وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ اقتدار کے بجائے اقدار کی سیاست کر رہے ہیں۔
اگر وہ صرف اقدارکی بات کرتے تو ایک حد تک بات صحیح تھی۔ عام بات جو سننے میں آتی ہے یہی ہے کہ وزیراعظم کی فیملی کے ہاں خاندانی اقدار مضبوط ہیں۔ جب تک ان کے والد حیات رہے‘ وہ ان کے تابع فرمان رہے۔ ہمیشہ سعادت مندی کا مظاہرہ کیا۔ اب سنا ہے کہ وہ اپنی والدہ محترمہ کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ان کے صاحبزادے کی تلاوت کا تذکرہ بھی سننے میں آتا رہا ہے۔ یہ خاندان صوم و صلوٰۃ کا پابند ہے۔ مشرقی روایات پر یقین رکھتا ہے۔
سب بجا! مگر اقتدار کی سیاست؟ نہیں جناب وزیراعظم! نہیں! اگر اس بندۂ گستاخ کو جان کی امان ملے تو دست بستہ عرض کرے کہ جناب نے سیاست کی ہے مگر اقدار کی سیاست نہیں کی! یہ سیاست سر تا پا‘ سراسر‘ مکمل‘ اقتدار کی سیاست تھی اور ہے! اقدار جب خاندانی حوالے سے جانچی جائیں تو صورت کچھ اور ہوتی ہے‘ مگر اقدار جب اقتدار کے سیاق و سباق میں پرکھی جائیں تو تصویر مکمل طور پر مختلف ہوتی ہے۔
اقدار کی سیاست ہوتی تو ایف بی آر سے جب وہ سی بی آر تھا‘ ایک ایک دن کے لیے قوانین تبدیل نہ ہوتے۔ مرکز میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پنجاب میں مسلم لیگ نون کی تو پنجاب کے سرکاری خزانے سے بڑے بھائی کے معاون اور خدمت گار نہ رکھے جاتے۔ اقدار کی سیاست یہ نہیں کہ چار صوبوں میں سے صرف ایک صوبے کا حکمران‘ وزیراعظم کے ساتھ دوسرے ملکوں کے دورے کرے۔ وزارت خارجہ میں بھی دخل دے‘ توانائی کی وفاقی وزارت بھی چلائے اور نوبت یہاں تک آ پہنچے کہ ایک وفاقی وزیر دخل اندازی سے تنگ آ کر چیخ اُٹھے۔
اقدار کی سیاست یہ نہیں کہ وزیراعظم کا بھتیجا‘ رکن قومی اسمبلی کا ہو اور صوبے کا مختارِ کُل ہو۔ صاحبزادی کی سرکاری حیثیت کچھ نہ ہو مگر دفاتر اور ماتحتوں کی قطاریں سرکار کے خرچ پر کھڑی ہوں!
سیاست کو اقدارکے خطوط پر چلانا ہو تو مسلمانوں کا زمانہ اوّل دیکھیے یا غیر مسلموں کا زمانۂ حاضر ملاحظہ فرمائیے۔ امیر المومنین عمر فاروقؓ اپنی جانشینی طے کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل فرماتے ہیں۔ اس میں اپنے فرزند کو رکھتے ہیں مگر صرف مشورہ کے لیے۔ وہ حکمران نہیں بن سکیں گے‘ یہ ہے اقدار کی سیاست! امیرالمومنین علی مرتضیؓ اپنے عہد حکومت کے نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ فریق مخالف مشکلات پر مشکلات کھڑی کر رہا ہے۔ ان کے زیرانتظام ایک صوبے کا گورنر صوبے کے خزانچی سے رقم ادھار لیتا ہے(اس پر بھی غور فرمائیے کہ صوبے کا خزانچی صوبے کے گورنر کا ماتحت نہیں تھا‘ ایگزیکٹو اور فنانس کی اس علیحدگی کی بنیاد حضرت عمرؓ نے رکھی تھی!) گورنر نے سرکاری رقم واپس کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا، اس حد تک کہ خزانچی نے امیرالمومنین علی مرتضیؓ سے شکایت کر دی۔ کچھ رفقا نے درگزر سے کام لینے کا مشورہ دیا اس لیے کہ حالات ابتر ہو رہے تھے اور وفادار ساتھیوں کی ضرورت اشد تھی۔ گورنر امیر المومنین کا قریبی عزیز بھی تھا مگر نرمی دکھائی نہ رعایت دی۔ رقم واپس لی گئی۔ گورنر نے ساتھ چھوڑ دیا۔ مکہ مکرمہ چلا گیا اور اس کے بعد ایک روایت کے مطابق فریق مخالف سے جا ملا۔ یہ ہے اقدار کی سیاست! جنگ کے بادل سر پر منڈلا رہے ہوں‘ گورنر رشتہ دار ہو مگر قانون کے نفاذ میں دیر ہوگی نہ اندھیر ہوگا!
اور زمانۂ حاضر کے غیر مسلم حکمران! اگر آج کے مسلمان حکمرانوں کے ضمیر زندہ ہوں تو زمانۂ حاضر کے غیر مسلم حکمرانوں کا رویّہ اِن مسلمان حکمرانوں کے رخساروں پر طمانچے سے کم نہیں! مگر ضمیر زندہ نہ ہو تو روح بھی مرجھا جاتی ہے۔ پھر عزت نفس کی تدفین ہو جاتی ہے، منوں مٹی کے نیچے! یوں کہ صرف نفس ہی نفس رہ جاتا ہے۔ یہ غیر مسلم حکمران سائیکلوں پر دفتر آ رہے ہیں۔ بھیس بدل کر ٹیکسیاں چلا رہے ہیں کہ عوام سے براہ راست رابطہ قائم ہو۔ برطانوی وزیراعظم ٹرین میں کھڑا ہوکر سفر کر رہا ہے۔ اس کی بیوی بغیر ٹکٹ سفر کرتی ہے تو قانون کا سامنا کرتی ہے۔ امریکی صدر کٹہرے میں کھڑا ہو کر مقدمہ بھگتتا ہے۔ اسرائیل کی پہلی خاتون چیف جسٹس کی تقریب حلف برداری ہے مگر سربراہ حکومت تقریب میں شریک نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ اسے تھانے پیش ہونا ہے۔ وہ پارلیمنٹ کی خدمت میں چھٹی کی درخواست بھیجتا ہے۔ چھٹی منظور کی جاتی ہے، تب وہ تھانے حاضر ہوتا ہے اور کئی گھنٹوں کی تفتیش میں سے گزرتا ہے۔ مارگریٹ تھیچر کپڑے خود دھوتی ہے، کھانا خود تیار کرتی ہے۔ یہ ہے اقدار کی سیاست! عالی جاہ! یہ ہے اقدار کی سیاست!!
تین ٹیسٹ ہیں جو طے کرتے ہیں کہ سیاست اقتدار کی ہے یا اقدار کی! اوّل، سربراہ حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد کاروبار چھوڑ دے اور خاندان کے افراد کاروبار کر رہے ہیں تو سرکاری چھتری ان کے سر پر ہرگز نہ ہو۔ دوم، رشتہ دار سرکاری مراعات کے اہل نہ ہوں! پروٹوکول لے سکیں نہ کار سرکار میں مداخلت کر سکیں، اس لیے کہ سرکاری مراعات کا حق دار سربراہ ہے۔ درجنوں سرکاری گاڑیوں کے قافلے بیٹے، بھائی یا بھتیجے کے جلو میں کیوں چلیں؟ سوم، سربراہ حکومت کا رہن سہن مسرفانہ نہ ہو، سادہ ہو! کروڑوں ڈالر کی گھڑی باندھنے کی اجازت قانون بے شک دیتا ہو‘ اقدار نہیں اجازت دیتیں۔ عوام میں رہیے، سودا سلف خود
خریدیئے، آپ کو معلوم ہوکہ امام دین اور احمد خان اور ان کے بیوی بچے کن حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اقدار کی سیاست میں وزیر اعظم کا گھر اور دفتر لوڈشیڈنگ کا عذاب‘ قوم کے شانہ بشانہ سہتا ہے۔ اگر پورے شہر کے لیے ایک گرڈ ہے اور صرف ایوان اقتدار کے لیے پورا گرڈ الگ کام کر رہا ہے تو یہ کون سی اقدار ہیں؟ یہ تو خودغرضی ہے اور عوام سے کنارہ کشی، یہ بادشاہی ہے! جمہوری لیڈر دکھ میں عوام کا ساتھ دیتے ہیں اور سُکھ اُس وقت پاتے ہیں جب عوام سُکھی ہوں! آپ اور آپ کے بھائی صاحب علاج کرانے کے لیے اور ٹیسٹ کرانے کے لیے لاتعداد بار ولایت جا چکے ہیں۔ کسی ایک ملکی ہسپتال میں بھی مریض بن کر تشریف لے جاتے! کسی عام ریستوران میں کبھی کھانا کھا لیتے۔ کبھی رُوٹ لگوائے بغیر‘ بیسیوں گراں بہا گاڑیوں کے کارواں بغیر سفر ہی کر لیتے! کبھی کچھ مسلسل اجلاس پارلیمنٹ ہی کے اٹنڈ فرما لیتے! اس ملک میں کتنے اضلاع اور کتنے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہیں؟ وزیراعظم نے کتنوں میں قدم رنجہ فرمایا ہے؟
نہیں! جناب وزیراعظم! نہیں! آپ نے اقدار کی سیاست نہیں کی! اُس خدا کی قسم جس نے عقل، عزت اور علم کی تقسیم اپنے ہاتھ میں رکھی اور عام شہری کو تمیز بخشی ہے کہ سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ سمجھے اور کہے‘ آپ کی سیاست اقتدار کی سیاست ہے! آپ ایک الگ دنیا میں رہتے ہیں جس کا عوام کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں! آپ کی سیاست کا موازنہ آصف علی زرداری کی سیاست سے تو ہو سکتا ہے‘ قائداعظمؒ کی سیاست سے نہیں ہو سکتا!