جس طرح پاکستان کے دارالحکومت کو ٹیکسلا، فتح جنگ، مری اور مندرہ نے حصار میں لے رکھا ہے، اسی طرح بھارتی دارالحکومت دہلی کو گوڑ گائوں، نوئیڈا، فرید آباد اور غازی آباد نے اپنے بازوئوں میں لے رکھا ہے۔ گڑگائوں دہلی کے جنوب مغرب میں تقریباً بتیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ نوئیڈا جنوب مشرق میں ہے۔ جنوب میں یعنی گوڑ گائوں اور نوئیڈا کے درمیان فرید آباد واقع ہے۔ غازی آباد دہلی کے شمال مشرق میں ہے۔ یہ سارے مضافاتی شہر ''نیشنل کیپیٹل ریجن‘‘ میں شامل ہیں اور مختلف سمتوں میں واقع ہیں۔ دارالحکومت آنے والوں کو ہرچہار طرف سے یلغار ہوتی ہے۔ بھارتی حکومت نے آمدورفت کے کسی ایک روٹ کو ماڈل بنانے کے بجائے مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا اور دارالحکومت میں داخل ہونے والے تمام راستوں کو مدنظر رکھ کر زیرزمین ریلوے (میٹرو) کا منصوبہ بنایا۔ یہ منصوبہ بندی 1984ء میں شروع ہوئی۔ مرکزی حکومت اور دہلی کی حکومت کے اشتراک سے ''دہلی میٹرو ریل کارپوریشن‘‘ 1995ء میں وجود میں آئی۔ منصوبے کی تعمیر کا آغاز 1998ء میں ہوا۔ 2002ء میں پہلا روٹ مکمل ہوگیا۔ دوسرا 2004ء میں تیسرا ایک سال بعد اور 2011ء میں سارے روٹ مکمل کردیئے گئے۔
دہلی میٹرو چھ سمتوں سے مسافروں کو دارالحکومت لاتی ہے۔ ہر روٹ مختلف رنگ سے پہچانا جاتا ہے۔ سرخ لائن، زرد لائن، نیلی لائن، سبز لائن، بنفشی لائن اور مالٹئی لائن۔ مشرق سے مغربی کنارے تک، شمال سے جنوب کے مضافات تک، شمال مشرق سے جنوب مغرب تک، شمال مغرب سے جنوب مشرق تک۔ غرض ساری سمتیں،
سارے روٹ اور سارے علاقے، میٹرو سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پٹڑی کی لمبائی کے لحاظ سے دنیا میں زیرزمین ریلوے کا یہ پندرھواں بڑا نظام ہے۔ سٹیشنوں کی تعداد کے لحاظ سے یہ بارھویں نمبر پر ہے۔ اس سے پہلے یہ تجربہ کلکتہ اور چنائی (مدراس) میں کامیابی سے کیا جا چکا۔193 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی یہ ریلوے ایک سو چالیس سٹیشنوں پر رکتی ہے۔ سارے سٹیشن خودکار برقی سیڑھیوں سے آراستہ ہیں۔ نابینا مسافروں کی رہنمائی کیلئے خاص قسم کی ابھری ہوئی ٹائلیں (Tactile-Tiles) لگائی گئی ہیں۔ نومبر2014ء میں حساب لگایا گیا تو جو اعدادوشمار سامنے آئے، ان کی روسے صبح ساڑھے پانچ بجے سے لے کر رات بارہ بجے تک یہ میٹرو ہر روز تین ہزار پھیرے ڈالتی ہے۔ اوسطاً ہر چار منٹ بعد ٹرین پکڑی جا سکتی ہے۔ چوبیس لاکھ افراد روزانہ سفر کر رہے ہیں۔ آغاز سے لے کر اگست 2010ء تک کل ایک ارب پچیس کروڑ مسافر استفادہ کر چکے تھے۔ نئے پیدا ہونے والے مسائل کو ساتھ ساتھ حل کیا جا رہا ہے۔ بعض راستوں پر پانچ یا چھ ڈبوں کے بجائے آٹھ ڈبے مہیا کیے جا رہے ہیں۔
دہلی میٹرو کی مثال اس لئے دی جا رہی ہے کہ کسی مغربی ملک کی بات کی جائے تو ہمارا عمومی ردعمل یہ ہوتا ہے کہ گورا آخر گورا ہے۔ بھارتی گورے نہیں، بلکہ مجموعی طور پر ہم پاکستانیوں سے زیادہ سانولے، زیادہ گندمی اور جنوبی بھارت میں زیادہ کالے رنگ کے ہیں، کرپشن بھی ہے۔ اگر دہلی میں میٹرو ٹرین کامیابی سے چل رہی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اسلام آباد راولپنڈی لاہور اور کراچی میں نہ چل سکے۔
مثالی بندوبست یہ ہے کہ دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ اور وفاقی حکومت مل کر یہ کام کریں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترقیاتی ادارہ اس کا اہل ہے؟ جو ادارہ نیا سیکٹر کھولنے میں ایک دہائی لگاتا ہے پھراسے آباد کرنے میں مزید دوعشرے صرف کرتا ہے، جس سے سینکڑوں ورکروں کے باوجود، صفائی کا انتظام نہیں ہو سکتا، جو شہر کے مکینوںکو پانی نہیں مہیا کرسکتا، کیا وہ اتنا بڑا کثیر الجہتی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے؟ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اگر اس کام کو کرنے کیلئے کوئی کارپوریشن بھی بنائی گئی تو اس کا سربراہ کسی خاص برادری سے یا کسی خاص علاقے سے چنا جائے گا۔ یا ایسا ریٹائرڈ بیورو کریٹ جس نے ملازمت کے دوران مستقبل ''محفوظ‘‘ کرنے کیلئے سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے، حضوری یا غیاب میں، یس سر ، یس سر کو ورد زبان رکھا ہوگا! اسلام آباد کے نئے زیر تعمیر ایئرپورٹ سے آپ صورتحال کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ 2007ء میں اس کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ آٹھ برس ہو چکے ہیں۔ ابھی تک تکمیل نہیں ہوئی۔ ہوسکتا ہے دنیا میں اپنے پائے کا یہ پہلا ایئرپورٹ ہو جو تعمیروتکمیل میں اتنا عرصہ لگا رہا ہے۔
اس کا ایک حل یہ ہے کہ نجی شعبے سے مدد لی جائے۔ پاکستان میں مکتوب رسانی سے لے کر اعلیٰ پائے کی یونیورسٹیوں تک اور شہروں کے درمیان پابندی وقت کے ساتھ چلنے والی بسوں سے لے کر جدید ہائوسنگ تک۔ اگر کامیابی سے اہداف حاصل کیے ہیں تو وہ نجی شعبہ ہی نے کیے ہیں۔ چند برس قبل، اس کالم نگار نے جب وہ ایک ادارے سے منسلک تھا، تجویز پیش کی تھی کہ زیرزمین ریلوے کا منصوبہ بحریہ تعمیرات کے سربراہ ملک ریاض کے سپرد کیا جائے اور معاہدہ ان خطوط پر کیا جائے کہ تکمیل کے بعد ایک مقررہ مدت تک اس سے حاصل ہونے والی آمدنی وہ اپنے پاس رکھیں اور مقررہ مدت ختم ہونے پر چلتا ہوا نظام حکومت کو سونپ دیں۔ دوسرا حل یہ ہے کہ اگر یہ کام حکومتی کارپوریشن نے کرنا ہے تو اس کا سربراہ کسی سید مصطفی کمال یا کسی ذوالفقار چیمہ کو بنایا جائے۔ جناب شہباز شریف بھی اس قسم کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک بروقت پہنچانے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں مگر صرف اسی صورت میں کہ وہ دوسرے عہدے اپنے پاس نہ رکھیں۔ سیاسی حیثیت کارناموں کو دھندلاتی ہے، اجاگر نہیں کرتی۔ آخر وہ وفاقی وزیر ٹرانسپورٹ یا رسل ورسائل کیوں نہیں بنتے تاکہ قوم ان کی خدمات اورطریق کار سے فائدہ اٹھائے۔ صوبائی حکومت کے سربراہ کا یہ کام نہیں کہ وہ وفاقی دارالحکومت کو اپنی سرگرمیوں کا ہدف بنائے یا پاک چین راہداری جیسے ملک گیر منصوبے پر دوسری صوبائی حکومتوں کو بریف کرے۔ اگر وفاق اور دارالحکومت کی انتظامیہ باہمی اشتراک سے کارپوریشن بنا کر زیرزمین ریلوے کا منصوبہ بناتے ہیں اور پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم کرتے ہیں تو جناب شہباز شریف کو صوبائی حکومت سے ہٹا کر اس کارپوریشن کا سربراہ بنایا جائے۔ انہیں بے شک وفاقی وزیر کا درجہ اور پروٹوکول دیا جائے۔ وسیع اختیارات بھی دیئے جائیں تاکہ نوکر شاہی کا سرخ فیتہ کام میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ بہت کم لوگوں کومعلوم ہے کہ کارپوریشنیں اسی لئے وجود میں لائی گئی تھیں کہ کوئی خاص منصوبہ، یا خاص سرگرمی، عام وزارتی یا سرکاری قوانین کی سست رفتاری کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے تو اسے کارپوریشن کے سپرد کیا جائے۔ کارپوریشن ایک خودمختار ادارہ ہوتا ہے جس کی اپنی مالیت، اپنا بجٹ اور اپنے قوانین ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کارپوریشنیں اقرباء پروری اور ملازم شاہی کا ذریعہ بن گئیں اور یوں سفید ہاتھیوں میں تبدیل ہوگئیں۔ مراعات کی دوڑ میں لالچی اور کوتاہ نظر اہلکار اگلی صف میں کھڑے نظر آئے۔ پیٹ پھول گئے۔ تجوریاں بھر گئیں۔ بھتیجیاں ایڈوائزر لگ گئیں اور ملک کے مفادات بھوکی نظروں میں ہیچ ہوگئے۔
ناممکن کوئی کام نہیں، دیانتداری اور نیت کا اخلاص شرط ہے۔ اقربا پروری دوست نوازی اور بندہ پروری کو خیر باد کہہ دیا جائے اور ذاتی اثاثوں کو مزید فربہ کرنے کے بجائے قومی اثاثوں کی فکر کی جائے تو پاکستان بھارت کیا، کئی دوسرے ملکوں سے آگے نکل سکتا ہے۔