ظہیر صاحب جدہ ایئرپورٹ پر آئے ہوئے تھے۔ اپنے گھر لے گئے۔ ان کا اصرار تھا کہ دوپہر کا کھانا ان کے ہاں کھا کر کچھ دیر آرام کیا جائے پھر شام کو مکہ مکرمہ کا عزم کریں اور رات حرم ہی میں گزاری جائے۔ وہ اور ان کے اہلِ خانہ بھی ساتھ جائیں گے۔
ظہیر صاحب جدہ کے پاکستان کونسلیٹ میں کام کر رہے تھے۔ اندر کی یہ بات بھی انہی کے ذریعے معلوم ہوئی کے اُن دنوں(2001ء کے لگ بھگ) ایک پاکستانی وزیر نے چمڑے کے موزے خریدے تا کہ طواف کے دوران زیبِ پا کریں۔ ان موزوں کی قیمت بیس ریال۔ کونسلیٹ نے سرکاری خزانے سے ادا کی۔ خبر تو خیر یہ بھی ملی تھی کہ ایک اور مقتدر شخصیت نے احرام جدہ جا کر باندھا اس لیے کہ احرام سفارتخانے نے مہیا کرنا تھا۔ پاکستان سے باندھ کر جاتے تو خود خریدنا پڑتا۔ رہا میقات کا مسئلہ تو وہ تو اہلِ غم کے لیے ہے! ؎
لپیٹ کر غم کی چادریں رُک گئے وہیں پر
عجیب ہیں! ایک عمر میقات میں رہے ہیں
مگر یہ سب ضمنی باتیں ہیں۔ اصل بات جو بتانی ہے اور ہے۔ ظہیر صاحب نے دوران گفتگو بتایا کہ جدہ کے اسی محلے میں جہاں ان کا قیام تھا، ایک عرب خاتون کا میاں وفات پا گیا۔ خاتون دولت مند بہت تھی۔ اس کے اعزہ و اقارب اس کے اردگرد منڈلانے لگے کہ شاید کسی کی قسمت یاوری کر جائے۔ خاتون کا گھریلو ملازم ایک بنگالی مسلمان تھا۔ خاتون نے اس کا انتخاب کیا۔ اسے بتایا کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس نے رضا مندی کا اظہار کیا اور شادی ہو گئی۔
آپ کا کیا خیال ہے، پاکستان میں کوئی بیوہ اپنے ملازم سے شادی کر سکتی ہے؟اگر کر لے تو معاشرہ اُسے کن نگاہوں سے دیکھے گا؟ یہ ایک ایسا واقعہ ہو گا جو لوگ ''عبرت‘‘ کے لیے ایک دوسرے کو سنائیں گے۔ سننے والے کانوں کو ہاتھ لگا کر اسے قربِ قیامت کی نشانی قرار دیں گے اور کچھ نیکو کار تو اس کے ڈانڈے بے حیائی سے ملا کر استغفار بھی کریں گے۔
حضرت خدیجہؓ نے شادی کا پیغام خود بھیجا۔ اس ثقافت کو اسلام نے ختم نہیں کیا بلکہ اسی کی حوصلہ افزائی کی۔ سعودی عرب سے نکلنے والے روزنامہ ''عرب نیوز‘‘ میں ایک مدت سے اسلامی نقطۂ نظر سے سوالوں کے جواب دیئے جا رہے ہیں۔ یہ عالمِ عرب میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا انگریزی زبان کا اخبار ہے۔ ان سوالوں کے جواب، متعدد جلدوں میں تالیف کیے جا چکے ہیں اور پوری دنیا میں رہنمائی کے لیے ان سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ ایک مسلمان خاتون پوچھتی ہے کہ ایک مسلمان لڑکی اپنا رفیقِ زندگی خود چن سکتی ہے۔ جواب میں عرب نیوز نے ایک واقعہ لکھا ہے۔ ایک عورت سرورِ کونینﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور شکایت کی کہ اس کے والد نے اُس کے کزن کے ساتھ اس کی شادی زبرستی کر دی ہے تا کہ والد کا سماجی حوالہ اِس بندھن کی مدد سے زیادہ معزز ہو جائے۔ آپؐ نے اس شادی کو منسوخ فرما دیا۔ اس پر اس عورت نے کہا ''اب میں اس شادی پر راضی ہوں۔ میں تمام مردوں پر واضح کرنا چاہتی تھی کہ یہ مردوں کے اختیار کا معاملہ نہیں!‘‘
اب یہ پوچھنے کی جسارت کون کرے کہ ہمارے علماء، ہمارے خطبا، ہمارے مذہبی رہنما، اس ضمن میں ہمیں وہ سب کچھ کیوں نہیں بتاتے جو عہدِ رسالتؐ میں ہوتا تھا؟
اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں جو سلوک عورتوں کے ساتھ ہو رہا ہے، اس کا اسلام میں تصور کرنا بھی محال ہے۔ چار دن پہلے ایک خاتون نے اپنے آپ کو نذرِ آتش کر دیا۔ اس کے جسم کا 65فیصد حصہ جل گیا۔ اس کا میاں اسے بے اولاد ہونے کے طعنے دیتا تھا۔ اس نے اس کی زندگی جہنم بنا کر رکھ دی تھی۔ اس کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا۔ مٹی کا تیل اپنے اوپر چھڑک کر آگ لگا دے۔ یہ واقعہ کسی دور افتادہ جنگل کا نہیں، دارالحکومت کے مضافات کا ہے۔ وزارتِ داخلہ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ جنرل پرویز مشرف کے عہدِ حکومت میں چار ہزار عورتیں قتل کی گئیں۔ ان میں سے ایک ہزار انیس وہ تھیں جو ''غیرت‘‘ کی نذر ہوئیں۔ صرف تین سال کے دوران 4971 خواتین کی آبرو ریزی کی گئی۔ اسی عرصہ میں چار ہزار دو سو نوے عورتوں نے پولیس میں تشدد کی شکایت درج کرائی۔ 2013ء کے دوران چھپن عورتوں کو اس لیے قتل کیا گیا کہ انہوں نے بیٹیوں کو جنم دیا تھا۔ پنجاب پولیس کے اعداد و شمار کی رو سے 2013ء کے دوران 2576 عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ وزارت داخلہ نے بتایا کہ2005ء اور 2007ء کے دوران ایک ہزار خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ وزارت کے ایک اہلکار کا خیال تھا کہ اصل تعداد کہیں زیادہ ہے کیونکہ یہ ایک ہزار واقعات وہ ہیں جو
رپورٹ ہو سکے۔ جناب ریاض فتیانہ نے قومی اسمبلی میں پوچھا تھا کہ سزائے موت پانے والی عورتوں کی تعداد کتنی ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ 2005ء سے لے کر 2007ء تک۔ تین سالوں میں کسی عورت کو سزائے موت نہیں سنائی گئی مگر انہی تین سالوں میں 3236عورتیں قتل کی گئیں۔ اس مدت کے دوران اکاون عورتوں کے چہروں پر تیزاب پھینکا گیا۔ 45ایسی تھیں جنہیں چولہا پھٹنے سے جلانے کی کوشش کی گئی۔ ''غیرت کی نذر ہونے والی عورتوں کی تعداد 2005ء کے دوران 321 تھی۔ 2006ء کے دوران 339عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں اور 2007ء کے دوران 359عورتیں موت کے گھاٹ اتاری گئیں۔ رہے تشدد اور جسمانی اذیت کے واقعات تو وزارت نے بتایا کہ ان کی تعداد سات ہزار سے زیادہ تھی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جس ''اسلامی‘‘ ملک میں عورتوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور دن دہاڑے ہو رہا ہے، اس میں کسی عالم، کسی فقیہہ، کسی مولانا، کسی خطیب نے اس ظلم کے خلاف کبھی کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ کسی نے آج تک کبھی ایک لفظ نہیں کہا۔ پنجاب اسمبلی نے جو بل پاس کیا ہے اس پر ایک صاحب نے قوم کو وارننگ دی ہے کہ خاندانی نظام تباہ ہو جائے گا۔ تعجب ہے کہ ہزاروں عورتیں قتل کی جاتی ہیں۔ ان کے بچے دنیا کی سختیاں سہنے کے لیے اکیلے رہ جاتے ہیں۔ مگر اس سے خاندانی نظام کبھی تباہ نہیں ہوتا۔ جب عورتوں کو بیٹی کی پیدائش پر مار دیا جاتا ہے یا خود کشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے تو کیا اُس وقت خاندانی نظام تباہ نہیں ہوتا؟ اس ملک میں جب عورتوں کو وراثت میں سے شرعی حصہ دینے کا وقت آئے تو عبائیں اور عمامے اپنے ہونٹ سی لیتے ہیں اور تھری پیس سوٹ پہنے لبرل اپنا تھوکا چاٹ لیتے ہیں۔ کیا آپ نے کسی مذہبی رہنما، کسی عالم کو جائیداد کے لیے عورتوں کی شادی نہ کرنے یا قرآن سے شادی کرنے کی مذمت کرتے سنا ہے؟ جب پنچایتیں پانچ سالہ لڑکی کی شادی ستر سالہ بوڑھے سے کرتی ہیں اس لیے کہ مجرم پانچ سالہ لڑکی کا بھائی یا باپ تھا تو اُس وقت مولانا حضرات کیوں مِنقارزیرِ پر ہو جاتے ہیں؟ پنچایتوں کے یہ فیصلے اکا دکا نہیں، سینکڑوں کی تعداد میں ہو رہے ہیں، ان پنچایتوں میں جو ''جج‘‘ یہ فیصلے کرتے ہیں۔ انہیں تو جاہل کا خطاب نہیں دیا جاتا! اسی ملک میں بے گناہ عورتوں کو گولیاں مار کر صحرا میں دفن کیا گیا۔ اس کی حمایت کرنے والے اُس وقت کی کابینہ میں بیٹھے تھے۔ کسی مذہبی رہنما کو احتجاج کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ دو جہانوں کے سردارؐ ازواجِ مطہرات کی موجودگی میں اپنے کپڑے خود دھو لیتے تھے۔ جوتے کی مرمت خود فرماتے تھے۔ گھر کا کام کرنے میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ عورت کو پائوں کی جوتی سمجھنے والے یہ حضرات کیا اس معاملے میں سنتِ رسول کی پیروی کر رہے ہیں؟
مگر کون پوچھے، جو پوچھے گا وہ کافر قرار دیا جائے گا۔ شورش کاشمیری نے استفسار کیا تھا ؎
قوم کو الّو بنائو کیا یہی اسلام ہے؟
دو ٹکے کے رہنمائو کیا یہی اسلام ہے؟
یہ بھی سوچا ہے کہ تعلیمِ پیمبر کے خلاف
مومنوں کا دل دکھائو کیا یہی اسلام ہے؟
اس وطن میں کوئی تم کو پوچھنے والا نہیں
مسجدیں تک بیچ کھائو کیا یہی اسلام ہے؟
حاشیہ ادرک کی چٹنی کا پھریری دال میں
قورمہ فرنی پلائو کیا یہی اسلام ہے؟
نوشگفتہ کونپلوں کو خواہشِ اولاد پر
اپنے پہلو میں بٹھائو کیا یہی اسلام ہے؟
کل خدا کے سامنے ہر بات کا ہو گا حساب
آج گلچھرے اڑائو کیا یہی اسلام ہے؟