بابوؤں کا ڈنڈا ناچ

کائنات کے جتنے بھی لاینحل مسائل ہیں اور جتنے بھی سربستہ راز ہیں، جیسے یہ کہ کائنات کب وجود میں آئی یا کائنات کا حجم کتنا ہے یا سیاروں، ستاروں، سورجوں اور کہکشاؤں کی تعداد کتنی ہے یا قیامت کب آئے گی، یا دنیا میں چیونٹیاں کتنی ہیں، ان میں سب سے بڑا بھید یہ ہے کہ جب غیر قانونی کام دن دہاڑے، ڈنکے کی چوٹ پر ہو رہے ہوتے ہیں، اُس وقت حکومت پاکستان کہاں ہوتی ہے؟ 
اس ملک کی حکومتوں کی نااہلی دیکھنی ہو تو اس نااہلی کا جامع ترین نمونہ دارالحکومت میں آئی الیون سیکٹر کی پہلے آبادی اور پھر اُس آبادی کے خلاف ایکش ہے جس کی گونج پورے ملک میں سنائی دی۔ پارلیمنٹ کو بھی اپنا قیمتی وقت اس پر لگانا پڑا... حالانکہ یہ مسئلہ وقت پر سنبھالا جاتا تو متعلقہ ترقیاتی ادارے کا ایک درمیانے درجے کا افسر، چند ماتحتوں کے ہمراہ کافی تھا! وہ جو کہتے ہیں کہ پودا تازہ تازہ پھوٹا ہو تو ایک شخص ہاتھ سے اکھاڑ کر پھینک سکتا ہے، مگر جب درخت بن جائے تو مشینری لگانا پڑتی ہے ؎ 
سرِ چشمہ شاید گرفتن بہ بیل 
چو پُرشد نشاید گزشتن بہ پیل 
پانی کا جھرنا ابتدا میں سرمچو سے روکا جا سکتا ہے مگر دریا بن جائے تو ہاتھی بھی نہیں گزر سکتا! گمان غالب یہ ہے کہ یہ غیر قانونی بستی 1980ء اور 1985ء کے درمیان آباد ہوئی۔ کچے مکان بنے، گلیاں وجود میں آئیں، ہزاروں کارندوں پر مشتمل متعلقہ ادارہ وہیں، اسی شہر میں موجود تھا، کسی نے اعتراض کیا‘ نہ روکا۔ اور تو اور، حکومت نے خود بجلی فراہم کی۔ 
پھر بیسویں صدی ختم ہوئی۔ اکیسویں صدی کا آغاز ہوا۔ اس غیر قانونی آبادی میں جن بچوں نے جنم لیا، اب وہ جوان ہو چکے تھے۔ 2005ء میں حکومت نے جھرجھری لی، ایکش ہوا۔ قابضین کا انخلاء عمل میں لایا گیا‘ مگر دو سال کے اندر اندر یہی نکالے گئے قابضین واپس آ گئے، بستی پھر آباد ہو گئی! 
لیکن آپ ہنسی روکیے۔ ہنسی کا بہتر موقع آگے آنے والا ہے۔ دوسری بار بسنے والی غیر قانونی آبادی کو جب سات سال ہو گئے تو گزشتہ برس 2014ء کے اپریل میں وزیر داخلہ نے دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کو حکم دیا کہ جن ''دیانت دار‘‘ اور ''بہشتی‘‘ افسروں اور اہلکاروں کی بدولت یہ آبادی دوبارہ ابھری، ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ترقیاتی ادارہ بھی کچی گولیاں نہیں کھیلا ہوا تھا۔ اُس نے وزیر داخلہ کے حکم کی ''تعمیل‘‘ میں دو افراد پر مشتمل ایک انکوائری کمیٹی بنا دی جس کا کام یہ تھا کہ 2007ء اور 2013ء کے درمیانی عرصے میں متعلقہ عہدوں پر جو افراد براجمان تھے اور جن کے فرائض میں اس آبادی کو روکنا شامل تھا ان کے نام معلوم کئے جائیں۔ یہ کمیٹی اپریل 2014ء میں جب بنی تو دارالحکومت میں گرما کا آغاز تھا۔ بہار کے پھول ابھی تک دکھائی دے رہے تھے۔ دیکھتے دیکھتے یہ پھول مرجھا گئے۔ کڑکڑاتی گرمیاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔ گندم کی فصل کٹ کر بھڑولوں اور بازاروں میں پہنچ گئی۔ پھر مون سون کی بارشیں آئیں۔ یہاں تک کہ گرما کے موسم کو زوال آنا شروع ہو گیا۔ اکتوبر نومبر میں دارالحکومت کا موسم خوشگوار ہو گیا۔ پھر زمستان کا آغاز ہوا۔ گرم کپڑے نکل آئے۔ شاعروں نے شعر پڑھا ؎ 
گرم کپڑوں کا صندوق مت کھولنا‘ ورنہ یادوں کی کافور جیسی مہک 
خون میں آگ بن کر اتر جائے گی‘ یہ مکاں صبح تک راکھ ہو جائے گا
تاہم گرم کپڑے نکل آئے۔ دارالحکومت کے باغوں اور پارکوں میں درختوں کے پات پیلے ہو گئے۔ جھڑے ہوئے پتوں کے جابہ بجا ڈھیر لگ گئے۔ پھر سرما چھٹ گیا۔ ایک بار پھر اپریل آیا۔ پھر اپریل دوسری بار بھی گزر گیا، اب گرما پھر عروج گزار کر سرنگوں ہونے کی تیاری کر رہا ہے، موسم آ رہے ہیں موسم جا رہے ہیں، ملک کے وزیر داخلہ اُس حکم کی تعمیل کا بدستور انتظار کر رہے ہیں اس لئے‘ اے اہلِ وطن! خوشی سے شادیانے نہیں بجا سکتے تو خدارا بغلیں ہی بجا دو کہ وہ انکوائری کمیٹی ابھی تک اپنی رپورٹ نہیں دے پائی۔ ایک سال چار ماہ یعنی سولہ مہینے، ہفتے جن کے چونسٹھ بنتے ہیں، گزر چکے ہیں! 
2005ء کے انہدام کے بعد، دوبارہ بسنے والے غیر قانونی قابضین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ترقیاتی ادارے کے افسروں اور اہلکاروں کو رشوت میں بھاری بھرکم رقوم ادا کی ہوئی ہیں۔ کچھ کو ہر مہینے رقم یا بھتہ یا جگا ٹیکس یا غنڈہ ٹیکس پہنچایا جا رہا ہے! اس پر پردہ ڈالنے کے لئے انکوائری انکوائری نہ کھیلی جاتی تو کیا کیا جاتا؟ 
اب جھرنا، دریا بن چکا تھا۔ دس دن پہلے جب ایک بار پھر ادارے نے جھرجھری لی اور ایکشن کیا تو قیامتِ صغریٰ برپا ہو گئی جو ہونا ہی تھی۔ عورتیں قرآن اٹھا کر چھتوں پر چڑھ گئیں۔ کچھ نے جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دیں۔ مکینوں نے پتھراؤ کیا۔ جواب میں پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ لوگ بچوں کو ڈھال بنا کر بُل ڈوزروں کے سامنے لیٹ گئے۔ دو ہزار چار سو اہلکاروں نے اِس ''جہاد‘‘ میں حصہ لیا۔ بیس ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک رشوت لے کر جس آبادی کو تین عشروں سے ''بچایا‘‘ جا رہا تھا‘ اس سے ''را‘‘ کے دو عدد ایجنٹ اور افغان خفیہ سروس کا ایک افسرِ اعلیٰ بھی برآمد ہوا! کہنے والوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ کامرہ اور جی ایچ کیو پر حملوں کی منصوبہ بندی بھی ترقیاتی ادارے کی اِسی ناجائز تخلیق میں ہوئی تھی! فاعتبروا یا اولی الابصار! عبرت پکڑو اے آنکھوں والو! 
ایوانِ بالا میں یہ مسئلہ پیش ہوا تو چیئرمین نے کہا اور بجاطور پر کہا کہ سیاست دانوں کا احتساب ہو سکتا ہے تو بابوؤں کا بھی ہونا چاہئے! ایکشن کے چوتھے یا پانچویں دن وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس منعقد کی اور کہا کہ متعلقہ ادارے کے اُن بدعنوان ملازمین کے خلاف انکوائری ہونی چاہئے جن کی ناک کے نیچے یہ آبادی وجود میں آئی اور پھلی پھولی۔ غالباً وزیر داخلہ کو یاد نہیں رہا کہ سولہ ماہ پہلے یہ حکم وہ ادارے کو دے چکے ہیں۔ ہاں! یہ ہو سکتا ہے کہ اب ایک نئی انکوائری کمیٹی اس بات کا جائزہ لے کہ پرانی اور اصلی انکوائری کمیٹی پر سولہ ماہ سے سکتہ کیوں طاری ہے؟ 
بابو کُھل کھیل رہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی ڈنڈا ناچ دیکھا ہے؟ اسے سٹک STICK ڈانس بھی کہتے ہیں۔ بابوؤں کے لئے یہ ملک ایک ناچ گھر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ اچھل اچھل کر ڈنڈیا ناچ کھیل رہے ہیں، ایک دوسرے کی ڈنڈی پر ڈنڈی مار کر آواز پیدا کرتے ہیں۔ سب سمجھتے ہیں کچھ ہو رہا ہے مگر ڈانس کے علاوہ کچھ نہیں ہو رہا! اسلام آباد کا نیا ایئرپورٹ 2007ء میں بننا شروع ہوا۔ 2010ء میں مکمل ہونا تھا۔ ابھی تک تکمیل کے کوئی آثار نہیں۔ بیس لاکھ روپے روز کا نقصان ہو رہا ہے یعنی ہر مہینے چھ کروڑ روپے! عوامی نمائندوں کا خیال ہے کہ جتنا روپیہ لگ چکا ہے، اس سے اس جیسے تین ایئرپورٹ بن سکتے تھے۔ بابو لوگ ہوا بازی کے نام پر پوری وزارت چلا رہے ہیں۔ نادرا کے بابوؤں کو دیکھ لیجئے۔ چالیس بڑے چھوٹے بابو غیر ملکیوں کو شناختی کارڈ دینے میں ملوث نکلے ہیں۔ ان میں ریٹائرڈ فوجی بابو بھی شریک ہیں۔ کیا افغان، کیا ازبک، کیا امریکی، کیا بنگالی سب کو قومی دستاویزات جاری ہوتی رہیں۔ کسی سے دس ہزار روپے لئے تو کسی سے بیس ہزار۔ نادرا کے لاہور، کراچی اور ڈی آئی خان دفاتر کے بابو اس قومی ''خدمت‘‘ میں پیش پیش رہے ہیں۔ ایک طرف یہ بدبخت بابو قومی خزانے سے تنخواہیں لیتے رہے، دوسری طرف دہشت گردوں کو اس ملک کی شہریت بانٹتے رہے، تیسری طرف یہ دہشت گرد ملک کے معصوم شہریوں کو ہلاک اور حساس تنصیبات کو نقصان پہنچاتے رہے۔ وہ جو مشہور گیت ہے ''سانوں وی لے چل نال وے بابو سوہنی گڈی آ لیا‘‘ تو ان بابوؤں کے پاس سوہنی گاڑیاں تو ہیں لیکن ان کے ساتھ کوئی نہ جائے‘ کیوں کہ یہ سیدھے جہنم میں جائیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں