بڈھ بیر پر دہشت گردوںکے حملے نے ایک بارپھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ جنگ وہ روایتی جنگ نہیں جس میں قوم صرف اپنی فوج پر انحصار کرتی ہے۔ اس جنگ میں طبل جنگ ہے نہ میدان جنگ۔ اس جنگ کی کوئی سمت ہے نہ جہت! یہ مغرب مشرق شمال جنوب اوپر نیچے چھ جہتوں پر پھیلی ہوئی ہے۔
دہشت گردی کو روکنے کیلئے ہماری ''منصوبہ بندی‘‘ پر دشمن تو دشمن دوست بھی ہنستے ہوں گے۔ اس شخص کی حماقت کا اندازہ لگائیے جس کے گھر پر حملے کا خطرہ ہے۔ اس نے چھت پر بھی بندوقچی بٹھائے ہوئے ہیں اور دروازے پر بھی پہریدار مامور کیا ہے مگر پشت پر چاردیواری کا ایک کونہ ٹوٹا ہوا ہے۔ یوں کہ اس سے ہر راہگیر اندرداخل ہوسکتا ہے۔ پھر اس شخص کی مزید حماقت دیکھیے۔ اس کے گھر کے اندر،ایک کمرے میں کچھ لوگ رہ رہے ہیں جو حملہ آوروں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ چاردیواری کے شکستہ حصے سے اندر آنے والے حملہ آور اس کمرے میں جب تک چاہیں چھپے رہ سکتے ہیں۔
آپ نائن الیون کو دیکھ لیجیے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے سب سے پہلے سرحدوں کو کنٹرول کیا اور یوں کنٹرول کیا کہ آج اگر وہ اعلان کریں کہ مکھی کا پر اندر نہیں آ سکے گا تو وہ ایسا کرکے دکھادیں گے اور مکھی کا پر جہاں سے بھی اندر لے جانے کی کوشش ہوگی ناکام ہو جائے گی۔ امریکیوں نے یہاں تک کیا کہ امریکہ کیلئے پرواز جس ملک سے اڑتی ہے، اس ملک میں ہی ساری چھان بین کرلیتے ہیں اور مسافروں کو جہاز پر سوار ہونے سے پہلے ہی سکیورٹی کے امریکی انتظامات کا ہدف ہونا پڑتا ہے۔ یہ اس چھان بین کے علاوہ ہے جو امریکہ میں اترنے پر ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکہ میں بہت واویلا کیا کہ جس قسم کا ڈیٹا امریکی شہریوں کے بارے میں اکٹھا کیا جا رہا ہے، اس سے پرائیویسی پر زد پڑ رہی ہے‘ مگر امریکی ریاست نے اولین ترجیح اپنے شہریوں کی حفاظت کو دی۔ باہر سے آنے والا کسی ملک کا جرنیل تھا یا وزیر، کسی کو تلاشی سے استثنیٰ نہیں دیا۔ امریکہ کو بارہا دوسرے ملکوں سے اس ضمن میں معافیاں بھی مانگنا پڑیں مگر طے شدہ طریق کار سے انحراف نہیں ہوا۔
دو حقیقتیں ایسی ہیں جن سے ہم آنکھیں چُرا رہے ہیں اور انتہائی درجے کی لاپروائی کا ...یاحماقت کا... ارتکاب کیے جا رہے ہیں۔ پہلی حقیقت افغان بارڈر ہے۔ افغان بارڈر وہ پیدائشی نقص ہے جوپاکستان بننے کے بعد پہلے دن سے چمٹا ہوا ہے۔ قیام پاکستان کا سب سے بڑا فائدہ جو بھارت کو ہوا، افغان بارڈر سے نجات تھی! ہم روزاول سے مغربی سرحد کی حد سے زیادہ پیچیدگی کا شکار ہیں۔ ڈیڑھ سال پہلے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اس حسرت کا اظہار کیا کہ کاش دونوں ملکوں کے درمیان ایک دیوار بن جائے۔ تین ہفتے پیشتر سپریم کورٹ آف پاکستان نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ صرف طورخم بارڈر سے بیس ہزار افراد ہر روز قانونی کاغذات کے بغیر آ جا رہے ہیں۔ ایک معروف صحافی نے، جن کا اپنا تعلق بھی قبائلی علاقے سے ہے دو دن پہلے یہ تعداد تیس سے پچاس ہزار روزانہ بتائی ہے۔ چمن بارڈر اس کے علاوہ ہے مگر اصل مسئلہ سینکڑوں میل کی وہ بے چہرہ اوربے ہنگم سرحد ہے جو چترال سے لے کر جنوبی وزیرستان تک ہماری مغربی سمت کو خطرناک کیے ہوئے ہے۔ افغانستان میں برسراقتدار حکومت پاکستان کی دوست ہو یا دشمن، وہاں شمالی اتحاد کا راج ہو یا طالبان کا‘ سرحد منظم ہونی چاہیے۔ یوں کہ قانونی دستاویزات کے بغیر کسی ایک فرد کا اندر آنا بھی ناممکن ہو۔ اگر افغان بارڈر اسی طرح رہا تو ہم اپنی آئندہ نسلوں کیلئے ایک غیرمحفوظ پاکستان چھوڑ کر جائیں گے۔ اس سرحد کو کس طرح قابو (TAME) کیا جائے، یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ دیوار بنے یا خاردار تاریں لگیں یا بارود سے پہاڑ توڑے جائیں یا خندق کھودی جائے، اس کا فیصلہ ماہرین کریں گے۔ مگر اصولی طور پر پہلے مرحلے میں یہ طے کرلینا چاہیے کہ اس بارڈر کو کنٹرول کرنا ہی ہوگا‘ ورنہ ہمارے اسفندیار شہید ہوتے رہیں گے اور ہم جنازے پڑھتے ہی رہیں گے!
دوسری حقیقت جو ہمارا منہ چڑا رہی ہے، دہشت گردوں کو ملک کے اندرملنے والی پناہ گاہوں سے متعلق ہے۔ یہاںنظریاتی حوالے سے بات نہیں ہو رہی، صرف ٹھوس اور برہنہ حقائق کی بات کی جا رہی ہے! گزشتہ سال جب واہگہ پر خودکش حملہ ہوا تو پریس میں یہ خبر کروڑوں پاکستانیوں نے پڑھی... اور جو آج بھی ریکارڈ پر ہے کہ حملہ آوروں میں سے ایک یا ایک سے زیادہ رات کو کہاں ٹھہرے تھے!! نو ماہ ہوئے، وزیراعظم کے دفتر کی بغل سے، دارالحکومت کے وسط سے، داعش کو مدد کے لئے پکارا گیا۔ پاکستان کے طول و عرض میں ایسی لاکھوں چاردیواریاں ہیںجن پر حکومت کا کنٹرول ہے‘ نہ وہاں پولیس ہی کا عمل دخل ہے۔ ان چاردیواریوں میں دہشت گردوں کے ہمدرد موجود ہیں۔ یہاں رہنے والوں کی وفاداریاں ایسے لیڈروں سے وابستہ ہیں جن کے ڈانڈے منفی عناصر سے جا ملتے ہیں۔ ریاست کو بھی معلوم ہے، حکومت کو بھی، حکومتی محکموں کو بھی، حساس اداروں کو بھی، اور عوام کو بھی کہ دہشت گرد ملک کے اندر کہاں پناہ لیتے ہیں، کہاں چھپتے ہیں۔
جنرل عاصم باجوہ نے بڈھ بیر دہشت گردی پر تبصرہ کرتے ہوئے برملا کہا ہے کہ افغان مہاجرین ہمارے لئے سکیورٹی رسک ہیں۔ دوسری طرف حیرت انگیز بات ہے کہ ان مہاجرین کو حال ہی میںدو سال مزید قیام کی توسیع بھی دے دی گئی ہے۔ یہ مہاجرین پاکستانی شناختی کارڈ اٹھائے پورے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں، بزنس کر رہے ہیں یہاںتک کہ لمبی چوڑی جائیدادیں خریدتے پھر رہے ہیں۔ یہ بازاروں ، منڈیوں، مارکیٹوں میںمقامی دکانداروں کو، اکثرو بیشتر، قتل کر دیتے ہیں۔ ایسے علاقے ملک کے طول و عرض میں، کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ جہاں افغانوں کی نہ صرف اکثریت ہے بلکہ مقامی آبادی کا وہاں گزربسر تک نہیں!
یہ عجیب ملک ہے جہاں فوج کے افسر اور نوجوان ہر روزشہید ہو رہے ہیں، سول آبادی دہشت گردی کا نشانہ بن رہی ہے مگر بارڈر کھلے ہیں، غیر ملکی کسی روک ٹوک کے بغیر کراچی سے گلگت تک آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں اور لاکھوں چاردیواریاں ایسی ہیں جہاں کوئی بھی پناہ لے سکتا ہے!
ہماری عقل مندی کے کیا کہنے! ہم وہ پودے کاٹ رہے ہیںجو پولن الرجی پھیلانے کا سبب بنتے ہیںمگر وہ نرسریاں بدستورقائم ہیںاور پھل پھول رہی ہیں جہاں سے یہ پودے نکل رہے ہیں، ہم بازاروں سے وہ اشیاء پکڑ رہے ہیں جو مہلک ہیں مگر وہ فیکٹریاں جن میں یہ اشیاء تیار ہو رہی ہیں، برابر چل رہی ہیں۔ رات دن چل رہی ہیں۔ اور ان فیکٹریوں کے علمبردار نہ صرف معززین میں شمار ہوتے ہیں، حکمران ان سے ہنس ہنس کر معانقے اور مصافحے بھی کرتے ہیں۔ حفیظ جالندھری نے شاید اسی صورت حال پر کہا تھا:
شیروں کو آزادی ہے
آزادی کے پابند رہیں
جس کو چاہیں چیریں پھاڑیں
کھائیں پئیں آنند رہیں
سانپوں کو آزادی ہے
ہر بستے گھر میں بسنے کی
ان کے سر میں زہر بھی ہے
اور عادت بھی ہے ڈسنے کی
شاہیں کو آزادی ہے
آزادی سے پرواز کرے
ننھی منی چڑیوں پر
جب چاہے مشق ناز کرے
پانی میں آزادی ہے
گھڑیالوں اور نہنگوں کو
جیسے چاہیں پالیں پوسیں
اپنی تند امنگوں کو!