ہنری تھامس بکل کی خوش بختی یہ تھی کہ اس کا باپ امیر تاجر تھا اور بحری جہازوں کا مالک! وگرنہ ہنری ضرور بھوکا مر جاتا۔ ایک تو اس کی صحت پیدائشی خراب تھی‘ ہمیشہ سیکنڈ ہینڈ ہی رہی‘ اوپر سے لکھنے پڑھنے کا‘ تحقیق کرنے کا اور شطرنج کھیلنے کا شوق! جس میں کمائی صفر اور خرچ بے تحاشا تھا۔ بیس سال کی عمر میں وہ شطرنج کی دنیا میں نام پیدا کر چکا تھا۔ 1840ء میں جب اس کا باپ دنیا سے رخصت ہوا تو اس نے ایک تو ماں کے ساتھ یورپ کی سیاحت کی‘ دوسرے طے کیا کہ تاریخ پر ایک معرکہ آرا کتاب لکھے گا۔ اگلے سترہ برس تک وہ دس گھنٹے روزانہ تحقیق و تصنیف کو دیتا رہا۔ کئی عنوان بدلنے کے بعد بالآخر اس نے ''انگلستان میں تہذیب کی تاریخ‘‘ لکھی‘ جو ضخیم تھی مگر نامکمل! تاہم اس کی شہرت کی ایک وجہ اس کا وہ مشہور قول ہے جو آج ہم جیسے بہت سے معاشروں پر صادق آرہا ہے۔ یہ قول کچھ اور شخصیات سے بھی منسوب کیا جاتا ہے مگر ایک تو یہ شخصیات بکل کے بعد کے زمانے کی ہیں‘ دوسرے بکل کا قول تفصیلی ہے‘ محض ایک کوٹیشن نہیں! اس نے کہا تھا: ''مردوں اور عورتوں کو تین طبقوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ذہنی اعتبار سے پست ترین طبقہ ہمیشہ شخصیات کے بارے میں باتیں کرے گا۔ اس سے اوپر کا طبقہ چیزوں کے متعلق اور بلند ترین گروہ وہ ہے جو نظریات اور خیالات کے موضوع کو اپنائے گا!‘‘
یہ قول ہم پر ہمیشہ سے صادق آتا تھا لیکن جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد یہ رویہ آخری حد کو چھُو رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ رپورٹ ہماری تاریخ میں سنگِ میل یا امریکیوں کے بقول Water shed کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور تو اور‘ ملک کا مستقبل اس رپورٹ کے حوالے سے زیر بحث آ رہا ہے۔ جو بند تھیں وہ زبانیں کھل گئی ہیں۔ جو کھلی تھیں‘ وہ دراز ہو رہی ہیں۔ کچھ تو اس طرح زہر بکھیر رہی ہیں جیسے انسانوں کی نہیں‘ سانپوں کی ہیں۔ کچھ جلانے کا کام کر رہی ہیں جیسے زبانیں نہیں‘ چراغوں کی لویں ہیں جن کے اوپر ہتھیلی رکھی جائے تو انسان درد سے بلبلا اٹھے۔
کوئی میاں صاحب کو مشورے دے رہا ہے کہ مدتِ اقتدار پوری کرنی ہے تو یہ کیجیے اور یہ نہ کیجیے۔ یہ کرنا ہے تو وہ نہ کیجیے اور وہ نہیں کرنا تو یہ ضرور کیجیے۔ کچھ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان کے مستقبل کو بچانا ہے تو بلاول کو مشورے دیے جائیں کہ فلاں کو نزدیک لائے اور فلاں کو دفع دُور کرے۔ کچھ عمران خان کو سمجھا رہے ہیں کہ اقتدار کے پرندے کو پکڑنا ہے تو جال فلاں رنگ کا حاصل کرو۔ بہت سے ایسے ہیں جو جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ ایک ہاتھ میں پکڑے‘ دوسرا ہاتھ داڑھی پر پھیر رہے ہیں کہ بچُو! دیکھا! کیسے تمہارا تیا پانچا ہوا۔ گویا پاکستان کی قسمت کا فیصلہ ہو گیا! ان سے کوئی پوچھے کہ کیا اس رپورٹ نے ہمارا مستقبل روشن کردیا ہے؟ کیا اس نے نشان دہی کی ہے کہ عزت کا راستہ یہ ہے اور ترقی کا فارمولا فلاں ہے؟ کیا یہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ سے بھی بڑا سنگِ میل ہے؟
اللہ کے بندو! سوال میاں نوازشریف کی فتح یا عمران خان کی شکست یا بلاول کے مستقبل کا نہیں! تمہیں تمہارے ماں باپ کا واسطہ! شخصیات سے اوپر اٹھنے کی کوشش کرو! اپنے آپ کو ذہنی لحاظ سے پست ترین طبقے سے باہر نکالو۔ ملک کے مستقبل کی فکر کرو اور یہ سوچو کہ ملک کی پڑھی لکھی آبادی کا کثیر حصہ اور بیرون ملک پاکستانیوں کی ستر پچھتر فی صد تعداد عمران خان کا ساتھ کیوں دے رہی ہے؟ کیا وہ ان سب کا رشتہ دار ہے؟ وہ پشتو نہیں بولتا پھر بھی پختونوں نے اسے ووٹ دیے۔ آخر کیوں؟ وہ کوئی روحانی شخصیت بھی نہیں‘ نہ ہی اس نے معصوم اور فرشتہ سیرت ہونے کا دعویٰ کیا ہے! یہ بھی درست ہے کہ اس میں سیاسی گہرائی مفقود ہے۔ معاشرے کی حرکیات (Dynamics) کا اسے مکمل ادراک نہیں! اس کے اردگرد جو معجون مرکب قسم کی مخلوقات جمع ہیں ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو تبدیلی کے نکتۂ نظر سے آئیڈیل ہرگز نہیں! پارٹی کے اندرونی انتشار کے معاملے میں وہ اُس ناتجربہ کار استاد کی طرح لگ رہا ہے جس سے کلاس کے بچے قابو میں نہ آ رہے ہوں۔ ماضی میں اس کے خیالات جرگہ سسٹم اور طالبان کے متعلق تاریخی شعور سے عاری تھے! آج بھی کبھی کبھی اُس پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
مثلاً اُسی کے اردگرد بے ضرر قسم کے وعظ فرمانے والے مولانا نظر آتے ہیں جو کسی جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق نہیں کہہ سکتے۔ کاش ہمارے پاس ایسے علما ہوتے جو زرداری صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سمجھاتے کہ جہاں پناہ! سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔ جو وزیراعظم کو ٹوکتے کہ عالی جاہ! برادری کی سطح سے اوپر اٹھیے‘ میرٹ کُشی نہ کیجیے‘ پرائم منسٹر ہائوس کا بجٹ چوراسی کروڑ ہے۔ اللہ کو کل آپ کیا جواب دیں گے؟ یہ غریب قوم بی ایم ڈبلیو کا اصطبل نہیں سہار سکتی۔ اب بس بھی کر دیجیے۔ رو رو کر دو دو گھنٹوں کی دعائیں مانگنے اور منگوانے والوں کو کیا نہیں معلوم کہ بصرہ میں مستجاب الدعوات درویشوں کا گروہ تھا۔ جو بھی گورنر آتا‘ وہ دعا کرتے تو مر جاتا یا معزول کر دیا جاتا۔ حجاج آیا تو اس نے انہیں کھانے پر مدعو کیا۔ مصاحبوں نے سبب پوچھا تو کہنے لگا گورنر ہائوس کی مشکوک خوراک کھلائی ہے‘ اب ان کی دعائوں میں کوئی اثر نہیں رہے گا!
قوموں کی تقدیر وہ مردِ درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ
بات یہ ہو رہی تھی کہ سارے نقائص کے باوجود عمران خان اب بھی امید کا چراغ ہے۔ روشنی مدھم سہی‘ دکھائی تو دے رہی ہے! سوال یہ نہیں کہ عمران خان کیسا ہے؟ سوال یہ ہے کہ منظرنامے پر اس کے علاوہ کون ہے؟ موت اور قبر کو سامنے رکھ کر بتایئے کہ تیس سال سے جو خاندان پنجاب پر حکمرانی کر رہا ہے‘ اُس نے سیلابوں کے سدباب کے لیے کون سے اقدامات کیے ہیں؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ سرکاری تنخواہوں پر پلنے والے سینکڑوں نہیں ہزاروں پولیس کے جوان‘ رائے ونڈ اور لاہور کے ایک نہیں متعدد محلات سے لے کر کراچی میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں کے گھروں اور سروں پر پہرے دے رہے ہیں تو کیا یہ قومی خزانے کے ساتھ ظلم نہیں؟ موت کے بعد اٹھانے والے خدا کی قسم اٹھا کر بتایئے کہ جس ملک کے منتخب ایوان کا سپیکر ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرتا ہو کہ ''کیسے ممکن ہے کہ سپیکر سفارش کرتا اور پوتے کا داخلہ نہ ہوتا‘‘ اور یہ کہ ''ایچی سن کالج میں کسی کو داخل کرانا میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں‘ میں قومی اسمبلی کا سپیکر ہوں‘‘ اس ملک میں تعلیم اور تعلیمی اداروں کی حیثیت اہلِ اقتدار کے محلات میں واقع سرونٹ کوارٹرز سے کتنی زیادہ ہے؟ کربلا میں شہید ہونے والے نواسۂ رسول کی قسم اٹھا کر اپنے آپ سے پوچھیے کہ کیا ہماری پستی اور بدبختی کا کوئی اور ثبوت بھی درکار ہے؟ کھردری چٹائی کے جو نشان سارے جہانوں کے سردارؐ کے مبارک جسم پر پڑتے تھے‘ ان کی قسم کھا کر بتایئے آپ کو جناب قائم علی شاہ میں پاکستان کا جو مستقبل جھلکتا نظر آتا ہے اس کا رنگ ارغوانی ہے یا دھانی یا اندھی اندھیری رات کی طرح سیاہ؟ اُس اینٹ کی قسم کھایئے جو امیر المومنین عمر فاروقؓ کے سر کے نیچے تکیے کا کام دیتی تھی اور اُس سوکھی روٹی کی قسم کھایئے جو عید کے روز امیر المومنین علی مرتضیٰؓ تناول فرما رہے تھے اور بتایئے کہ جب تھر کے ہسپتالوں میں درجنوں بچے
موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے اور زندگی کی آنکھوں میں ہلاکت کی سوئیاں چبھی ہوئی تھیں اور سندھ کابینہ کا خصوصی اجلاس وہاں منعقد ہوا تھا اور پینسٹھ گاڑیاں پروٹوکول کی آئی تھیں اور فضا میں ہیلی کاپٹر گردش کر رہا تھا‘ اگر اُس وقت آسمان سے پتھر برستے تو کیا پورے ملک کے عوام خوشی نہ مناتے؟ جب پورا سکھر سیل کردیا گیا اور بازار بند ہو گئے اور گاڑی پارک کرنے پر شہریوں کو اس طرح پیٹا گیا جیسے جہانگیر اور شاہ جہان کے جلوس کے راستے میں آنے والے دیہاتیوں کو پیٹا جاتا تھا اُس وقت فرشتے اپنے رجسٹروں پر کس کے بارے میں کیا لکھ رہے تھے؟ اپنے جگرگوشوں اور پوتوں کی زندگی کی قسم کھا کر بتایئے کیا سوشل میڈیا پر اہم شخصیات کے رشتہ داروں کی بیرون ملک تعیناتیوں پر سینہ کوبی کرنے والے لاکھوں لوگ غلط کہہ رہے ہیں کہ فیصلے کرنے والوں اور رپورٹیں لکھنے والوں کے مفادات تھے؟ اپنے آپ سے پوچھیے کیا کمیٹیوں اور ٹکے ٹکے کی مخصوص وزارتوں کے لیے مہینوں دوڑ دھوپ کرنے والے اور اقتدار کے ایوانوں کے پھیروں پر پھیرے ڈالنے والے لیڈر زرعی‘ تعلیمی اور اقتصادی اصلاحات لا کر ملک کی حالت تبدیل کریں گے؟ کیا ٹیلی فونوں پر تقریروں کے دوران بے ہنگم مضحکہ خیز سروں میں گانے گانے والے ہمارے بچوں کی تقدیریں بدلیں گے؟ کیا فساد کی ساری علامتیں ظاہر نہیں ہو چکیں؟ کیا بستیاں انڈیل دینے کا وقت ایسا ہی نہیں ہوتا؟
اور اگر عمران خان نجات دہندہ نہ بن سکا تو کوئی اور آئے گا اور ضرور آئے گا! لوٹ مار ہمیشہ کے لیے نہیں رہ سکتی۔ اقربا پروری‘ دوست نوازی‘ قبیلہ پرستی نے ختم ہو کر رہنا ہے! مسئلہ شخصیات کا نہیں‘ ملک کو بچانے کا ہے! ؎
کوئی آئے گا اور غربت اطلس پہنے گی
بے چارگی کرنیں اوڑھے گی کوئی آئے گا
جو مٹی پائوں کے نیچے آتی رہتی ہے
کبھی ہو گی اس کی دادرسی کوئی آئے گا