس موقع پر وفاقی دارالحکومت میں صرف ایک صوبے کا حکمران کیوں بلایا گیا ہے؟ صرف وہ غیر ملکی وزیراعظم سے کیوں مل رہا ہے؟ کیا وفاق کی نظر میں سارے صوبے برابر نہیں ہیں؟
رہیں دوسرے صوبوں کی حکومتیں تو یہ تصویر اُن کے بارے میں بھی بہت کچھ بتا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ میں دم خم ہوتا تو جس دن افغانستان کے صدر نے اسلام آباد میں بیٹھ کر ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کو کابل کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی اور اس صوبے کے حکمران نے وہ دعوت قبول کر کے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد اپنے صوبے سے تجارتی وفد کے ہمراہ کابل کا دورہ کریں گے‘ اسی دن وہ پریس کانفرنس کرتے اور بتاتے کہ سرحدیں تو میرے صوبے سے مل رہی ہیں‘ لاکھوں مہاجرین میرے صوبے میں ہیں‘ روزانہ ہزاروں افراد میرے صوبے میں داخل ہو رہے ہیں‘ زبان اور نسل ہماری مشترک ہے‘ اور مجھے اس اہم موقع پر وفاقی دارالحکومت میں بلایا گیا نہ صوبے کو نمائندگی ہی دی گئی۔ لیکن ا س صوبے کے وزیراعلیٰ کو یا تو اس کا ادراک نہیں یا ہمت نہ تھی۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ اس تصویر کو دیکھ کر زیادہ سے زیادہ اس نکٹائی کی تعریف کر لیں گے جو تصویر میں نظر آنے والے صوبائی حکمران نے زیب تن کر رکھی ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ مسند پر تو بٹھا دیے گئے مگر وہ ع ما را خراب کردہ و خود مبتلا شدی کی تصویر ہیں۔ صوبے کے سردار‘ ان پر پیرانِ تسمہ پا کی طرح سوار ہیں جنہیں اٹھائے کمر دہری کیے وہ چل پھر رہے ہیں۔ ایک سردار بھی ناراض ہو جائے تو وزیراعظم ساری مصروفیات بالائے طاق رکھ کر اسے منانے چلے جاتے ہیں۔ رہے سندھ کے وزیراعلیٰ تو ذوالفقار مرزا نے گزشتہ ہفتے ان کے بارے میں یہ وحشت اثر خبردی ہے کہ وہ اپنے ہی دفتر میں کلرک رکھے جانے کے قابل بھی نہیں! نہیں معلوم وزیراعلیٰ کے دفتر کے کلرک اتنے بے حس کیوں ہو گئے ہیں۔ انہیں مرزا صاحب کے اس بیان پر احتجاج کرنا چاہیے تھا کہ کیا اب کلرکوں کی یہ عزت رہ گئی ہے کہ صوبائی وزیراعلیٰ جیسے لوگوں کو کلرکوں سے تشبیہ دی جانے لگی ہے؟ کلرک تو سچ پوچھیے‘ پوری حکومت چلا رہے ہیں جب کہ وزیراعلیٰ صرف سرکاری اجلاسوں میں نیند پوری کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
یہ تصویر ایک اور اعلان بھی کر رہی ہے! وہ یہ کہ ہمارے طرزِ حکومت پر جتنا احتجاج کیا جائے‘ میڈیا جتنی تنقید کرے‘ چھوٹے صوبے جتنا برا منائیں‘ ہم ٹس سے مس نہیں ہوں گے۔ ہم وہی کریں گے جو ہمارا دل چاہے گا۔ ہم چین ہو یا ترکی‘ وزیراعظم کے ساتھ جائیں گے۔ قطر میں وفاق کی نمائندگی ہم کریں گے۔ کابینہ میں بیٹھ کر وفاقی وزراء بے شک شکایتیں لگاتے پھریں کہ فلاں صوبے سے وزارت میں مداخلت ہو رہی ہے‘ ہم وفاق میں مداخلت کریں گے اور ضرور کریں گے۔ وفاق ہمارا ہے تو خاندان بھی ہمارا ہوگا!
یہ تصویر چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ ادارے بے بس ہیں۔ رولز آف بزنس کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ فردِ واحد کے منہ سے نکلا ہوا لفظ حرفِ آخر ہے۔ وزیر خارجہ کا وجود ہی نہیں۔ آج تک یہی نہیں معلوم ہو رہا کہ خارجہ امور جیسی اہم اور کلیدی وزارت چلا کون رہا ہے؟
وفاق میں چھوٹے صوبوں کی محافظ لے دے کے سینیٹ ہے۔ اس وقت چوٹی کے تینوں مناصب... وزارتِ عظمیٰ‘ قومی اسمبلی کی سربراہی اور سینیٹ کی سربراہی... ایک ہی صوبے کی جیب میں ہیں۔ تازہ ترین خبر کے مطابق راجہ ظفرالحق کو سینیٹ کا چیئرمین بنانے کا گرین سگنل دیا جا رہا ہے اور اگر کوئی آئینی رکاوٹ متصادم ہوئی تو اسحق ڈار کا نام لیا جا رہا ہے! رہی ایوانِ بالا میں چھوٹے صوبوں سے نمائندگی تو ووٹوں کی خرید و فروخت کھلم کھلا ہوتی ہے اور ڈنکے کی چوٹ ہوتی ہے۔ کبھی پندرہ کروڑ‘ کبھی اس سے بھی زیادہ کے نرخ متعین ہوتے ہیں۔ تین دن پہلے خیبر ایجنسی کی تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندے جمرود کے مقام پر اکٹھے ہوئے اور دہائی دیتے ہوئے الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کی توجہ آنے والے سینیٹ انتخابات میں پیسے کے استعمال کی طرف مبذول کرائی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ قبائلی علاقوں سے امیدوار جس طرح ووٹ خرید رہے ہیں‘ سپریم کورٹ اس کا ازخود نوٹس لے۔ ساتھ ہی انہوں نے گورنر سے اپیل کی کہ پولیٹیکل ایجنٹ مقامی معاملات میں سیاسی لیڈرشپ کو بھی اعتماد میں لیا کریں!
آپ اندازہ لگایئے‘ جس پولیٹیکل ایجنٹ کو انگریز حکومت نے دو سو سال پہلے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بٹھایا تھا‘ وہ پولیٹیکل ایجنٹ آج بھی قبائلی علاقے پر حکمرانی کر رہا ہے۔ کوئی منتخب نمائندہ‘ کوئی عوامی اسمبلی اس سے کسی معاملے میں جواب طلبی نہیں کر سکتی۔ قبائلی علاقوں کو صوبے میں ضم کیا جا رہا ہے نہ ہی ان کا یہ مطالبہ درخورِ اعتنا گردانا جا رہا ہے کہ انہیں الگ صوبے کا سٹیٹس دیا جائے۔ پولیٹیکل ایجنٹ کے ہاتھ میں فنڈز ایسے ہیں کہ ان کا آڈٹ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید کرنے کے اختیارات ان کے ہاتھ میں لامحدود ہیں۔ ستر سال ہونے کو ہیں۔ قبائلی علاقوں میں کوئی یونیورسٹی نہیں بنی۔ غور فرمایئے‘ ستر سال۔ یعنی قبائلی علاقے میں جو بچہ قیام پاکستان کے وقت پیدا ہوا وہ آج اڑسٹھ سال کا بڈھا ہے۔ اگر وہ دو سال اور زندہ رہا تو سات عشرے پورے کر لے گا۔ اس سارے عرصہ میں اس کے علاقے میں کوئی یونیورسٹی نہیں بنی۔ کوئی کارخانہ نہیں لگا۔ کوئی شاپنگ مال نہیں تعمیر ہوا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک دلخراش تصویر نظر آئی۔ غالباً بنوں کی تھی۔ میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے امیدوار امتحان دے رہے تھے۔ کھلے میدان میں سب زمین پر بیٹھے پرچہ حل کر رہے تھے۔ ٹاٹ تک نہ تھا۔ سردی میں انہوں نے چادریں اوڑھی ہوئی تھیں۔ یہ ہے وہ ترقی جو چھوٹے صوبوں کو‘ قبائلی علاقوں کو ہم نے دی کہ امتحان دینے کے لیے میز کرسی اور چھت تک میسر نہیں! وفاق میں غیر ملکی وزیراعظم کو ملنے کے لیے نمائندگی تو دور کی بات ہے!
بات شمیم زیدی کے کارٹونوں سے شروع ہوئی تھی۔ ختم آنسوئوں پر ہو رہی ہے!