بیرم خان نے مغل خانوادے کی تین نسلوں تک چاکری کی!
وہ بدخشاں میں پید ہوا۔ بدخشاں کے لعل مشہور تھے، جیسے یمن کے عقیق! یہ وہ زمانہ تھا جب لعل فخر سے بادشاہوں کے تاج میں سجتے تھے اور گلے کی مالا کا حصہ بنتے تھے۔ یہی حال پھولوں کا تھا! پھول کسی کے سر پر سجنا اپنے لیے باعثِ افتخار گردانتے تھے۔ اسی لیے تو مومن نے کہا تھا ؎
بے بخت رنگِ خوبی کس کام کا کہ میں تو
تھا گُل، ولے کسی کی دستار تک نہ پہنچا
اقبال نے آ کر بتایا کہ کسی کی دستار پر لگ کر اونچا ہونا، عزت کی نہیں، محکومی کی نشانی ہے ؎
نہیں یہ شانِ خوداری چمن سے توڑ کر تجھ کو
کوئی دستار میں رکھ لے کوئی زیبِ گلو کر لے
بیرم خان نے بابر کی نوکری شروع کی تو سولہ سال کا تھا۔ ہمایوں کے سارے عرصۂ اقتدار میں اور عرصۂ مہاجرت میں وہ اس کا ساتھی رہا۔ ہمایوں ایران گیا تو بیرم خان ساتھ تھا۔ شیر شاہ سوری کے خاندان کے ساتھ جنگ ہو رہی تھی کہ ہمایوں دنیا کو چھوڑ گیا۔ بیرم خان نے تیرہ سالہ اکبر کو تخت پر بٹھایا اور پھر جان و دل سے مغل سلطنت کے استحکام میں لگ گیا۔ پانی پت کی دوسری لڑائی میں بیرم خان ہی نے ہیمو کو شکست دی ورنہ مغل سلطنت کو تاریخ میں صرف دو سطریں ملتیں! اُس نے جنگیں لڑیں۔ انتظامِ سلطنت سنبھالا، دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کیا۔ زندگی کا ہر لمحہ آقا کی خدمت میں گزارا۔ یہاں تک کہ اکبر جوان ہو گیا، حاسدوں کی کمی نہ تھی۔ نا تجربہ کار بادشاہ کے کان بھرے گئے۔ پھر وہ دن بھی آیا جب اکبر نے بیرم خان کو یوں باہر پھینکا جس طرح دودھ سے مکھی نکال کر پھینکی جاتی ہے۔
بیرم خان کا انجام کیا ہوا، یہ آج کا موضوع نہیں! مگر غور اس بات پر کرنا چاہیے کہ کتنے ہی مواقع آئے جب بیرم خان سلطنت پر قبضہ کر سکتا تھا، خود کو بادشاہ قرار دے سکتا تھا۔ یوں اقتدار، ایک خاندانے سے دوسرے میں منتقل ہو جاتا۔ مغلوں سے پہلے سلاطین دہلی کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی تھی۔ مگر چاکری بیرم خان کے خون میں شامل تھی! وفاداری اس کی فطرتِ ثانیہ بن چکی تھی۔ اس کے باپ نے اور اس کے باپ کے باپ نے بابر بادشاہ کی نوکری کی تھی! وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ نوکری کے حصار سے باہر نکل آئے۔ اس کی ڈیوٹی تھی کہ وہ شہزادے کی حفاظت کرے۔ شہزادے کی تربیت کرے۔ یہاں تک کہ شہزادہ اس قابل ہو جائے کہ ''پورا‘‘ بادشاہ بن جائے۔ پھر بیرم خان اُس کے دربار میں یوں دست بستہ کھڑا ہو جیسے ہمایوں کے دربار میں اور اس سے پہلے بابر کے دربار میں دستہ بستہ کھڑا ہوتا تھا! بالکل اس طرح جیسے بیرم خان کاباپ اور دادا بابر کے دربار میں کھڑے رہتے تھے۔
سوشل میڈیا پر ایک تصویر ان دنوں گردش کر رہی ہے اور کیا خوب گردش کر رہی ہے! بلاول بھٹو زرداری میاں محمد نواز شریف وزیراعظم پاکستان سے ہاتھ ملا رہے ہیں! بلاول کے پیچھے پیپلز پارٹی کے معمر، تجربہ کار، سرد وگرم چشیدہ رہنما کھڑے ہیں۔ سب کے چہروں پر ایک ایسا اطمینان جھلک رہا ہے جس میں تفاخر کا رنگ شامل ہے!
یہ کون ہیں! یہ سب بیرم خان ہیں! شہزادہ بلاول کون ہے؟ یہ شہزادہ اکبر ہے! ان بیرم خانوں نے نسل در نسل اس خاندان کی چاکری کی ہے۔ پہلے یہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تھے۔ پھر انہیں ان کی دختر نیک اختر بے نظیر بھٹو کے دربار میں کرسیاں اور مسندیں اور خلعتیں اور وزارتیں ملیں! پھر انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے داماد کو بادشاہ بنایا اور اب بھٹو صاحب کے نواسے، زرداری صاحب اور محترم بے نظیربھٹو کے صاحبزادے کے ساتھ ہیں۔ یہ سب، بشمول خواتین، شہزادے کی تربیت کر رہے ہیں۔ یہ اس خاندان کی خاطر پانی پت کی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ ایسا کرتے رہیں گے یہاں تک کہ شہزادہ جوان ہو جائے گا۔ پھر وہ مکمل بادشاہ بنے گا اور یہ معزز حضرات اس کے دربار میں اسی طرح خلعتیں اور وزارتیں اور مسندیں پائیں گے جیسے بادشاہ کے نانا کے دربار میں اور بادشاہ کی والدہ محترمہ کے دریار میں اور بادشاہ کے والد گرامی کے دربار میں پاتے تھے۔
کیا کمی تھی بیرم خان میں اگر وہ بادشاہ بن جاتا؟ مگر یہ اس کی سوچ کے دائرے سے باہر تھا۔ ان مصاحبین کا تو یہ حال تھا کہ بادشاہ کسی نالائق ماتحت کو یا کسی نا اہل رشتہ دار کو بنگال یا دکن یا پنجاب جیسے اہم صوبے کا گورنر لگاتا تھا تو آمنّا و صدّقنا کہہ کر، خود اُسی تنخواہ پر کام کرنا جاری رکھتے تھے جو وصول کر رہے تھے! آپ اندازہ لگائیے، جناب یوسف رضا گیلانی کا اور جناب راجہ پرویز اشرف کا قابلیت میں اور تعلیم میں اور گفتگو کے فن میں اور بہت سی دوسری خصوصیات میں میاں رضا ربانی سے اور بیرسٹر اعتزاز احسن سے اور قمر زمان کائرہ سے کیا مقابلہ تھا؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا دامن دوسروں کی نسبت صاف ہے۔ فرشتے تو یہ بھی نہیں، ہم میں سے کوئی بھی فرشتہ نہیں، مگر ان حضرات کی شہرت اچھی ہے۔ لیکن بادشاہ نے گیلانی صاحب کو اور راجہ صاحب کو وزارتِ عظمیٰ پر بٹھایا تو ان سب نے آمنّا و صدّقنا کہا۔ کون سا سکینڈل ہے جو ان وزرائے اعظم کے زمانوں میں پیپلز پارٹی کے چہرے پر سیاہی مل کر نہیں گزرا مگر ان میں سے کسی نے اُف تک نہ کی! اس لیے کہ بادشاہ کے کسی فیصلے کو چیلنج کرنے کا کوئی تصور نہیں!
اگر پیپلز پارٹی ایک نظریاتی جماعت ہے اور اگر پیپلز پارٹی ایک خاندانی جماعت نہیں تو رضا ربانی یا کائرہ صاحب یا اعتزاز احسن یا کھوڑو، شیری رحمن یا کوئی اور اس جماعت کا سربراہ کیوں نہیں بن سکتا؟ آخر یہ سب لوگ شہزادے کے بڑے ہونے کا انتظار کیوں کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں؟ رضا ربانی ایوان سے باہر اور ایوان کے اندر آئین کی سربلندی کے لیے آواز اُٹھانے میں مشہور ہیں۔ وہ صوبوں کے اختیارات کے معاملے میں ہمہ وقت چوکس رہتے ہیں۔ وہ جمہوریت کے سپاہی ہیں اور آمریت کے شدید ناقد! مگر وہ پارٹی کے معاملے میں مہر بہ لب ہیں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ پارٹی پر ایک خاندان کی وراثت کا مسئلہ اُٹھائیں اس لیے کہ بغاوت کرنے سے وفاداری شک میں پڑتی ہے اور جو کچھ مل رہا ہے، وہ بھی کھٹائی میں پڑنے کا امکان ہوتا ہے ؎
اُٹھاتے کس طرح پلکوں کی لمبائی کا جھگڑا
بہت مشکل سے آنکھیں اور بینائی ملی تھی!
اور صرف پیپلز پارٹی کا کیا ذکر! یہ پشتینی وفادار، یہ بیرم خان ہر پارٹی میں شہزادوں کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں! فرق صرف یہ ہے کہ پیپلز پارٹی میں خاندانی بادشاہت کی تیسری چوتھی پیڑھی جوان ہو چکی ہے جبکہ دیگر جماعتوں میں ابھی پہلی اور کچھ میں صرف دوسری نسل تک معاملہ پہنچا ہے۔ ورنہ بیرم خان ہر جگہ موجود ہیں اور ہر شہزادے کو جوان کر کے تخت پر بٹھانے کا عزمِ صمیم کیے ہیں۔ رائے ونڈ سے لے کر گجرات تک! ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر پشاور تک ہر جگہ بیرم خان دست بستہ کھڑے ہیں، اپنی اپنی ڈیوٹی پر چوکس!