فساد

2016ء کے بارے میں جب زائچہ بنانے والوں نے پیش گوئی کی تھی کہ مبارک ثابت ہو گا تو کسی کو یقین ہی نہیں آیا تھا۔ بس‘سب فکر کرتے تھے‘ سوچتے تھے اور گنگناتے تھے ؎
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اِک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
لیکن یہ سال مبارک ثابت ہوا مشکلیں حل ہونا شروع ہوئیں۔ دلدّر چھٹنے لگے۔ خیر کے ابر پارے فضائوں میں تیرنے لگے۔ خنک ہوائوں نے حواس کو مست کرنا شروع کر دیا۔
پہلی خوش قسمتی جو طلوع ہوئی وہ قندیل بلوچ کا کیفر کردار کو پہنچنا تھا۔ قندیل بلوچ کی وجہ سے معاشرہ تباہ ہو رہا تھا۔ ہر طرف برائی پھیل رہی تھی وہ ملک میں فحاشی کا ایک بہت بڑا منبع تھی۔ مفتی صاحب نے خالص رضائے الٰہی کی خاطر اسے تبلیغ کی۔اپنی برکتوں والی ٹوپی سر سے اتار کر اس کے سر پر رکھی۔ اثنائے تبلیغ‘حضرت کو کچھ سیلفیاں بنانی یا بنوانی پڑیں۔ چاہتے نہیں تھے مگر حق کے راستے میں تلخ گھونٹ پینے پڑتے ہیں۔ افسوس! محنت اکارت گئی تبلیغ کا اثر نہ ہوا۔ لڑکی نے پگڑی باندھی نہ ٹوپی کو مستقل طور پر اپنایا۔
اب معاشرہ پریشان تھا کہ اس منحوس سے جان کیسے چھوٹے۔ بس یہ وہ موقع تھا جب نئے سال کی‘ جو وسط تک پہنچ چکا تھا‘ پہلی خوش بختی ظاہر ہوئی۔ غیب کے پردے سے قندیل بلوچ کا بھائی‘ قوم کے لیے نجات دہندہ بن کر اٹھا۔ اس کار خیر کو نمٹاتے وقت‘ ایک لمحہ کے لیے بھی اس مرد مجاہد کے ذہن میں یہ بات نہ آئی کہ قندیل بلوچ اس کی کفالت کرتی تھی اور ماں باپ کے اخراجات بھی ادا کر رہی تھی۔ یہ چھوٹے موٹے پہلو بھلانے ہی پڑتے ہیں۔ بہر طور بھائی نے بہن کو قتل کر دیا۔ یوں برائی سے معاشرے کی جان چھوٹی۔ اب ادھر ادھر نظر دوڑا کر دیکھیے۔ہر طرف خیر ہی خیر ہے۔ اس منزل کو سر کر کے مفتی صاحب تبلیغ کے نئے‘ان چھوئے مواقع کو نکل جائیں گے انہوں نے قوم کو متنبہ کر دیا ہے کہ قندیل بلوچ کا انجام دیکھ کر‘ علما کی گستاخی کرنے والوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے‘
قندیل بلوچ سے قوم کوجو چھٹکارا ملا ہے یہ خیر کا پہلانشان ہے آخری نہیں۔ اُٹھو‘ قوم کے مجاہدو! غیرت مند بھائیو! جن بہنوں سے غیرت مندی کے باوجود اپنی کفالت کروا رہے ہو‘ انہیں قتل کر دو! غیرت کا یہی تقاضا ہے! جس قوم کے سپوت اتنے غیرت مند ہوں گے‘ وہ قوم خود کتنی غیرت مند ہو گی! رہے ان قندیل بلوچوں کے ساتھ سیلفیاں کھنچوانے والے دیندار حضرات‘ جن کی سیلفیوں کی وجہ سے لڑکی مشہور ہوئی۔ تو انہیں کچھ نہ کہا جائے ۔ یہ بھی غیرت کا ایک مظہر ہے۔
دوسری خوش بختی جو افق سے پھوٹی اور قوم کے اوپر چھا گئی‘ وہ ایدھی سے نجات تھی! کیا ہی اچھا ہوا کہ اس ملحد اور زندیق سے چھٹکارا ملا۔ اسب سے بڑا جرم اس ملحد اور زندیق کا یہ تھا کہ کوڑے کے ڈھیروں پر پھینکے گئے آدم کے بچوں کو موت کے دہانے سے نکالتا تھا اور پرورش کرتا تھا لوگوں سے صدقات خیرات وصول کرتا تھا حالانکہ صدقات اور خیرات کے اصل مستحقین کچھ اور لوگ تھے۔
ملحد اور زندیق؟ جی ہاں! ہمارے پاس ثبوت ہے‘ ٹھوس ثبوت! شہادت ہے، ناقابلِ تردید شہادت! ایک قابل ِ احترام عالم دین نے کہ مفتی بھی ہیں‘ فیصلہ سنایا کہ وہ ملحد اور زندیق ہے اور حرامی بچوں کی پرورش کرتا ہے۔ اس فیصلے پر پورے ملک کے علماء کرام نے صاد کیا۔ ثبوت اس اجماع کا یہ ہے کہ اگر فیصلہ غلط ہوتا تو علماء کرام ہرگز‘ ہرگز خاموش نہ رہتے۔ خدا کا شکر ہے ہمارے علمائ‘ ایک تنکے کے برابر بھی برائی دیکھیں تو نشان دہی کرتے ہیں نہ صرف نشان دہی‘ بلکہ پورے زورو شور‘ قوت اور یکجہتی کے ساتھ‘ بیک آواز‘ بہ آواز بلند احتجاج کرتے ہیں۔ یہی مثال لے لیجیے کہ جب ملک کے وزیر اعظم نے کراچی میں ایک دوسرے مذہب کی برادری کی تقریب میں شرکت کی تو ہمارے علماء کرام نے بروقت اس برائی کی مذمت کی اخبارات میںمضامین لکھے۔ خطبات میں اس کی مذمت کی! اسی طرح جب وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید نے مدارس کے بارے میں غلط بات کہی تو علماء نے پرویز رشید کا ناطقہ بند کر دیا۔ اسی طرح عید کے چاند کا اعلان ذرا علماء سے بالابالا کر کے دیکھیے‘ طوفان برپا ہوگا اوراعلان کو باطل ثابت کر دیا جائے گا۔ حالانکہ چاند کا نظر آنا‘ یا نہ آنا‘ خالص سائنسی مسئلہ ہے۔ جس طرح نمازوں کے اوقات کا تعین‘ اور سحری اور افطار کے اوقات کسی مدرسے میں نہیں‘ بلکہ فلکیات کے مراکز میں طے ہوتے ہیں‘ اسی طرح چاند کا نظرآنے یا نہ آنے کا ڈاکٹروں‘ وکیلوں‘ ججوں‘جرنیلوں‘ وزیروں اور علماء سے کیا تعلق! یوں بھی دو دن پیشتر دارالحکومت کی ایک تقریب میں وفاقی وزیر‘بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا ہے کہ مدارس میں پڑھائی جانے والی علم نجوم کی کتاب اڑھائی ہزار سال پرانی ہے۔
اہم مسائل پر علماء کرام کا مثالی اتحاد‘ بجائے خود‘ قوم کے لیے خوش بختی ہے، سوشل میڈیا پر کروڑوں لوگ قبلہ مفتی صاحب کا یہ فرمان مسلسل سُن رہے ہیں کہ ناجائز بچوں کو بچانا اور ان کی پرورش کرنا ایدھی کا بہت بڑا جرم تھا چونکہ کسی ایک عالم دین نے بھی اس کی تردید نہیں کی۔ اس لیے عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ایسے بچوں کو زندہ رہنے کا اسلام کی رو سے کوئی حق نہیں! اب اگر مفتی صاحب یا کوئی اور عالم یہ رہنمائی بھی فرما دیں کہ ان بچوں کو کیسے ختم کیا جائے تو قوم شکر گزار ہو گی۔ ان بچوں کو تلوار سے ختم کیا جائے؟ یا پائوں تلے روندا جائے یا زہر کے ٹیکے لگائے جائیں یا سانس روک کر قتل کیا جائے؟ آخر ایدھی سے علماء کرام کو ذاتی دشمنی تونہیں تھی ۔ یہ تو دین کا سوال تھا۔ اگر ایدھی ان بچوں کی پرورش کر کے برائی کا مرتکب ہو رہا تھا تو پھر ظاہر ہے کوئی بھی یہ کام کرے گا تو برائی ہی کا مرتکب ہو گا!
اوپر بیرسٹر ظفر اللہ صاحب کا ذکر آیا ہے ان کا قصّہ یہ ہے کہ ذہین اور فطین شخص ہیں۔ مدرسہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ یونیورسٹی میں پڑھایا اور مقابلے کے امتحان میں بیٹھے تو ڈی ایم جی میں آ گئے۔ تحصیلوں اور ضلعوں کے حاکم رہے پھر قانون کی طرف آئے تو لندن سے بیرسٹری کر لائے کتاب لکھی جس میں مدارس میں پڑھائی جانے والی ساری کتابوں کے بارے میں بتایا کہ کتنے سو سال پرانی ہیں۔ بیرسٹر صاحب مدارس کے نصاب کی تدوین نو کے لیے بہترین سکالرز میں سے ایک ہیں مگر علمی اور تحقیقی میدان چھوڑ کر وہ اقتدار کی روشوں میں گم ہو گئے اور اس کابینہ میں بیٹھتے ہیں جہاں شاید علمی اعتبار سے کوئی بھی ان کے برابر کا نہیں! دو دن پیشتر والی تقریب میں انہوں نے الفاظ کو چبائے بغیر‘ جس بات کو حق سمجھتے ہیں‘ برملا کہی۔ انہوں نے کہا کہ ''مذہبی مفکرین کی سوچ اتنی قدیم ہو چکی ہے کہ وہ جدید عہد سے مطابقت نہیں کھاتی جس کی وجہ سے فساد پھیل رہا ہے جدید عہد کے مسائل سے نمٹنے کے لیے جب ان کے پاس دلیل نہیں ہوتی تو وہ تشدد پر اتر آتے ہیں‘‘ انہوں نے کہا کہ ''مدارس میں قرآن پڑھایا ہی نہیں جاتا۔اسی طرح مدارس میں پڑھائی جانے والی علم نجوم کی کتاب اڑھائی ہزار سال پرانی ہے۔ مدارس ابھی تک ارسطو کے فلسفے سے بھی باہر نہیں نکلے، مدارس کے نصاب اور جدید علوم میں ایک ہزار سال کا فرق ہے۔ جب تک یہ فرق دور نہیں ہوتا‘ یہاں سے فساد ختم نہیں ہو سکتا۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں