بہت جی خوش ہوا اے ہم نشیں! کل جوش سے مل کر

ساتویں یا آٹھویں کلاس کا زمانہ تھا۔ 1960ء یا 61ء کا! ایک شام تھی ملگجی سی‘ جیسی قصبوں میں ہوتی ہے! گورنمنٹ ہائی سکول پنڈی گھیب کے بورڈنگ ہائوس میں دو تین اساتذہ کیرم بورڈ کھیل رہے تھے۔ ان سے ذرا فاصلے پر ایک رنگین رسالہ پڑا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب طالب علم اساتذہ کا ادب تو کرتے ہی تھے‘ ان سے ڈرتے بھی بہت تھے۔ کتابی کیڑے کو چین نہیں آ رہا تھا۔ حوصلہ کڑا کیا اور پاس سے گزرتے ہوئے رسالے کا نام دیکھ لیا! اردو ڈائجسٹ! یہ اردو ڈائجسٹ سے اوّلین تعارف تھا۔ اس کے بعد یہ رسالہ ہمارے گھر کے ساز و سامان (Household) کا حصہ بن گیا۔ والدہ محترمہ جب تک حیات رہیں‘ ہر تازہ پرچہ ان کے سرہانے رہتا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب اس لکھنے والی کی شاعری اس میں شائع ہونے لگی۔ پھر مضامین بھی! کچھ عرصہ پرچہ اعزازی بھی موصول ہوتا رہا۔
اردو ڈائجسٹ نے جو نئی راہ نکالی‘ بعد میں اس کی خوب خوب تقلید ہوئی‘ یہاں تک کہ ڈائجسٹوں کے ڈھیر لگ گئے۔ یہ بزنس بن گیا اور کاروباری حضرات کے ہاتھ گویا سونے کی مرغی لگ گئی۔ مگر ؎
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
مولوی مدن کی سی بات کسی کو نصیب نہ ہوئی۔ اس عرصہ میں ایک شائع شدہ مضمون کے حوالے سے تھوڑی سی بدمزگی بھی ہوئی مگر اس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔ 
ذاتی حوالے سے الطاف حسن قریشی صاحب میں جو خوش اخلاقی اور انکسار پایا جاتا ہے‘ اس کی مثال کم ہی ہو گی۔ شہرت کے باوجود ہر کہ و مہ سے اس طرح ملنا‘ گویا پرانی واقفیت ہو‘ ان دنوں بہت کم پایا جاتا ہے۔ پھر سیاسی یا صحافتی اختلافات کے باوجود ذاتی تعلقات پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ یہ یقیناً ان کی بڑائی ہے!
اردو ڈائجسٹ کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس ماہنامے نے اردو ادب کی خدمت بھی کی اور ٹھوس بنیادوں پر کی۔ باقی صدیقی کی شاعری کی معرکہ آرا کتاب ''بارِ سفر‘‘ اردو ڈائجسٹ ہی نے شائع کی‘ ورنہ اس فقیر شاعر کو لوگ بھول جاتے۔ اب نہیں مگر گئے دنوں میں اردو ڈائجسٹ میں اعلیٰ معیار کی شاعری چھپتی تھی اور طباعت کی خوبصورتی کی وجہ سے ذہن پر مرتسم ہو جاتی تھی۔ کچھ اشعار بچپن سے اب تک حافظے پر نقش ہیں: ؎
مری خاک یوں گلستان میں اُڑی
کہیں چار تنکے‘ کہیں چار پر
زمانہ ہوا تجھ کو دیکھے ہوئے
کبھی خواب کی سیڑھیوں سے اتر
نیا ابر اٹھا‘ لرزنے لگے‘
پرانے مکانوں کے دیوار و در
شفقت کرتے ہوئے الطاف صاحب نے اپنی تازہ ترین تصنیف ''ملاقاتیں کیا کیا‘‘ ارسال فرمائی۔ یہ قومی اور بین الاقوامی مشاہیر سے لیے گئے ان انٹرویز کا مجموعہ ہے جو گزشتہ چالیس پچاس برسوں کے دوران اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوئے۔
الطاف صاحب کے حوصلے کی اور انصاف پسندی کی داد دینا پڑتی ہے کہ اس کتاب میں انہوں نے پروفیسر ڈاکٹر سید جعفر احمد کا لکھا ہوا دیباچہ شامل کیا ہے‘ جس میں پروفیسر صاحب نے (اگرچہ مہذب پیرائے میں مگر) کُھل کر الطاف صاحب پر تنقید کی ہے۔ الطاف صاحب چاہتے تو یہ نہ شامل کرتے اس لیے کہ تعریفوں کے پل باندھنے والوں اور ''تقریظ‘‘ لکھنے والوں کی یہاں کمی نہیں مگر الطاف صاحب اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس میں رواداری تھی اور قوت برداشت کے ساتھ وضعداری بھی! ؎
بہت جی خوش ہوا اے ہم نشیں کل جوش سے مل کر
ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں
ڈاکٹر سید جعفر احمد لکھتے ہیں:
''کم ازکم تین موضوعات ایسے ہیں جن کے حوالے سے الطاف صاحب کی تحریریں بڑی حد تک یک طرفہ اور معروضیت سے دور نظر آتی ہیں۔ مشرقی پاکستان میں صوبائی حقوق کی تحریک کو جو بالآخر علیحدگی پسندی کی تحریک بنی‘ الطاف صاحب نے اپنا موضوعِ تحقیق بنایا۔ ان کا سلسلہ مضامین ''محبت کا زم زم بہہ رہا ہے‘‘ بہت ذوق و شوق کے ساتھ پڑھا گیا۔ اس سلسلہ مضامین کے اندر اور پھر 1970ء کے الیکشن کا احاطہ کرتے وقت نیز مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے بعد الطاف صاحب کے سارے تجزیے کا بنیادی نقطہ خود مختاری کی اس تحریک کو ہندوئوں کی سازش کے طور پر بیان کرنا تھا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کے ہندو ہندوستان کی پشت پناہی سے صوبے کو الگ کرنا چاہتے تھے۔ عوامی لیگ ان کی پیروکار تھی۔ فوجی آپریشن انہی ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کرنے کے لیے کیا گیا‘ اور بالآخر ہندوستان کی سازش کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ کا واقعہ پیش آیا۔ ظاہر ہے کہ تاریخ کے حقائق اس بیانیے کو ہُوبہو تسلیم کرنے میں متامل ہیں۔ یہ ایک پوری قوم کے ذوق خود مختاری کا گویا مذاق اڑانے کے مترادف تھا۔ ہم یہ کس طرح سوچ سکتے ہیں کہ ایک پوری قوم دوسروں کو بہکانے سے اپنی زندگی کا راستہ تنگ کر سکتی ہے؟‘‘
دوسرا موضوع جس میں پروفیسر صاحب الطاف صاحب کو غیر جانبدار تسلیم نہیں کرتے‘ بھٹو صاحب کا قصہ ہے۔ ان کے بقول الطاف صاحب نے ''ضیاء الحق کے ساتھ ارتباطِ فکر و نظر کا ایک ایسا مستحکم رشتہ قائم کر لیا جو پاکستان میں پائدار جمہوریت کے قیام کی جدوجہد میںکسی طرح معاون نہیں ہو سکتا تھا۔ بھٹو صاحب پر چلنے والے مقدمے میں قانون اور انصاف کی جس طرح دھجیاں بکھیری گئیں‘ اور انصاف کا قتل ہوا‘ وہ بھی الطاف صاحب کی نظر سے اوجھل رہا‘‘
تیسرا مسئلہ دیباچہ نگار کی نظر میں الطاف صاحب کی جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت کے بارے میں رائے ہے۔ افغان پالیسی کی پُرزور حمایت‘ ضیاء الحق کے شخصی اوصاف کی زبردست تشہیر اور مارشل لاء آمر کے حق میں ہم نوائی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش_ ''یہ سب الطاف صاحب کے زمرۂ کارکردگی میں شامل نہ ہوتا تو کتنا اچھا تھا!‘‘
کتاب میں شامل 23 شخصیات کے انٹرویوز میں سے جنرل ضیاء الحق سے کیا گیا انٹرویو اس کالم نگار کے لیے سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث بنا ہے۔ شاید اس لیے کہ جنرل ضیاء الحق کا عہد ایک سنگِ میل تھا۔ اس کے بعد ہماری منزل تبدیل ہو گئی۔ ہمارا اسلوبِ سفر بدل گیا۔ ہمارے ملک کا FLORA AND FAUNA غرض سب کچ تغیر کی زد میں آ گیا۔ ایک غیر ملکی قوم کے افراد ہمارے ملک کے اندر دندنانے لگے۔ بزنس سے لے کر جائیداد تک اور مزدوری سے لے کر ٹرانسپورٹ تک ہر شے میں ان کا حصہ الگ ہو گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور کے بعد اس ملک میں مذہبی عدم برداشت عروج پر پہنچی۔ کلاشنکوف کلچر اور منشیات عام ہوئیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بائونڈری کی لکیر‘ جو پہلے ہی زیادہ موثر نہیں تھی‘ بالکل ہی مٹ گئی۔ یہاں تک کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے سربراہ اپنے مضامین میں فخر سے بتانے لگے کہ فلاں غیر ملکی لیڈر کو ''ہم‘‘ نے فلاں جگہ چھپائے رکھا‘ اور اتنے جنگجو فلاں جگہ بھیجے گئے۔
جنرل ضیاء الحق کے اس انٹرویو کا تجزیہ صاف بتاتا ہے کہ جنرل صاحب کا ارادہ انتخابات کرا کر چلے جانے کا شروع ہی سے نہیں تھا! کیسے؟ یہ ہم کل بتائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں