پیر‘ فقیر‘ اوراد‘ وظائف

بظاہر بھلا چنگا ہے۔ یوں لگتا ہے کبھی بیمار ہی نہیں ہوا۔ کھانا پینا ٹھیک ہے۔ سارے ٹیسٹ نارمل ہیں۔ دل‘ گردے‘ جگر‘ تمام اعضائے رئیسہ اپنا اپنا کام صحیح کر رہے ہیں۔ پھر بھی ایک اسرار ہے جو کھلتا نہیں۔ گھنٹہ دو گھنٹے کام کرے تو ہلکان ہو کر بستر پر دراز ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر آتا ہے تو بتاتا ہے مجھے بیماری کوئی نہیں۔ بس ذرا بے حال ہو جاتا ہوں۔ پھر ذوقؔ کا شعر گنگناتا ہے ؎ 
نسخہ پر لکھنے نہیں پاتا ہوالشافی طبیب 
کہتا ہے بیمار بس کر مجھ کو بالکل ہے شفا 
ڈاکٹر گھروالوں کو کہتا ہے‘ کچھ بھی نہیں اسے‘ پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں‘ بس کھلائیں پلائیں۔ گھروالوں کو اطمینان تو ہوتا ہے مگر عارضی! دوسرے دن پھر وہی حال ہوتا ہے۔ میوہ ہائے تازہ و شیریں کام آتے ہیں نہ معجونیں‘ مقویات نہ خمیرے! چاندی کے ورق‘ عنبریں جواہر والی ادویات‘ مٹی کے برتنوں میں رکھا خالص شہد‘ کوہِ طور کے اردگرد سے آئے ہوئے زیتون! مقدس سرزمین کی کھجوریں‘ حاذق اطبّا کے خاندانی صدری نسخے... آہ! کچھ بھی کارگر نہیں ہوتا! کوئی نہیں بتاتا کہ مرض کیا ہے! 
کوئی نہیں بتاتا کہ مرض کیا ہے! پچپن ملک جیسے پچپن ہٹے کٹے نوجوان! کیا ہے جو ان پچپن مسلمان ملکوں کے پاس نہیں۔ افرادی قوت‘ ذہانت‘ معدنی‘ زرعی‘ صنعتی وسائل‘ تیل سے لے کر سونے تک قیمتی برآمدات! ایسے ایسے محل وقوع کہ دنیا رشک کرے۔ مراکش ایک تنگ سمندری راستہ بند کردے تو بحرِ روم اور بحرِ اوقیانوس کے درمیان آمدورفت موقوف ہو جائے۔ شمالی افریقہ کے ملکوں پر غور کیجیے۔ مصر‘ تیونس‘ لیبیا‘ الجزائر... کیسی کیسی بندرگاہیں ہیں ان کے پاس! ابھی کچھ ہی تو عرصہ گزرا ہے جب بحرروم کو ترکوں کی جھیل کہا جاتا تھا۔ مصر کے پاس سوینر ہے جس کی وجہ سے محاورہ بنا: ''سوینر کے اس طرف‘‘۔ افغانستان‘ پاکستان اور وسط ایشیا کے طوطے میں چین سے لے کر روس اور ا مریکہ تک سب کی جان اٹکی ہے۔ سعودی عرب اور صومالیہ‘ بحیرۂ قلزم کے دونوں کناروں کے مالک ہیں‘ عدن سمندروں کا چوکیدار ہے۔ شط العرب کے کناروں پر خلیجی ریاستیں اور ایران‘ جن کی گزرگاہوں کی پوری دنیا محتاج ہے! 
نعوذباللہ! یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ Manufacturing defect ہے! سارے انسان‘ سارے ملک‘ تمام قومیں‘ ساری نسلیں‘ سارے محل وقوع... اُس ایک پروردگار نے بنائے جس نے سینکڑوں سال تک ان مسلمانوں کو غلبہ عطا کیا۔ پھر اسی پروردگار کے بنائے ہوئے یورپی‘ امریکی‘ روسی‘ جاپانی اور چینی‘ ان مسلمانوں سے میلوں‘ کوسوں‘ برسوں نہیں‘ صدیاں آگے نکل گئے۔ کوئی ہے جو اس حقیر طالب علم کو سبب بتائے؟ کوئی طبیب؟ کوئی ڈاکٹر؟ کوئی جراح؟ آخر بیماری کیا ہے؟ 
دنیا کے بارہ خطرناک ترین ملکوں کی تازہ ترین فہرست جو مرتب ہوئی ہے‘ یوں ہے: عراق‘ شام‘ غزہ‘ نائیجیریا‘ پاکستان‘ افغانستان‘ یوکرائن‘ لبنان‘ یمن‘ انڈیا‘ لیبیا‘ صومالیہ۔ ان میں اگر نائیجیریا کو بھی مسلمان ملکوں میں شمار کریں (کہ وہاں اکاون فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے) تو بارہ میں سے دس ملک مسلمانوں کے ہیں۔ 2014ء میں دھماکہ خیز مواد اور اسلحہ سے جو سول آبادی میں اموات واقع ہوئی ہیں‘ یہ فہرست اُس حوالے سے بنی ہے۔ پاکستان کا پانچواں نمبر ہے۔ ایک لمحے کے لیے یہ بھول جایئے کہ ہم پاکستانی ہیں۔ غیر جانب دار ہو کر غور کیجیے‘ بین الاقوامی حوالے سے اہم ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ عالم اسلام کی سب سے عالی شان فوج جس کا پوری دنیا میں پانچواں یا چھٹا نمبر ہے‘ اسی ملک کی ہے۔ واحد مسلمان ملک جو ایٹمی طاقت ہے‘ عالمی ایٹمی کلب کا رکن! مگر حالت یہ ہے کہ خطرناک ملکوں میں پانچویں نمبر پر! گزشتہ برس دھماکوں اور قتل و غارت کے نتیجے میں تقریباً چار ہزار افراد مارے گئے‘ دو ہزار دو سو گیارہ جن میں سول آبادی سے تھے۔ ایک برس پہلے یہ ملک اس فہرست میں تیسرے نمبر پر تھا! 
وہ جو اقبال نے شکوہ کیا تھا کہ برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر... تو سبب اس کا آج تک کوئی نہیں بتا پایا۔ بحثیں بہت ہوئیں‘ کتابیں لکھی گئیں۔ کسی نے علما کو ذمہ دار ٹھہرایا‘ کسی نے حکمرانوں کو۔ کسی نے کانٹوں کا یہ ہار سیاست دانوں کے گلے میں ڈالا‘ کسی نے غیروں کی سازش پر تان توڑی۔ کوئی کہتا ہے کہ استعمار نے یہ حال کیا ہے‘ کوئی ناخواندگی کو مجرم ٹھہراتا ہے‘ کوئی آمریت کے ذمے لگاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے مذہب سے دوری کا نتیجہ ہے۔ کوئی کہتا ہے مذہب کو ا عصاب پر سوار کرنے سے ایسا ہوا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں‘ جتنے معالج اتنی تشخیصیں! کوئی نہیں جس کا یقین کیا جائے۔ 
آسٹریلیا میں لبنان سے جو مہاجر آئے ان کے دو گروہ تھے... نصرانی اور مسلمان! انڈرورلڈ میں یعنی زیر زمین جرائم میں‘ ماردھاڑ اور بدمعاشی میں لبنانی مسلمان اول نمبر پر ہیں۔ آخر کیوں؟ دنیا کی آدھی مسلمان آبادی داعش کو اسلامی خلافت کی قبا پہنا رہی ہے‘ باقی آدھی قتل و غارت کا الزام لگا رہی ہے۔ اتفاق کیوں نہیں ہو رہا؟ ایک ذرا سا ملک ہے افغانستان۔ عشروں پر عشرے گزر گئے۔ پختون‘ تاجک‘ ازبک‘ ہزارہ‘ سب برسرِ پیکار ہیں اور دست و گریبان ہیں۔ ایک خدا‘ ایک رسولؐ، ایک قرآن پر سب متفق ہیں مگر بلند کوہساروں سے لے کر نشیبی کمین گاہوں تک سب نے بندوق تانی ہوئی ہے؟ کیوں؟ کبھی وہاں جوراب بنی نہ جوتا‘ کپڑا بُنا گیا نہ منڈی میں وہاں کا ساختہ کوئی سویٹر یا پاجامہ ہی کہیں نظر آیا‘ مگر بارود اور لاشوں کا شمار نہیں! کیوں؟ 
وہی ریلوے تھی جو پاکستان کو ملی اور وہی بھارت کو! بھارتی ریلوے آج دنیا کی بہترین ریلوں میں شمار ہوتی ہے‘ پاکستان میں پٹڑیاں تک بِک گئیں‘ ریلوے کی زمینوں پر قبضے ہو گئے۔ حویلیاں سے ایبٹ آباد دس کلو میٹر ہے‘ انگریز حویلیاں تک ریل پہنچا گئے تھے۔ آج تک وہیں ہے۔ آخر کیوں؟ کسی شاستری‘ کسی ڈیسائی‘ کسی واجپائی‘ کسی منموہن‘ کسی مودی کے بارے میں نہیں سنا کہ بیرون ملک جائیدادیں ہوں یا کارخانے‘ یا محلات یا آسمان بوس قیمت کے اپارٹمنٹ! یہ اعزازات‘ یہ شرف‘ صرف پاکستانی حکمرانوں کے حصے میں آیا۔ کیوں؟ کسی اسرائیلی حکمران کے متعلق کبھی نہ سنا کہ اس کی کروڑوں ڈالر کی یاچ ہے یا اُس نے جزیرے خریدے یا خالص سونے کی بنی ہوئی گاڑی کا مالک بنا۔ یہ شہرتیں مشرق وسطیٰ کے مسلمان حکمرانوں کو نصیب ہوئیں۔ آخر کیوں؟ 
کوئی جاپانی‘ کوئی امریکی‘ کوئی برطانوی‘ کوئی فرانسیسی‘ کوئی جرمن‘ کوئی ہسپانوی‘ کوئی آسٹریلین‘ کسی مسلمان ملک میں شہریت حاصل کرنے کی درخواست نہیں دیتا! یہ سب لوگ مسلمان ملکوں کے موسموں پر مرتے ہیں۔ وہاں کے ساحلوں پر جان دیتے ہیں۔ وہاں کے کھانے پسند کرتے ہیں۔ مگر کسی کو تمنا نہیں کہ پاکستان کا یا بنگلہ دیش کا یا ترکی کا یا مصر کا یا الجزائر کا پاسپورٹ حاصل کرے اور پھر اس پر فخر کرے۔ ہاں! خلقِ خدا کے کارواں در کارواں مسلمان ملکوں سے رواں ہوتے ہیں اور سوئٹزر لینڈ سے لے کر کینیڈا تک‘ نیوزی لینڈ سے امریکہ تک‘ برطانیہ سے جرمنی اور ہسپانیہ تک‘ ناروے سے فن لینڈ تک جہاں بھی شہریت مل جائے‘ سجدۂ شکر بجا لاتے ہیں۔ پس ماندگان کو بلاتے ہیں‘ نئے پاسپورٹ پر فخر کرتے ہیں‘ بچوں کے مستقبل کو روشن بتاتے ہیں۔ پھر ان ملکوں میں آ کر یہ حلال کھانے تلاش کرتے ہیں اور مسجدوں کا قرب مانگتے ہیں۔ مگر پچپن میں سے کسی ایک مسلمان ملک کا بھی رُخ نہیں کرتے جہاں غذا بھی حلال شک و شبہ کے بغیر ملتی ہے اور مسجدوں کی بھی افراط ہے! آخر کیوں؟ یہ عقدہ کون کھولے گا؟ ان سوالوں کے جواب کون دے گا؟ 
شہزادہ ولید بن طلال بتیس ارب ڈالر خیرات و صدقات کے لیے وقف کر دیتا ہے مگر یونیورسٹی نہیں بناتا کہ مسلمان صدقات پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔ وہ ہارورڈ‘ جان ہاپکن‘ آکسفورڈ اور کیمبرج کے سارے پروفیسروں کو دُہرے معاوضے پر خرید سکتا ہے مگر وہ ایسا نہیں کرتا۔ کیوں؟ برونائی کے سلطان کے پاس اٹھارہ سو خواب گاہوں اور اڑھائی سو غسل خانوں پر مشتمل محل ہے جس میں ایک سو دس گاڑیوں کا گیراج اور دو سو گھوڑوں کا اصطبل ہے‘ پانچ سوئمنگ پول ہیں‘ پونے چھ سو جھاڑ فانوس اور اکاون ہزار برقی قمقمے ہیں مگر برونائی‘ انڈونیشیا اور ملائیشیا میں وہ ایک یونیورسٹی یا عالمی سطح کی تجربہ گاہ یا ایک سائنسی مرکز بنانے کا نہیں سوچ سکتا۔ آخر کیوں؟ 
کیا ان سوالوں کا جواب کوئی نہیں؟ 
مختار صدیقی نے کہا تھا ؎ 
پیر‘ فقیر‘ اوراد‘ وظائف‘ اس بارے میں عاجز ہیں 
ہجر و وصال کے باب میں اب تک حکم چلا ہے ستاروں کا 
کیا ہم مسلمان بھی کسی آسمانی جواب کا انتظار کریں؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں