یہ باغ کا بیرونی دروازہ ہے۔ اس کے ایک طرف کھلونوں کی دکان ہے۔ ایسی دکان جہاں کسی شے کی قیمت نہیں لی جاتی! چھوٹی سی ڈنکی سے لے کر قد آدم سپرمین تک، بلی سے لے کر بہت بڑے بھالو تک تمام کھلونے دکھائی دے رہے ہیں جو بچہ جتنے کھلونے اپنی دونوں بانہوں میں سمیٹ سکتا ہے، لے جا سکتا ہے۔
بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں۔ باغ وسیع و عریض ہے، بچوں کی دلچسپی کا ہر سامان موجود ہے، جھولوں سے لے کر سلائیڈ تک، ہر طرف پھول ہیں اور مخملیں سبزے کی روشیں، درمیان میں پانی سے بھری نہریں ہیں، نہروں کی گہرائی برائے نام ہے، بچے پانی کے اندر چل سکتے ہیں، بیٹھ بھی سکتے ہیں۔
یہ دیکھیے، یہ سٹال چاکلیٹ کا ہے‘ اس طرف سارے مشروبات پڑے ہیں، بڑے بڑے واٹر کولر جتنے ڈبوں میں کوکا کولا ہے، فنٹا ہے، پھلوں کا رس ہے، قلفیاں ہیں، برف کے میٹھے گولے ہیں اور آگے چلیے، وڈیو گیم کے کئی ماڈل نصب ہیں، کہیں بچے موبائل فون سے کھیل رہے ہیں‘ کچھ کے ہاتھوں میں آئی پیڈ ہیں، کچھ ایک لیپ ٹاپ کے گرد جمع ہیں اور کارٹون دیکھ رہے ہیں۔
یہ وہ تفریح گاہ ہے جو میں بچوں کے لیے بنانا چاہتا ہوں، اگر کبھی اتنی رقم کا بندوبست ہو گیا جس سے یہ سب کچھ بن سکے اور پھر چل بھی سکے تو کیا ہی کہنا! امید موہوم ہے مگر بات یہ ہے کہ حسرت کو خواہش کا رنگ دینے میں مضائقہ ہی کیا ہے ؎
ہمارا گھر ہمیشہ بے سر و ساماں رہے گا
بہت کم حسرتیں ہوں گی، شمار آساں رہے گا
اس منصوبہ بندی کی ضرورت یوں پیش آئی کہ میں اپنی نواسی اور پوتی کو اور نواسوں اور پوتوں کو ان کے سنگدل ماں باپ کی بے جا پابندیوں سے بچانا چاہتا ہوں، کبھی چاکلیٹ کھانے سے منع کیا جا رہا ہے، کبھی کوکا کولا نہیں دیا جا رہا۔ ظلم کی حد یہ ہے کہ فرشتوں جیسے معصوم بچوں کو کوکا کولا میں پانی ملا کر دیا جاتا ہے جسے وہ خاموشی اور جبر کے ساتھ پی لیتے ہیں اور خوش بھی ہو جاتے ہیں۔ بہوئوں کو شکوہ ہے کہ انکل حمزہ اور تیمور کو اپنا آئی فون فوراً دے دیتے ہیں۔ بیٹی کو گلہ ہے کہ ابو زینب کو بگاڑ رہے ہیں۔ بچوں کے خلاف اس خاموش اور سرد جنگ میں تاجر برادری بھی آستینیں چڑھا کر شامل ہو گئی ہے۔ مارکیٹ میں ایسی آئس کریم آ گئی ہے جو اصل میں منجمد دہی ہے، تھیوری یہ ہے کہ آئس کریم نقصان دہ ہے اور دہی میں غذائیت ہے۔
بچوں کے خلاف اس منصوبہ بندی میں ایک لفظ سننے میں بہت آتا ہے، ''جنک فوڈ‘‘۔ بچوں کو جنک فوڈ نہ دو۔ ہر وہ شے جسے بچے پسند کرتے ہیں، جنک فوڈ کے زمرے میں ڈال دی جاتی ہے۔ چپس سے لے کر چاکلیٹ تک، کوک اور فنٹا سے لے کر لولی پاپ اور ٹافی تک، برگر سے لے کر آئس کریم تک! حالانکہ اپنی پسند کی چیزیں کھانا بچوں کا بنیادی حق ہے۔ جب تک میرے اس ناتواں جسم میں جان ہے میں بچوں کے اس حق کے لیے لڑتا رہوں گا۔ بہو کی مشکوک خاموشی اور بیٹی کے ماتھے پر شکنیں مجھے اپنے راستے سے نہیں ہٹا سکتیں۔
جب بھی موقع ملے میں یہ کہہ کر کہ ہم سیر کے لیے جا رہے ہیں، بچوں کو باہر لے جاتا ہوں۔ یہ وہ چند کم یاب اور خوش قسمت لمحے ہوتے ہیں جب ان کے ماں باپ ساتھ نہیں ہوتے۔ کسی بھی قریبی مارکیٹ میں ہم اپنے آپ کو گم کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی مرضی کی اشیاء ٹوکری یا ٹرالی میں ڈالتے ہیں۔ میں ادائیگی کرتا ہوں۔ پھر ہم کوشش کرتے ہیں کہ وہیںکہیں بیٹھ کر کھا لیں، گھر لائیں گے تو ہر طرف اعتراض اٹھیں گے، تقریریں کی جائیں گی اور ماحول کو مکدر کرنے کی بھرپور کوششیں ہوں گی۔ کچھ عرصے پہلے کلب میں نواسے کو تازہ بنے ہوئے چپس کھلا رہا تھا، اس کا دل چاہا کہ وہ فقط کیچ اپ کھائے، ابھی اس نے انگلی سے تھوڑی سی ہی کھائی تھی کہ اس کی ماں اوپر سے نازل ہو گئی۔ ''یہ صرف کیچ اپ کیوں کھا رہا ہے؟‘‘۔ دل تو چاہا کہ جواب دوں ''اس لیے کہ حلال ہے‘‘، مگر مصلحت آڑے آئی اور سیاسی جواب دیا کہ ''نہیں، صرف کیچ اپ نہیں، چپس بھی ساتھ کھا رہا ہے‘‘۔
بچے کھیل میں مگن ہوں اور خوب لطف اندوز ہو رہے ہوں تو عین اس وقت گھنٹی بجتی ہے: ''مولوی صاحب آئے ہیں، پڑھانے کے لیے۔‘‘ زہر لگتے ہیں اس وقت مولوی صاحب! کیا آج ہی بچوں نے عالم فاضل بننا ہے! صبح میٹھی نیند کے مزے لے رہے ہوں تو سکول جانے کے لیے اٹھا دیا جاتا ہے۔ میرا بس چلے تو ہفتے میں ایک دن سکول ہو اور باقی دن کھیل کود کے۔ میری بیٹی اور اس کے بھائیوں کا یہ اعتراض کہ ان کے ساتھ تو میں سختی کرتا تھا، ایک غیرمنطقی اور ناروا اعتراض ہے۔ اس وقت میں باپ تھا اور باپ کے فرائض دیانتداری سے سرانجام دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہوم ورک باقاعدگی سے کرایا اور دیکھا جاتا تھا۔ برٹش کونسل (مرحوم) سے لائی ہوئی کتابیں اس کے علاوہ پڑھنا ہوتی تھیں، ہفتے میں دو بار فارسی کا سبق بھی لینا ہوتا تھا، ہر روز انگریزی اخبار سے ایک خبر کا ترجمہ بھی کرنا ہوتا تھا جس کا فی سطر ''معاوضہ‘‘ دیا جاتا تھا! یہ سب درست ہے، مگر یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ اب میں نانا اور دادا ہوں۔ نانا اور دادا کے فرائض اور ہوتے ہیں۔ انگریزی کا محاورہ ہے کہ ادھر دروازے سے نانا نانی دادا دادی داخل ہوئے ادھر کھڑکی کے راستے ڈسپلن باہر کود گیا۔
ایک بار ٹورنٹو کی نواحی بستی میں ایک ریستوران میں بیٹھے تھے۔ ایک بڑھیا ساتھ والی میز پر سات آٹھ سالہ بچے کے ساتھ بیٹھی تھی، انواع و اقسام کی ماکولات اور مشروبات بچے کے سامنے دھری تھیں، وہ کھا رہا تھا اور بڑھیا اسے دیکھ رہی تھی، مسرت کی کرنیں اس کی بوڑھی آنکھوں سے یوں نکل رہی تھیں کہ آپ ان کرنوں کو ہاتھ سے جیسے چھو سکتے تھے۔ چہرے کو بشاشت کی لہر نے ڈھانپ کر اور بھی نورانی بنا دیا تھا۔ میں نے کہا: اس کا پوتا ہے؟ بیگم کا خیال تھا کہ نواسا بھی ہو سکتا ہے، پوچھا تو نواسا ہی تھا، کہنے لگی ہر ایتوار کو میں اسے اپنے ساتھ رکھتی ہوں۔ میں نے لقمہ دیا کہ ہم پر الزام ہے ہم ان بچوں کو بگاڑ رہے ہیں۔ بڑھیا کی آنکھوں سے کرنوں کی ایک اور قسم پھوٹی، یہ کرنیں شریر تھیں: ''ہاں! ٹھیک ہے، ہم بگاڑتے
ہیں، اور بگاڑیں گے! اس لیے کہ ہم Grand Parents ہیں۔ یہی ہمارا کام ہے!‘‘۔
کچھ عرصہ قبل یہ بھی سوچا کہ اپنی بیٹی اور اس کے میاں کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹ کھٹائوں کہ میری نواسی کو انہوں نے زبردستی اپنے پاس رکھا ہوا ہے، بہانہ کیا ہے، اس نے سکول جانا ہے، ابھی چھٹیاں نہیں ہوئیں، اگلے ہفتے امتحان ہے۔ یہ ریاضی میں کمزور ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ان سے کوئی پوچھے کہ کیا تم لوگ اسے نو سال کی عمر میں آئن سٹائن بنانا چاہتے ہو؟ اگر مہینے میں دس پندرہ دن سکول نہ جائے تو کیا قیامت آ جائے گی؟
اقبال نے کہا تھا ؎
وہی دیرینہ بیماری، وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی
اس دردناک صورتحال کا علاج وہی ہے جس کی منصوبہ بندی میں نے کررکھی ہے۔ ایک بڑا ایسا باغ نما گھر‘ جس میں صرف بچے ہوں اور میں۔ ان کے ماں باپ‘ اساتذہ اور استانیوں کا داخلہ ممنوع ہو۔ ہر طرف بچوں کے پسندیدہ مشروبات رکھے ہوں، چاکلیٹ، ٹافیوں، لولی پاپ، برف آئس کریم کے انبار کے انبار ہوں، کھلونے ہوں، بہترین موبائل فون، آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ ہوں، بڑی بڑی سکرینوں پر کارٹون لگے ہوں۔ پھول اور سبزہ ہو، تتلیاں ہوں، رنگین مچھلیاں پانیوں میں تیر رہی ہوں، کوئی ہوم ورک ہو‘ نہ مولوی صاحب ہی نظر آئیں۔ کیا عجب کسی دن بل گیٹس مجھ سے پوچھے کہ تم کیا چاہتے ہو تو میں بچوں کے لیے ایسے ایک محل کی فرمائش کر دوں! ؎
یہاں کچھ فرق حسرت اور تمنا میں نہیں ہے
کڑکتی دھوپ تھی، بادل کے ٹکڑے ہاتھ میں تھے