جناب پرویز رشید نے الفاظ کا غلط استعمال کیا اور بھرے ایوان میں کھڑے ہو کر معذرت کی۔ انہیں کرنا ہی چاہیے تھی۔ عمران خان کا ذکر کرتے ہوئے وہ اکثر الفاظ کو انتہا تک لے جاتے ہیں۔ الفاظ کو اتنا ہی کھینچنا چاہیے جتنا کہ تیسرے امریکی صدر جیفرسن نے امریکی آئین کو کھینچنے کے بارے میں کہا تھا۔ اتنا کہ بس ٹوٹنے نہ پائے۔ الفاظ تو بہت بڑی بات ہے‘ ایک نقطہ بھی سب کچھ بدل دیتا ہے۔ شاعر نے یوں ہی تو نہیں رونا رویا تھا ؎
ہم دعا لکھتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا
غور کیجیے کہ دعا اور دغا اور محرم اور مجرم دونوں میں بس ایک نقطے کا فرق ہے۔
تخت لاہور کی ترجمانی کے حوالے سے جناب پرویز رشید سے اختلافات اپنی جگہ‘ مگر اس سارے قصے میں دو پہلو قابل ذکر ہیں۔ ایک یہ کہ اہلِ مدرسہ نے بھی احتجاج میں‘ کہ ان کا حق تھا‘ توازن کھو دیا۔ سوشل میڈیا پر پھانسی تک دینے کی باتیں ہوئیں‘ یہ تو پرویز رشید صاحب نے جو کچھ کہا‘ اس کی بالواسطہ تصدیق کرنے والی بات ہوئی! افسر نے ماتحت کو بلا کر کہا کہ تمہارے بارے میں شکایت عام ہے تم دشنام طرازی کرتے ہو۔ اُس نے ایک موٹی سی گالی دی اور پوچھا کہ کس...... نے شکایت کی ہے؟ دوسرے یہ کہ ایوان میں معذرت کرتے وقت پرویز رشید صاحب نے کچھ باتیں فکرانگیز بھی کی ہیں۔ ان پر غور کرنا چاہیے۔
اہم ترین نکتہ اس بکھیڑے میں یہ ہے کہ جو کچھ پرویز رشید صاحب نے کہا‘ وہ مناسب نہیں تھا لیکن اگر ملک کو اُس پڑھی لکھی آبادی سے‘ جو مدرسہ سے نہیں پڑھی‘ رائے لی جائے تو گمان غالب یہ ہے کہ اکثریت جناب پرویز رشید سے اتفاق کرے گی۔ الفاظ سے بے شک اختلاف کرے لیکن مدعا شاید مختلف نہ ہو! یہ اتفاق خوش آئند نہیں‘ یہ ایک المیہ ہے اور اس کی ذمہ داری فریقین پر یکساں عاید ہوتی ہے۔
اس کی ذمہ داری اہل مدرسہ پر اس لیے عاید ہوتی ہے کہ دہشت گردوں کے بارے میں بہرطور ان کا رویہ وہ نہیں جو قوم کے دوسرے طبقات کا ہے۔ ہم نے ایک معتدل دینی جریدے میں گزشتہ ماہ یا دو ماہ قبل ایسا مضمون دیکھا جو آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کے بارے میں ایک سنگدل شخص ہی لکھ سکتا ہے۔ یہ دلیل کہ ''حکومت کوئی ایک مدرسہ بتائے جس کا تعلق دہشت گردی سے ہو‘‘ ایسی دلیل ہے جو کسی کو بھی متاثر نہیں کرتی۔ دہشت گردی سے تعلق صرف اسلحہ اور جسمانی شرکت سے نہیں ثابت ہوتا۔ یہ تو مائنڈ سیٹ ہے‘ ذہنی میلان ہے‘ بلکہ اجازت دیجیے تو عرض کیا جائے کہ ذہنیت ہے جو اہلِ مدرسہ دانستہ یا نادانستہ پیدا کر رہے ہیں۔
حاشا وکلاّ‘ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم مدرسہ کی علمی حوالے سے تکریم کے قائل نہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائک ایک بات پتے کی کہتے ہیں کہ کسی مذہب کی حقیقت کو جانچنا ہو تو اس کے پیروکاروں کو نہ دیکھو اس کی آسمانی کتاب کو دیکھو۔ مدارس پر تنقید کرنے والے صرف اُس فصل کو نہ دیکھیں جو مدارس میں کاٹی جا رہی ہے‘ اُس علم کو بھی دیکھیں جو وہاں پڑھایا جا رہا ہے اور پڑھایا جاتا رہا ہے۔ بجا کہ نصاب میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں‘ بجا کہ مدرسہ کا نصاب وقت کا ساتھ نہ دے سکا‘ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں علم مفقود ہے۔ کاش! مدارس کی تحقیر کرنے والے مقامات حریری یا مقامات ہمدانی کے چند صفحات ہی پڑھ لیتے تو جان پاتے کہ لغت کیا ہے اور فصاحت کیا ہے اور بلاغت کسے کہتے ہیں۔ اور علمی نکات ایک ایک لفظ میں کیسے سموئے گئے ہیں اور حیرت ذہن کی طنابیں کیسے کھینچ لیتی ہے اور رونگٹے کیسے کھڑے ہوتے ہیں اور انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ لٹریچر اصل میں کیا ہے اور کہاں ہے؟ بھلا ایسی شاعری دنیا میں کہاں ہوئی ہے ؎
امن اُمّ اوفیٰ دمنۃ لم تکلم
بحومانۃ الدّراج فالمتثلّم
عروضی سمرقندی کا چہار مقالہ پڑھ کر دیکھیے‘ انسانی نفسیات کی‘ تاریخِ اقتدار کی اور تاریخِ ادب کی کون سی گرہ ہے جو نہیں کھلتی۔ اخلاقِ جلالی کا جواب آج تک نہ لکھا جا سکا۔ اور کچھ نہیں تو اللہ کے بندو! گلستانِ سعدی ہی بالاستیعاب پڑھ کر دیکھ لو‘ حکومت کرنے سے لے کر عام زندگی گزارنے تک‘ سارے اسالیب سکھا دیے گئے۔ ایک زمانہ تھا کہ ناشائستہ شخص کو یہ کہہ کر معاف کر دیا جاتا تھا کہ اس نے فارسی ادب نہیں پڑھا۔
لیکن اثر صرف علمی نصاب سے نہیں پڑتا‘ اُن رجال سے بھی پڑتا ہے جو اُس نصاب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اہلِ مدرسہ نے وہ افراد پیدا کرنے چھوڑ دیے جو دھاک بٹھاتے تھے اور جن کے سامنے زبانیں گنگ ہو جاتی تھیں۔ یہی مدرسہ تھا جس نے شبلی نعمانی جیسی ہستیاں پیدا کیں۔ شبلی کے بھائی جو ولایت سے بیرسٹری پڑھ کر آئے آج ان کا نام بھی کسی کو نہیں معلوم لیکن مدرسہ کے پڑھے ہوئے شبلی آج بھی اہل علم کے اذہان پر حکومت کر رہے ہیں۔ پروفیسر برائون نے چوبیس سال لگا کر لٹریری ہسٹری آف پرشیا لکھی مگر جگہ جگہ شبلی کا حوالہ دیے بغیر اُسے کو چارہ نظر نہ آیا۔ تھامس آرنلڈ جیسے عالم اُن کے سامنے طفلِ مکتب تھے۔ کہاں آج کے مدرسہ سے نکلے ہوئے افراد اور کہاں وہ لوگ جنہوں نے شعرالعجم‘ موازنہ انیس و دبیر‘ المامون اور سیرۃ النبی جیسے شاہکار تصنیف کیے۔ یہ مدارس ہی تھے جنہوں نے مولانا احمد رضا خان بریلوی سے لے کر پیر کرم شاہ تک اور مولانا اشرف علی تھانوی سے لے کر مفتی تقی عثمانی تک‘ ایسے ایسے اہلِ علم پیدا کیے کہ پورا کرۂ ارض استفادہ کر رہا ہے۔
جناب پرویز رشید نے خوب کہا کہ مولانا عطاء الرحمن اور پروفیسر ساجد میر ایک دوسرے کے مدرسوں میں تو داخل نہیں ہو سکتے‘ جب کہ اُن کے خلاف اکٹھے ہو گئے۔ ادب کا ذوق رکھتے تو اقبال کا شعر اس موقع پر پڑھتے ؎
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
مگر کیا کیا جائے کہ طبقاتی مفادات‘ متحارب گروہوں کو بھی ایک صف میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ یہی ایوان ہیں جہاں مراعات میں اضافے کا بل پیش ہو تو سارے اختلافات بالائے طاق رکھ کر محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جاگیرداری کے خلاف یا غیرت کے نام پر قتل و غارت کے متعلق آج بل پیش کیجیے اور دیکھیے کہ جاہلیت کس طرح اتفاق پیدا کردیتی ہے!
آخر اہلِ مدرسہ اُن اعتراضات سے بے نیاز کیوں ہیں جو عوام کے‘ خاص طور پر‘ پڑھے لکھے عوام کے ذہنوں میں اٹھتے ہیں۔ یہ بے نیازی ہے یا بے بسی؟ یا اعترافِ شکست؟ ہر فرقے‘ ہر مسلک کی مسجد کیوں الگ ہے؟ مسجدوں کی پیشانیوں پر کسی نہ کسی طرح مسلک کا اظہار کیوں کیا جاتا ہے؟ اگر حرمِ کعبہ میں اور مسجدِ نبوی میں اُس مسلمان کی نماز ہو جاتی ہے جو ہاتھ سینے پر باندھتا ہے اور اُس کی بھی ہو جاتی ہے جو ناف پر رکھتا ہے اور اس کی بھی جو باندھتا ہی نہیں‘ کھلے چھوڑ دیتا ہے اور اُس کی بھی جو پائوں پاس پاس رکھتا ہے اور اس کی بھی جو دور دور رکھتا ہے اور اس کی بھی جو ہاتھوں کو بار بار کانوں تک لے جاتا ہے اور اس کی بھی جو آمین بلند آواز سے کہتا ہے اور اس کی بھی جو آہستہ کہتا ہے اور اس کی بھی جو امام کی اقتدا میں فاتحہ پڑھتا ہے اور اس کی بھی جو نہیں پڑھتا... تو پاکستان کی مسجدوں میں کیوں نہیں ہوتی؟ شیعہ طالب علم سُنی مدارس میں اور دیوبندیوں کے بچے بریلویوں کے مدرسوں میں کیوں نہیں تعلیم حاصل کر سکتے؟ نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کی خاک تک کا دعویٰ چھوڑیے‘ سندھ سے راوی تک اور گلگت سے کراچی تک ہی اتفاق دکھا دیجیے ؎
میں کب سے گوش بر آواز ہوں‘ پکارو بھی
زمین پر یہ ستارے کبھی اتارو بھی