ایک نامور ادیب کو ایک سرکاری تقریب کی مسند صدارت پر بٹھا دیا گیا‘خطبۂ صدارت میں اس نے بہت دلچسپ نکتہ اٹھایا۔ اس کا کہنا تھا کہ کائنات میں جتنے بھی مسائل اب تک لاینحل ہیں‘ ان میں سرفہرست یہ ہے کہ اِس تقریب کی صدارت کے لیے اُسے کیوں منتخب کیا گیا؟
کتنے ہی مسئلے ہیں جن کا آج تک کوئی حل نہیں نکلا‘ مثلاً ایک خاص جانور کی دُم اگر ہزار سال تک بھی مستقیم پائپ میں رکھی جائے‘ باہر نکالنے پر ٹیڑھی ہی رہے گی۔ آخر کیوں؟ ساری دنیا سے جاگیرداری (Fiefdom) اور خانہ زاد غلامی (Serfdom) ختم ہو گئی ہے (افریقہ کے کسی کونے کھدرے میں ہو تو ہو) پاکستان میں اپنی اصلی اور خالص شکل میں موجود ہے۔ کیوں؟
اس قبیل کے لاینحل مسائل اور بھی بہت ہیں مگر اس وقت قوم جس مسئلے پر غور کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ پاکستان میں کیوں درج کیا گیا ہے؟
حیات بعد الموت اور حساب کتاب پر جس شخص کا یقین نہ ہو‘ وہ الطاف حسین کو ضرور قسمت کا دھنی قرار دے گا! پاکستان میں مقدمے درج ہوئے تو بیرون ملک چلے گئے۔ دو عشروں سے زیادہ عرصہ ہو گیا‘ لندن میں ہیں‘ بظاہر کوئی ذریعۂ معاش ہے‘ نہ کارخانے ‘نہ جاگیر‘ نہ باغات! مگر اُف کیا لائف سٹائل ہے! شرق اوسط کے بادشاہ رشک نہ بھی کریں تو مغربی ممالک کے حکمران ضرور رشک کریں گے! ٹھاٹھ کی زندگی! اردگرد حواری! برطانیہ عظمیٰ کا پاسپورٹ! جنوبی پاکستان کی کلید برداری! اُن کے ہر اشارۂ ابرو پر سمت بدل لینے والے حکم کے غلام جو وفاق کی پارلیمنٹ سے لے کر سندھ اسمبلی تک ہر جگہ چھائے ہوئے ہیں! سبحان اللہ! سبحان اللہ! تاریخ نے ایسی ریموٹ کنٹرول بادشاہی کم ہی دیکھی ہو گی! پانچوں گھی میں‘ سر کڑاہی میں‘ پاکستان میں جو شخص بھی طاقت کا مالک ہے‘ آصف علی زرداری سے لے کر سردار ایاز صادق تک‘ انہیں ٹیلی فون کرتا ہے۔ رحمن ملک تو اتنی بار حاضر ہوئے کہ شمار مشکل ہو گا! یوں لگتا ہے ایک طلسمی داستان ہے! بچپن میں کہانی پڑھی تھی کہ شہر والوں نے فیصلہ کیا کہ جو صبح سویرے شہر کے دروازے سے اندر آئے گا‘ بادشاہ بنے گا! وہ ایک فقیر تھا جس کے سر پر تاج شاہی رکھا گیا! ؎
یہاں تاج اُس کے سر پر ہو گا جو تڑکے شہر میں داخل ہو
یہاں سایہ ہُما کا نہیں پڑتا‘ یہاں کوہِ قاف نہیں ہوتا
فقیر نے محل میں جاگزین ہونے کے بعد پہلا شاہی حکم یہ دیا کہ حلوہ پکایا جائے! پھر جب اُسے خبر دی گئی کہ دُشمن نے حملہ کر دیا ہے تو اس نے ایک بار پھر حلوہ پکانے کا حکم دیا۔
دو عشروں سے زیادہ عرصہ ہو چکا‘ الطاف حسین لندن میں بیٹھ کر حلوہ کھا رہے ہیں! 16 ستمبر 2010ء کو جب لندن میں عمران فاروق قتل ہوئے تو پاکستان میں سادہ دل لوگ بے اختیار پکار اُٹھے کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی! سادہ دلی کی سرحد سادہ لوحی کے بالکل ساتھ ہے! بہت سوں نے یہ سمجھا کہ الطاف حسین کا یوم حساب نزدیک ہے۔ مگر برطانوی پولیس کی آزادی اور برٹش نظام انصاف کی شفافیت کے ڈھول پیٹے گئے۔ جن افراد نے اس معاملے پر برطانوی پولیس کی غیرجانب داری اور برطانوی نظام انصاف پر سوالیہ نشان اٹھائے‘ ان میں یہ لکھنے والا بھی شامل تھا! ٹیلی ویژن پر برملا کہا کہ برطانوی حکومت مفادات کا اتباع کر رہی ہے! یہ سیاست کا کھیل ہے! ہر ملک کے اپنے مفادات ہیں! ؎
نظر آتا ہے جو کچھ‘ اصل میں ایسا نہیں ہے
مگر تم نے مری جاں! مسئلہ سمجھا نہیں ہے
ٹھیک ہے ان ملکوں میں انصاف ہے! حکمرانوں کا بھی کڑا احتساب ہوتا ہے مگر خفیہ جاسوسی اداروں کا‘ خارجہ امور کی وزارتوں کا اور سلامتی کے مخصوص شعبوں کا اپنا نظام ہے۔''ریاست کے اندر ریاست‘‘ کا تصور ان ملکوں میں بھی عملی جامہ پہن لیتا ہے! ہم بھول جاتے ہیں کہ ان ملکوں کے نظام کی شفافیت ان کے اپنے لیے ہے! غلام ملکوں کے لیے معیار اور ہے! جمہوریت خوب ہے مگر امریکہ میں سجتی ہے۔ الجزائر اور مصر میں مناسب نہیں! انڈونیشیا کے سوہارتو اور ایران کے رضا شاہ سے فائدہ پہنچ رہا ہو تو جمہوریت پر تین حرف! لندن کی پولیس سیاسی دبائو سے آزاد ہے‘ برطانیہ کا نظام انصاف مثالی ہے مگرع مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات! الطاف حسین کا مسئلہ اور ہے! اس معاملے میں برطانوی حکومت کی پالیسی پر نمایاں ترین گرفت خود ایک برطانوی صحافی نے کی!
بینٹ جونز (Bennett Jones) کوئی عام صحافی نہیں! بی بی سی کا رپورٹر ہونے کے علاوہ معروف پروگرام ''نیوز آور‘‘ کا میزبان بھی رہا! گارڈین‘ فنانشل ٹائمز اور دی انڈی پنڈنٹ میں لکھتا رہا۔ بخارسٹ‘ جنیوا‘ اسلام آباد‘ ہنوئی اور بیروت میں رہ کر پیشہ ورانہ امور سرانجام دیتا رہا۔ پرنسٹن یونیورسٹی میں صحافت کا
استاد رہا۔ متعدد ایوارڈ جیتے! 2002ء میں مشہور کتاب ''پاکستان‘ آئی آف سٹارم‘‘ تصنیف کی جس کے کئی ایڈیشن نکلے۔ ''دی گارڈین‘‘ کی 29 جولائی 2013ء کی اشاعت میں اس نے الطاف حسین پر ایک ...مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ''الطاف حسین‘ ایم کیو ایم کا بدنام لیڈر‘ جس نے پاکستان چھوڑ کر لندن چُنا‘‘۔ بینٹ جونز لکھتا ہے کہ پاکستان میں رہنے والوں کے علاوہ الطاف حسین نے ایک برطانوی صحافی (اظہر جاوید) کو بھی دھمکی دی کہ ''اُس کا باڈی بیگ (بوری) تیار ہے‘‘! دسمبر 2012ء میں الطاف حسین نے کہا کہ ''ہم تمہارے باپ کا پیٹ پھاڑ ڈالیں گے اور تمہارا بھی‘‘۔ بینٹ جونز نے اسے بھی نقل کیا۔ 2010ء میں جب کراچی کے ایک پولیس افسر نے جان بچانے کے لیے برطانیہ میں پناہ طلب کی تو برطانوی جج نے اُس کی درخواست منظور کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں تسلیم کیا کہ ایم کیو ایم نے دو سو سے زائد پولیس افسروں کو قتل کیا۔ یہ تو خیر سب عام باتیں ہیں‘ خاص بات جو بینٹ جونز نے لکھی ‘یہ تھی :''برطانیہ نے کچھ سوالوں کے جواب دینے ہیں۔ اس (یعنی برطانیہ) نے پاکستان کی متعدد درخواستوں کی مزاحمت کی۔ ان درخواستوں میں پاکستان نے مطالبہ کیا تھا کہ الطاف حسین کو پاکستان کے حوالے کیا جائے تاکہ اُن پر قتل کا مقدمہ چلایا جا سکے۔ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو انہوں نے بھی کہا کہ برطانیہ کو چاہیے کہ الطاف حسین کو کہے کہ تُم ہماری سرزمین کو تشدد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے‘‘
پھر بینٹ جونز لکھتا ہے کہ ''اگر الطاف حسین مشکوک جہادی ہوتے تو کئی سال پہلے گرفتار ہو چکے ہوتے!‘‘
2002ء میں الطاف حسین کو برطانوی پاسپورٹ دیا گیا۔ برطانوی حکام ''آف دی ریکارڈ‘‘ تسلیم کرتے ہیں کہ برطانوی شہریت دیے جانے کے عمل (Process) میں نقص تھا! اور 1999ء میں جب الطاف حسین کو برطانیہ میں رہنے کی اجازت دی گئی تو یہ ایک ''کلرکانہ غلطی‘‘ (Clerical Error) کا نتیجہ تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بار بار پوچھنے کے باوجود برطانوی ہوم آفس نہیں بتاتا کہ یہ غلطی کیا تھی!! بینٹ جونز تسلیم کرتا ہے کہ اکثر پاکستانیوں کے نزدیک غلطی والی بات مضحکہ خیز ہے!
مدت ہوئی کراچی کا امریکی قونصل خانہ جاسوسی کے حوالے سے سرگرم نہیں رہا۔ یہ کام برطانیہ کر رہا ہے! ایم کیو ایم سے برطانیہ کے مفادات وابستہ ہیں! برطانوی وزارت خارجہ کے لیے یہ بات کم اہمیت کی حامل نہیں کہ لندن میں اُن کے دروازے پر ایسا شخص بیٹھا رہے جس کے ماتحت حکومت پاکستان کے وزیر ہیں!
پاکستان میں مقدمہ قائم کرنے کے دو امکانی پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ برطانوی ''پالیسی‘‘ کے باوجود الطاف حسین کو وہاں پکڑے جانے کا خطرہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو پاکستان میں واپس آنا یا واپس لایا جانا ایسا ہی ہے جیسے ''جو مزہ چھجو کے چوبارے‘ وہ نہ بلخ نہ بخارے‘‘ ۔پاکستان کی پوری تا۔ریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ کوئی بڑا آدمی سزا یافتہ نہ ہو سکا! دوسرا امکانی پہلو یہ ہے کہ حکومت پاکستان سنجیدگی سے الطاف حسین کو قانون کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔ مگر سو سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا ممکن ہے؟ ایان علی اور آصف علی زرداری پر چلائے جانے والے مقدموں کا کیا بنا؟ یہاں تو ہر بااثر مجرم زبان حال سے یہی کہتا ہے کہ ؎
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
سوشل میڈیا پر عدلیہ کے حوالے سے خلق خدا جو کُچھ کہہ رہی ہے‘ ڈھکی چھپی بات نہیں! ایک شہزادہ نشانہ بازی کی مشق کر رہا تھا‘ مگر کوئی تیر بھی ہدف پر نہیں لگ رہا تھا۔ سب اِدھر اُدھر جا رہے تھے۔ شاہی مسخرا بھی ساتھ تھا‘ جا کر ہدف کے پاس کھڑا ہو گیا اور کہا کہ محفوظ ترین جگہ یہی ہے! الطاف حسین نے اگر واقعی جُرم کیا ہے تو پاکستان سے زیادہ محفوظ جگہ کہاں ہو گی!!