یہ کھیتی صرف وزیراعظم نواز شریف نہیں کاٹ رہے، آئندہ آنے والے حکمران بھی کاٹتے رہیں گے۔
آج جو دونوںبازو ہوا میں لہرا لہرا کر بھنگڑے ڈال رہے ہیںکہ امریکی وزیرنے میز پر زور سے ہاتھ مارا اور وزیراعظم کو ان کے نام سے پکارا، وہ یہ بھی سوچ لیں کہ امریکی وزیر نے مسلم لیگ نون کے رہنما سے نہیں، یہ سلوک ملک کے وزیراعظم سے کیا، وہ ملک جو بھنگڑے ڈالنے والوں کا بھی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے دورئہ امریکہ کے حوالے سے دونوں ملکوں کا جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے، اس پر بھارت میں گھی کے چراغ جل رہے ہیں۔ لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کا بطور خاص ذکر، بھارت کو بہت راس آیا ہے۔ بھارتی ترجمان نے اپنی بریفنگ میں اس کا ذکر بطور خاص کیا اور ساتھ ہی گرہ لگائی کہ بھارت کا ایک عرصہ سے اس ضمن میں موقف رہا کہ یہ دونوں گروپ پاکستان میں فعال ہیں۔ بھارتی ترجمان نے یہ بھی یاد دلایا کہ ستمبر 2014ء اور جنوری2015ء میں بھارت اور امریکہ دونوں ملکوں نے لشکر طیبہ ، جیش محمد اور حقانی نیٹ ورک وغیرہ کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا تھا۔
یہاں اس بات کا ذکرضروری ہے کہ مشترکہ اعلامیے میں، جہاں حقانی گروپ اور لشکر طیبہ کا ذکر کیا گیا ہے، بلوچستان میں ''پڑوسی‘‘ملکوں کی مداخلت کا کوئی ذکر نہیں!
بھارتی میڈیا نے لمبے چوڑے مشترکہ اعلامیہ سے لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے ذکر کو نکالا اور لمبے ڈنڈے کے ایک سرے پر لٹکا کر اس کا پرچم بنالیا۔ ڈیلی ہندو نے اس ضمن میں بمبئی کے 2008ء کے واقعہ کا خصوصی ذکر کیا اور اس کے ڈانڈے لشکر طیبہ سے ملائے۔
بھارتی فوج پاکستان کے عساکر کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے لئے ''کولڈ سٹارٹ‘‘ کے نظریے پر کام کر رہی ہے۔ اس نظریے کی رُوسے بھارتی فوجیں، کم سے کم وقت میں، زیادہ سے زیادہ فاصلے طے کرکے پاکستانی افواج کو بے بس کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔''کولڈ سٹارٹ‘‘ کے حوالے سے مستقبل قریب میں بھارتی افواج پاکستانی سرحدوں کے نزدیک آ کر مشقیں کرنے کا پروگرام بنا چکی ہیں۔ پاکستان کے طول و عرض میں ''را‘‘ کے دہشت گردی کے منصوبے اور بلوچستان میں فوجی مداخلت اس کے علاوہ ہے۔ مگر پاکستانی وزیراعظم کی مشکلات کا اندازہ لگائیے کہ جب وہ امریکہ جاتا ہے تو بات چیت کا زیادہ وقت اس دہشت گردی پر صرف ہوتا ہے،جو پاکستان کے ذمے لگائی جاتی ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں بھارت کی سازشوں کا نہیں، لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کا ذکر کیا جاتا ہے اور پاکستان سے یہ ''امید‘‘ کی جاتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہونے دے گا!
یہ ہے وہ کھیتی جو افغان جنگ کے دوران ہم نے بوئی اور اب کاٹ رہے ہیں۔ جس افغان سرحد کو ہم نے خود ملیامیٹ کیا، آج ضرب عضب سے بھاگنے والے دہشت گرد اسی سرحد کو پھر ملیامیٹ کرکے افغانستان پہنچ رہے ہیں۔ جن غیر ریاستی اداروں (Non-State Actors) کو ہم نے پالا پوسا، پروان چڑھایا، آج انہی کا ذکر مشترکہ اعلامیوں میں ہوتا ہے، جسے بھارتی اچھالتے ہیں! جن تیروں کو ہم نے کمان میں کھینچ کر چھوڑا تھا، آج ہماری پیٹھ میں پیوست ہو رہے ہیںٖ!
سوویت یونین نے افغانستان پرچڑھائی کی اور قبضہ کرلیا۔ تاریخ کا ایک غیر جانبدار طالب علم حیران ہوتا ہے کہ جتنی قیامت پاکستان میں برپا ہوئی، اس کا دسواں حصہ بھی ایران میں برپا نہ ہوا۔ مانا کہ افغانستان اور پاکستان کی سرحد زیادہ طویل ہے مگر ایران کے ساتھ بھی افغان سرحد کی طوالت اچھی خاصی ہے۔ خوف زدہ تو ایران کو ہونا چاہیے تھا، اس لئے کہ روس کی ایران کی طرف پیش قدمی کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ آج تک روس نے برصغیر کے ایک انچ پر بھی قبضہ نہیں کیا، مگر ایران کے تو وہ صوبوں کے صوبے ہڑپ کرتا آیا ہے!1723ء میں پیٹر دی گریٹ نے فوج کشی کرکے ایرانی صوبوں گیلان اور مازندران پر قبضہ کرلیا۔ روس نے پوری کوشش کی کہ مقبوضہ علاقوں میں غیر مسلم آباد کرکے مسلمانوں کی آبادی کم کی جائے۔
1804ء میں پھر لڑائی ہوئی اور ''معاہدئہ گلستان‘‘ کی روسے داغستان، جارجیا اور آذربائیجان کے بڑے بڑے ٹکڑے روس کے قبضے میں آ گئے۔ انیسویں صدی کے اختتام پر تبریز اور قزوین بھی روس کے ہاتھوں میں چلے گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران روس ایران کو للچائی ہوئی نظروں ہی سے دیکھتا رہا۔ جولائی 1945ء میں سوویت یونین کے کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے شمالی آذربائیجان میں تعینات روسی کمانڈر کو مندرجہ ذیل تارار سال کیا:''ایرانی حدود کے اندر‘‘ آذربائیجان کے قیام کی تیاری شروع کرو۔ ساتھ ہی گیلانی، مازندران، گرگان اور خراسان کے صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں تیار کرو۔‘‘
جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو مندرجہ بالا تاریخی پس منظر کے ساتھ، خطرہ تو ایران کو ہونا چاہیے تھا۔ مگر انہی سرحدوںکو مٹا کر، آئو دیکھا نہ تائو، جنگ میں ہم کود پڑے!
یہاں تک بھی ٹھیک تھا، مگر یہ کہاں کی عقل مندی تھی کہ لاکھوں افغان مہاجرین کو پاکستان کے طول و عرض میں کھلی چھٹی دے دی جائے۔ تجارت، ٹرانسپورٹ، مزدوری، سب دروازے ان کے لئے کھول دیئے جائیں۔ پورا ملک پلیٹ میں رکھ کر ان کی خدمت میں پیش کردیا جائے۔ جہاں کتابیں پڑھائی جاتی تھیں، وہاں بندوقیں اور گرنیڈ چلانے کی ''تعلیم‘‘ شروع کر دی جائے۔ لاکھوں افغانوں کو پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کر دیئے جائیں۔ پشاور سے لے کر کوئٹہ تک افغان جنگجو اور ان کے خاندانوں کے خاندان مقیم ہو جائیں۔ خیبرپختونخوا صوبے کی معیشت تباہ ہو جائے اور مقامی پاکستانی کرائے کے مکانوں سے لے کر بڑی جائیدادوں تک اور مزدوری سے لے کر ٹرک ڈرائیوری تک، ہر قسم کی معاشی سرگرمی سے محروم ہو جائیں۔ ملک منشیات کی منڈی میں تبدیل ہو جائے اورایک ایک شہر، ایک ایک قصبہ، اسلحہ کا ڈپو بن جائے!
روسی چلے گئے۔ ہماری جنگ ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ بیس ہزار سے لے کر پچاس ہزار نفوس تک ہر روز افغان سرحدوں سے آ جا رہے ہیں! کوئٹہ کی شوریٰ نے پوری دنیا میں ہمیں مشہور کیے رکھا۔ اب ہماری حکومت کا سربراہ جہاں جاتا ہے، لشکر طیبہ اور حقانی گروپ کے سائے اس کا پیچھا کرتے ہیں! ہم بھارت کی جارحیت کا رونا روتے ہیں تو میزبان ممالک ہمیں ان نجی لشکروں کے نام بتاتے ہیں جو ہماری سرحدوں کے اندر خود مختاری کے مزے اڑا رہے ہیں۔
دنیا میں ہمارا کیا مقام ہیٖ؟ ہمارا ملک دنیا کے ان چار پانچ ملکوں میں شمار ہوتا ہے جن کے پاسپورٹ سب سے زیادہ بے وقعت ہیں۔ گزشتہ سال ہمارے دارالحکومت کا ایئرپورٹ دنیا کا بدترین ایئرپورٹ شمار ہوا، اس سال ہمارا نیچے سے نواں دسواں نمبر ہوا تو ہم نے گہرا سانس لے کر ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیں! دنیا میں شاید ہی کوئی اور ملک ہو جو وزیرخارجہ کے بغیر چل رہا ہو! پھر بھی ہم شکوہ کناں ہیں کہ ہمیں مناسب پروٹوکول نہیںملتا!
اس پر طرئہ یہ کہ کہیں ہمارے ملک کی بے توقیری رونما ہوئی ہے تو ہمارا میڈیا اسے پوری دنیا میں یوں پھیلاتا ہے کہ جسے خبر نہیں تھی، وہ بھی آگاہ ہو جاتا ہے! ہم کتنے عزت دار لوگ ہیں!