گنتی

یاد نہیں عرفات تھا یا مِنٰی لیکن واقعہ آنکھوں دیکھا ہے۔ ایک خاتون چادر میں لپٹی‘ دیوار کی طرف مُنہ کیے بیٹھی تھی۔ پیچھے اس کا پاکستانی شوہر یوں بیٹھا تھا جیسے پہرہ دے رہا ہو۔ ایک شخص نے جو پاکستانی ہی تھا‘ اُسے کہا کہ خاتون کو حج کے مناسک ادا کرنے دو۔ اس پر ''پہریدار‘‘ شوہر نے مشورہ دینے والے کو وارننگ دی کہ ''تُم اپنے کام سے کام رکھو‘ میرے معاملے میں دخل مت دو‘‘۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ اِس مائنڈ سیٹ کے ساتھ اس ملک میں مردم شماری ہو سکتی ہے؟ ان دنوں غلغلہ ہے کہ 2016ء میں مردم شماری ہو گی۔ اس سے پہلے 1998ء میں ہوئی تھیِ‘ یعنی سترہ سال پہلے!
مردم شماری ایک ملک کی ترقی کے لیے یوں سمجھیے ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس سے وہ اعداد و شمار حاصل ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر ایک ملک اپنے مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرتا ہے۔ مردم شماری سے مراد صرف یہ نہیں کہ کل آبادی کتنی ہے۔ مردم شماری سے حکومت کو اور ریسرچ کرنے والوں کو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ خواتین کتنی ہیں‘ بوڑھے کتنے ہیں‘ بیروزگار کتنے ہیں‘ کتنی خواتین ناخواندہ‘ کتنی خواندہ‘ کتنی پرائمری پاس‘ کتنی میٹرک‘ کتنی گریجوایٹ اور کتنی ایم اے ہیں۔ مردوں کی تعلیمی حالت بھی معلوم ہو جاتی ہے۔ اّیامِ طفلی کے دوران‘ یا پیدائش کے فوراً بعد مرنے والے بچوں کی تعداد بھی معلوم ہو جاتی ہے۔ زراعت‘ صنعت‘ ٹیچنگ اور دیگر شعبوں سے وابستہ شہریوں کی تعداد بھی معلوم ہو جاتی ہے۔
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں‘ جہاں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا جہاد کرنے کے مترادف ہے اور جہاں کے مرد اپنی عورتوں کو حج پر لے جا کر‘ حج کے مناسک تک نہیں ادا کرنے دیتے‘ ایسے ملک میں یہ کون بتائے گا کہ گھر میں خواتین کی تعداد کیا ہے‘ انہوں نے تعلیم کہاں تک حاصل کی ہے‘ ان کے نام کیا ہیں؟ اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ یہ سوال سُن کر گھر سے نکلنے والا مرد گولی چلا دے یا تھپڑ رسید کر دے یا مردم شماری کرنے والے اہلکار کو تنبیہ کرے کہ میاں چلتے بنو اور ''بے شرمی‘‘ والے سوال مت پوچھو!
ایک رجحان ہمارے ہاں یہ بھی ہے کہ اس قسم کی ہر حکومتی سرگرمی کو مغرب کی ''ایجاد‘‘ کہہ کر حقارت سے سے ٹھکرا دیتے ہیں۔ یہاں تک کہا گیا کہ پاسپورٹ اور ویزا مغربی استعمار نے اس لیے رائج کیا کہ امت مسلمہ ملکوں میں بٹ جائے حالانکہ تاریخی حقائق کچھ اور ہیں۔ خلافت کے زمانوں میں ٹیکس کی ادائیگی پر حکومت رسید جاری کرتی تھی‘ یہ رسید آمدورفت کے مواقع پر پاسپورٹ کا کام کرتی تھی۔ بین الاقوامی تجارت پر عائد کردہ محصول کو انگریزی میں Tariff کہتے ہیں۔ اب اگر عوامی ''مقبولیت‘‘ حاصل کرنے کے لیے کوئی نعرہ لگائے کہ ٹیرف مسلمانوں کے خلاف مغرب کی سازش ہے تو واہ واہ تو ہو جائے گی اور ریٹنگ کا گراف بھی آسمان کو چُھونے لگے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ ٹیرف کا لفظ ''تعارف‘‘ سے بنا ہے۔ مسلمان حکومتوں میں تاجر کو ایک اجازت نامہ دیا جاتا تھا جو وہ بارڈر پار کرتے وقت کسٹم افسروں کو دکھاتا تھا۔ اس ''تعارف‘‘ کو یعنی سرکاری سرٹیفکیٹ یا این او سی‘ یا جو کچھ بھی اس میں لکھا ہوتا تھا‘ دیکھ کر تاجر پر 
ٹیکس لگایا جاتا تھا یا معاف کر دیا جاتا تھا۔ دو مسلمان ملکوں کے درمیان بھی بارڈر اور بارڈر کی پابندیاں ہوتی تھیں۔
مردم شماری (Population Census) بھی اہل مغرب کی ایجاد نہیں! غیر مسلم مورخین نے لکھا ہے کہ عراق اور مصر کے صوبوں میں حضرت عمر ؓفاروق نے مفتوحہ زمینوں کا سروے کرایا اور ٹیکس کے حوالے سے مردم شماری کروائی۔ بنو امیہ کے ابتدائی عہد میں بھی مردم شماری کی شہادتیں ملتی ہیں!
پاکستان میں درست مردم شماری کے راستے میں ثقافتی جھجک ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ صرف قبائلی علاقوں اور دورافتادہ بستیوں میں رہنے والوں کا معاملہ نہیں‘ ایک عام پڑھا لکھا پاکستانی بھی مردم شماری کے لیے تعاون کرنے پر مشکل ہی سے آمادہ ہو گا۔ متعلقہ فارم کو پُر کرنے میں وہ ذمہ داری سے شاید کام ہی نہ لے۔ اہلکار اُسے دوسری یا تیسری 
بار یاددہانی کرائے تو قوی امکان ہے کہ وہ جھلّا جائے۔ خواتین کی تعداد پوچھنے کے نتائج شاید شہروں میں بھی حوصلہ افزا نہ ہوں۔ مگر اصل رکاوٹ مردم شماری کے درست رزلٹ میںاور ہے اور وہ ہے غیر ملکیوں کی کثیر تعداد! یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ افغان سرحد سے ہر روز پچاس سے ستر ہزار افراد سفری دستاویزات کے بغیر بلا روک ٹوک آتے جاتے ہیں۔ آنے والے غیر ملکی کہاں جاتے ہیں؟ کہاں رہتے ہیں‘ واپس جاتے ہیں یا نہیں‘ اس بارے میں متعلقہ اداروں کے پاس کوئی معلومات نہیں‘ نہ اعداد و شمار! یہ اور بات ہے کہ ہر ان پڑھ پاکستانی بھی جانتا ہے کہ یہ غیر ملکی پاکستان کا شناختی کارڈ حاصل کر لیتے ہیں اور پاسپورٹ بھی‘ یہاں جائیدادیں بھی خرید لیتے ہیں اور کاروبار بھی وسیع پیمانے پر کر رہے ہیں‘ لاہور شہر ایک اعتبار سے غیر ملکیوں کے حصار میں ہے۔ یہی حال دارالحکومت کا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب یہ کالم نگار بارہ کہو میں رہائش پذیر تھا‘ تو پانی بور کرنے کے لیے ایک غیر ملکی کو مامور کیا‘ اُس کے سولہ بچے تھے‘ ایک سال بعد پھر بور کرنا پڑا۔ اب کے بھی غیر ملکی ہی میسر آیا۔ اس کے غالباً بارہ بچے تھے۔ یاد رہے یہ وہ علاقہ ہے جو وزیراعظم کے دفتر سے دس پندرہ منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔ یہی صورتحال پورے پاکستان میں ہے۔ نازک تر مسئلہ بلوچستان کا ہے۔ گزشتہ ہفتے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے جن خدشات کا اظہار کرتے ہوئے افغان مہاجرین کی 
موجودگی میں مردم شماری کو مسترد کیا ہے‘ ان پر غور ہونا چاہیے۔ اختر مینگل کے بقول یہ بات آن ریکارڈ ہے کہ افغانستان کے جن انتخابات میں حامد کرزئی منتخب ہوئے تھے بلوچسان میں مقیم ہزاروں افغان مہاجرین نے اس میں ووٹ کاسٹ کیے تھے۔ ان سب کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ بھی ہیں۔ ان حالات میں مردم شماری کے نتائج کتنے درست ہوں گے؟ اندازہ لگانا دشوار نہیں! پھر یہ بھی ہے کہ جن علاقوں میں آپریشن ہو رہا ہے وہاں مردم شماری کے عملے کے لیے گھر گھر جا کر کام کرنا ناممکن ہو گا۔ صوبائی اسمبلی کے حالیہ ضمنی انتخابات میں ستر میں سے صرف سات پولنگ سٹیشنوں پر ووٹ ڈالے گئے۔
بارڈر عملی طور پر وجود ہی نہیں رکھتا‘ شناختی کارڈ‘ ڈومیسائل اور پاسپورٹ جاری کرنے والے محکمے بدعنوانی میں سر سے پائوں تک غرق ہیں۔ غیر ملکیوں نے جس طرح دن دہاڑے‘ پاکستان میں جائیدادوں اور کاروبار پر دسترس حاصل کی ہے اور جس طرح دستاویزات بنوا لی ہیں‘ اٹھارہ کروڑ پاکستانی اس کے چشم دید گواہ ہیں۔ گزشتہ دنوں تو یہ خبر عام ہوئی کہ نادرہ جیسے حساس ادارے میں بھی یہ غیر ملکی ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں‘ نہ جانے ریاست کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے؟
مردم شماری ہونی چاہیے۔ مگر اس سوال کا جواب کون دے گا کہ اگر لاکھوں غیر ملکی پاکستانی شہری بن کر رہ رہے ہوں اور اگر متعلقہ سرکاری ادارے نااہل ہیں اور کرپٹ بھی‘ تو یہ مردم شماری کس قدر قابل اعتبار ہو گی؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں