ظلّ ہما پر درد کا شدید حملہ ہوا۔ 23 برس کی یہ لڑکی کراچی یونیورسٹی میں ابلاغ عامہ شعبے کی طالبہ تھی۔ گھر والوں نے ٹیکسی میں ڈالا اور جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سینٹر کی طرف بھاگے۔
مگر کراچی شہر پر صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نازل ہو چکے تھے۔ شاہراہیں بند تھیں‘ راستے مسدور تھے‘ گھنٹوں انتظار کے بعد ہسپتال پہنچے تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ اپنڈکس پھٹ چکا تھا۔ ظلّ ہما کمانڈو صدر کی رعیت سے نکل کر ایک اور عدالت میں پہنچ چکی تھی‘ یہ قتل 2006ء کے اپریل میں ہوا۔ گورنر عشرت العباد سے لے کر وزیراعلیٰ ارباب رحیم اور سٹی ناظم مصطفیٰ کمال تک کسی کو ظلّ ہما کے گھر آ کر معافی مانگنا تو درکنار تعزیت کرنے کی بھی توفیق نہ ہوئی۔ اخباری بیان تک جاری کرنا مناسب نہ سمجھا گیا!
یہ کالم نگار بلاول زرداری کی موروثی سیاست کی ہم نوائی کرنے والا اس ملک میں آخری شخص ہو گا۔ مگر بسمہ کی موت پر سیاست دانوں اور مصنوعی سیاست دانوں کے ''غم زدہ‘‘ بیانات پڑھ اور سُن کر ہنسی نہ آئے تو کیا ہو؟ چھاج تو بولے مگر نو سو چھید دامن میں رکھنے والی چھلنی کو بولنے کا کیا حق ہے؟ کیا ہی دلچسپ اور مضحکہ خیزخبر ہے کہ آل پاکستان مسلم لیگ کے چیئرمین جنرل مشرف اور ان کی جماعت کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ سیاست دان پروٹوکول کی لعنت ختم کر دیں کیونکہ بقول ان کے پروٹوکول کی وجہ سے بسمہ کی ہلاکت انسانیت کے لیے باعث شرم ہے! اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ایم کیو ایم کے ایک لیڈر کا بیان ہے کہ شہریوں سے جانوروں کا سلوک بند کیا جائے اور ذمہ داروں پر قتل کا مقدمہ درج کیا جائے!
اپنے عہد ہمایونی میں پرویز مشرف صاحب جب بھی کراچی آئے‘ شہر پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ محتاط سے محتاط اندازے کے مطابق بھی ہر بار دل کے کئی مریض‘ ٹریفک بند ہونے کی وجہ سے گاڑیوں میں مر گئے۔ کسی ''حق پرست‘‘ نے کسی موقع پر بھی چُوں تک نہ کی کیونکہ حق وہی ہوتا ہے جو راس آئے اور جس سے مفاد وابستہ ہو! اور پھر پرویز مشرف صاحب تو اپنے تھے!
18 اپریل 2004ء کو صدر پرویز مشرف لاہور تشریف لائے۔ جیل روڈ‘ مین بلیوارڈ اور ساری لنک روڈز بند کر دی گئیں۔ مزنگ چونگی چوک‘ بہاولپور روڈ اور ریلوے روڈ پر ٹریفک رُکی رہی! تنگ آمد بجنگ آمد ‘پولیس سے ہاتھا پائی کی نوبت آئی۔
3 ستمبر 2002ء کو جنرل صاحب کراچی آئے۔ ہمیشہ کی طرح وہ تمام راستے بلاک کر دیے گئے جو شاہراہ فیصل پر نکلتے ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے امراض قلب‘ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ‘ کڈنی سینٹر‘ غرض تمام ہسپتالوں کے راستے بند ہو گئے۔ جب بھی صدر کا شہر میں ورودہوا‘ معصوم بچے رُل گئے اور شام گئے گھروں تک پہنچے۔ ایم کیو ایم نے جو ہڑتالیں کیں اور کرائیں‘ ان کا شمار ممکن ہے ‘نہ اُن اموات کا جو ان ہڑتالوں کے دوران ہوئیں۔ 2010ء میں صدر زرداری کوئٹہ کے دورہ پر تھے۔ شہر کو سیل کر دیا گیا ۔ایک حاملہ عورت نے رکشے میں بچے کو جنم دیا۔ یاسر عرفات کے لاہور آنے پر شہر کو قیامت کی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ قصور کی حاملہ عورت نے فورٹریس سٹیڈیم کے سامنے‘ سڑک پر سوزوکی ڈبے میں بچے کو جنم دیا اور دنیا سے رخصت ہو گئی۔ اپنی وزارت کے زمانے میں ذوالفقار مرزا صاحب نے خیابان شمشیر کو اپنی زر خرید جاگیر بنایا ہوا تھا۔ دونوں طرف سپیڈ بریکر تھے۔ جب بھی گھر سے نکلتے یا واپس آ رہے ہوتے‘ راستے بند کر دیے جاتے۔ ایک ایسے ہی موقع پر معروف ماہر تعمیرات ثمر علی خان نے جرأت دکھائی‘ بند ٹریفک کے درمیان گاڑی سے نکل کر احتجاج کیا‘ پھر گھنٹی بجا کر صاحب خانہ یعنی ذوالفقار مرزا سے بات کرنا چاہی۔ نتیجہ وہی نکلا‘ جو نکلنا تھا۔ ثمر علی خان کو درخشاں پولیس سٹیشن میں بند کر دیا گیا! لاہور کے شاہی خاندان نے بابل کے معلّق باغات تو‘ کرم کیا‘ کہ شہر سے باہر جا کر تعمیر کیے مگر شہر کے اندر بھی کئی پوش علاقوں میں ان کے بُوہے باریاں ہیں۔ اردگرد کی سڑکوں کے مکینوں سے کون پوچھے کہ اُن پر کیا گزرتی ہے۔
جو کُچھ دارالحکومت میں ہوتا آیا ہے اور ہو رہا ہے‘ سب سے سوا ہے! ''رُوٹ لگنا‘‘ ایک ایسا منحوس‘ مکروہ محاورہ جو ہر راہگیر کی زبان سے گالی بن کر نکلتا ہے خواہ وہ راہگیر پیدل چلنے والا ہے یا اپنی گاڑی خود ڈرائیو کر رہا ہے یا کسی کا ڈرائیور ہے یا ٹیکسی‘ بس یا ویگن چلا رہا ہے۔
اِس بے بضاعت لکھنے والے نے غلامی کی اس علامت پر سب سے زیادہ لکھا ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں! یہاں تک کہ پڑھنے والے تنگ آ گئے ۔اندرون ملک اور بیرون ملک سے قارئین نے کہا کہ کیا رائی کا پہاڑ بنا رکھا ہے! جنوبی ایشیا میں یہ ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا! یہ وہی طرز فکر ہے جس کے سبب لوگ کہا کرتے تھے کہ قتل کرائے تو کیا ہوا! آخری بادشاہ مخالفین کو مرواتے ہی رہے ہیں‘ یہ بھی تو دیکھو کہ بھٹو صاحب سُوٹ کتنے اچھے پہنتے ہیں اور انگریزی کتنی خوبصورت بولتے ہیں!
مگر بسمہ کی اندوہناک موت نے اِس ملک کی تاریخ کا ایک نیا ورق الٹا ہے! جنوبی ایشیا کی تاریخ بدلے گی اور ضرور بدلے گی! پاکستانیوں کے مقدر میں ہمیشہ کی غلامی نہیں لکھی گئی! قوموں کا مقدر قومیں خود بناتی ہیں! دن بدل رہے ہیں۔ نو سال پہلے ظل ہما اسی ظلم کا شکار ہوئی تھی۔ مگر اُس وقت سب مُہر بہ لب تھے۔ کچھ کے ہونٹ مفادات کی شیرینی کھا کر بند تھے ‘کچھ اس خوف سے چُپ رہے کہ آمریت کا کوڑا کڑک رہا تھا۔ ''ہوشیار‘‘ سیاست دان وردی استری کرنے کے لیے دھوبی بنے ہوئے تھے! حالت یہ تھی ؎
بہت لمبی روش تھی باغ کی دیوار کے ساتھ
پِس دیوار قسمت کب سے بیٹھی رو رہی تھی!
مگر پھر ؎
چمن تک آ گئی دیوارِ زنداں! ہم نہ کہتے تھے!
آج وہی پاکستان ہے‘ وہی کراچی ہے‘ نثار کھوڑو نے قتل کا جواز پیش کیا تو سوشل میڈیا میں طوفان بپا ہو گیا یہاں تک کہ بلاول زرداری کو مقتولہ کے گھر جا کر اس غیر دانش مندانہ بیان پر معذرت کرنا پڑی۔
مگر ہسپتال پہنچنے سے پہلے دم توڑنے والے مریض اس لعنت کا ایک چھوٹا سا شکار ہیں! اصل شکار وہ عزت نفس ہے جس کو شاہی جلوس موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ ایک شریف شہری‘ خون پسینے کی کمائی سے خریدی ہوئی گاڑی پر اپنے گھر یا کام پر جا رہا ہے۔ وہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ گاڑی کے سارے ٹوکن ادا کردہ ہیں! سڑک پر بچھی ہوئی تارکول اُس کی جیب سے نکلے ہوئے پیسے سے خریدی گئی ہے۔ سڑک بنانے والے ٹھیکیداروں کو ادائیگیاں اُس کی کمائی سے کی گئی ہیں یہاں تک کہ بدطنیت‘ بداصل اور حرام خور انجینئر افسروں کے تنور نما شکم میں ڈالے جانے والے کمیشن کا بوجھ بھی اُسی کی کمر پر لادا گیا ہے۔ اچانک ایک سپاہی سیٹی بجاتا ہوا‘ سڑک پر ایڑیوں کے بل گُھوم کر اسے روک دیتا ہے۔ نہ رکے تو اُس کے بونٹ پر مکہ مارتا ہے یا بندوق تان لیتا ہے کہ فرعونوں کی طرح گردن اکڑانے والوں نے گزرنا ہے! وہ فرعون جو ٹیکس نہیں دیتے اور جو کروڑوں روپوں کی گاڑیوں میں بیٹھے ہیں۔ وہی گاڑیاں جو روکے جانے والے شہری کے ادا کردہ ٹیکسوں سے خریدی گئی ہیں! ہسپتال جانے والا وہیں دم توڑ دیتا ہے! حاملہ عورت بچے کو وہیں جنم دے دیتی ہے۔ طالب علم کمرہ امتحان میں نہیں پہنچ سکتا۔ ائرپورٹ یا ریلوے سٹیشن جانے والا خوار و زبوں ہو جاتا ہے۔ کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ جس حاکم کو جمہور نے زمام اقتدار اس لیے سونپی تھی کہ جمہور کے دکھوں کا مداوا کرے‘ وہ اُسی جمہور کے گلے پر پائوں رکھتا ہے اور پھر پوری قوت سے پائوں کو دباتا ہے!
عمران خان کا اعلان کہ کے پی کے میں اس لعنت کا خاتمہ کر دیا جائے گا‘ ہوا کا رُخ بتاتا ہے! رُخ متعین ہو چکا ہے! دیر ہوئی ہے‘ اندھیر نہیں۔ وہ جو انگریز محاورہ استعمال کرتے ہیں کہ IT IS A BIG IF تو عمران خان کا اعلان بھی ایک بہت بڑا IF ہے۔ پروٹوکول کے مارے ہوئے ‘احساس کم تری کا شکار‘ ذہنی مریض‘ ہٹو بچو کی بیساکھیوں کے بغیر کہاں رہ سکتے ہیں مگر ایک بار مریض کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا آ گیا تو چلنا بھی شروع کر دے گا۔ وزیراعظم اور صوبائی حکمرانوں کی اور پارٹی کے موروثی مالکوں کی سواریاں عام ٹریفک کا سامنا کریں گی تو ٹریفک کے مسائل بھی کم ہو جائیں گے۔ پولیس کا رویہ بھی منصفانہ ہو جائے گا۔ کیا عجب اس حوالے سے ہم بھی مہذب اقوام میں شمار ہونے لگیں۔
1986ء کی بات ہے۔ سویڈن کا وزیراعظم آدھی رات کو سینما میں فلم دیکھ کر‘ گھر کی طرف پیدل جا رہا تھا۔ بیگم ساتھ تھی۔ پیٹھ پر گولی لگی اور وزیراعظم کی موت واقع ہو گئی۔ حکمرانوں نے اس خوفناک واقعہ کے بعد بھی سکیورٹی کا حصار اپنے گر دنہ قائم ہونے دیا۔ سترہ سال بعد 2003ء میں سویڈن کی وزیر خارجہ اینا لَینڈھ کو ایک نامعلوم قاتل نے چُھرے کے پے در پے وار کر کے اُس وقت موت کے گھاٹ اتار دیا جب وہ گاہکوں سے بھرے ہوئے ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور میں شاپنگ کر رہی تھی۔ ایک بار پھر بحث شروع ہوگئی کہ حکمرانوں کو اپنی حفاظت کے لیے سکیورٹی کے اندر رہنا چاہیے مگر ملک کے اہل سیاست نے خاص طور پر برسر اقتدار سیاست دانوں نے طرز زندگی تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ عام شہری ہی کی طرح رہیں گے۔ چنانچہ اب بھی وہ عام ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں۔ سبزی اور کریانے کی دکانوں سے اپنا سودا سلف خود خریدتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ جسے جان کا خطرہ لاحق ہو‘ وہ سیاست میں آئے نہ حکومت میں بلکہ گھر بیٹھے ع
جس کو ہو دین و دل عزیز‘ اُسکی گلی میں جائے کیوں؟