یہ ایک وسیع و عریض علاقہ تھا اور قبیلے کا سردار اس علاقے کا بلاشرکت غیرے حکمران تھا۔ اس حکمرانی کی سب سے بڑی خاصیت یہ تھی کہ رعایا کو یا سردار کے ماتحتوں میں سے کسی کو مسئلہ درپیش ہوتا تو اُسے یہ نہ معلوم ہو پاتا کہ کس کے پاس جانا ہے۔ بس کسی نہ کسی طرح سردار تک رسائی حاصل کرنا ہوتی۔ سردار مسئلہ سنتا اور کسی کو حکم دیتا کہ مسئلہ حل کرے۔ وہ کسی کو بھی یہ حکم دے سکتا تھا۔ عام طور پر جو بھی اُس وقت پاس ہوتا‘ اسے ہی یہ ذمہ داری سونپ دیتا۔ وہ شخص‘ جو کام پہلے سے کر رہا ہوتا‘ اسے چھوڑ دیتا‘ نئے سائل کو پکڑ کر دربار سے نکلتا اور اپنی دانست میں مسئلہ حل کرتا۔ حل کرتا یا خراب تر کرتا‘ یہ اُس کی ذہانت پر اور سائل کے بخت پر منحصر ہوتا۔
اردگرد کے علاقوں پر جو نواب حکمران تھے‘ ان میں سے بعض کے ساتھ تعلقات خوشگوار تھے اور اکثر کے ساتھ کشیدہ۔ ایک صبح شمالی سرحد کے پار حکمرانی کرنے والے نواب کا پیغام آیا کہ وہ ملاقات کے لیے اپنے عمائدین کے ہمراہ آنا چاہتا ہے۔ اُس وقت سردار کا منجھلا بیٹا اُس کے ساتھ بیٹھا گوسفند کے گوشت اور اونٹنی کے دودھ کے ساتھ ناشتہ کر رہا تھا۔ سردار نے نواب کے استقبال کی ذمہ داری اُسے ہی سونپ دی۔ عشائیے میں سردار نے جو تقریر کرنا تھی‘ وہ بھی منجھلے بیٹے ہی نے لکھنی یا لکھوانی تھی۔چھ ماہ بعد جنوبی سرحد پر جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ سردار نے اپنے بھتیجے کو طلب کیا‘ یہ ایک پچیس سالہ اتھرا نوجوان تھا۔ اسے مذاکرات کے لیے بھیج دیا۔
سردار کی بیگم نے خریداری کے لیے بڑے شہر میں جانا تھا۔ اس کے سفر کی تیاری اور پروٹوکول کے لیے ایک خدمت گار کو مامور کیا جو اصل میں حقہ بھرنے کا ماہر تھا۔ کچھ دنوں بعد سردار کی بڑی بہن نے اُسی شہر کا دورہ اور شاپنگ کرنا تھی۔ اب کے پروٹوکول کی ڈیوٹی سر پر مالش کرنے والے نائی کی لگی۔ وہ بہت تیز تھا اور اپنے آپ کو ہیئر ڈریسر کہلواتا تھا۔ اس نے اپنے دل کے نہاں خانے میں نصب العین یہ رکھا کہ سردار کی بہن کا دورہ‘ سردار کی بیگم کے دورے سے زیادہ کامیاب اور ہنگامہ خیز ہو۔ خریداری کاوقت آیا تو اس نے کاریگروں اور اچھی شہرت رکھنے والے ملبوسات سازوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کیا۔ واپسی پر حرم سرا میں سرد جنگ شروع ہو گئی۔ سردار کی بہن نے خریداری کی بھرپور نمائش کی۔ اس کے مقابلے میں بیگم صاحبہ کی خریداری ماند پڑ گئی۔ کشمکش حرم سے نکل کر دربار میں پہنچی اور پھر پورا قبیلہ اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ بیگم کا تعلق قبیلے کی جس شاخ سے تھا وہ سردار سے ناراض ہو گئی۔ یوں سازش کی بنیاد پڑی۔
علاقے کے جنوب میں شاہراہ کی تعمیر اُس درباری کے سپرد کر دی گئی جس کی ڈیوٹی ہسپتالوں کی تعمیر تھی۔ قبیلے کے صدر مقام میں ریل کی پٹڑی بچھانے کا وقت آیا تو سردار نے سوتیلے بھائی کو اس کا انچارج لگا دیا۔ دوسرے علاقوں کے گورنر بھائی کے مخالف ہو گئے۔ ان کے پروپیگنڈے کی بنیادی دلیل یہ تھی کہ صدر مقام پر سارے علاقوں کا حق ہے۔ اسے اپنے بھائی کے سپرد کرنا ناانصافی اور برادر نوازی ہے۔
کچھ نوجوان جو بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آئے تھے‘ اس صورتحال کے انجام سے لرزہ براندام تھے۔ انہوں نے باہر رہ کر دیکھا اور پڑھا تھا کہ نظام علاقے کا ہو یا پورے ملک کا‘ یارا جواڑے کا یا جاگیر کا‘ تقسیم کار کے بغیر نہیں چلتا۔ ہر شعبے کے ماہرین الگ ہوتے ہیں‘ ان نوجوانوں نے کوشش کی کہ کوئی سسٹم‘ کوئی نظام‘ کوئی قاعدہ کوئی رولز آف بزنس بنیں اور سردار اس کے مطابق سرداری کرے مگر کامیاب نہ ہوئے۔ سردار ان کی بات ضرور سنتا‘ وعدہ کرتا۔ شکریہ ادا کرتا‘ حوصلہ افزائی بھی کرتا مگر دوسرے دن وہی افراتفری ازسر نو شروع ہو جاتی۔ ایک ایک شعبے کو کئی کئی افراد سنبھالنے لگتے۔ پھر غلط فہمیاں دور دور تک مار کرنے لگیں۔ سردار کو علم ہی نہ ہوا اور خبریں پھیلانے والے متعدد ادارے اور افراد ایک ایک خبر کو کئی رنگ دے کر گردش کرانے لگے۔ کچھ باتیں اس بدانتظامی کے طفیل لشکر کے سپہ سالار کو پہنچیں اور وہ بھی بدظن ہو گیا۔یہ ہے اصل سبب اُس ہڑبونگ کا
جو معروف انگریزی روزنامے میں ایک خبر شائع ہونے سے ایک افق سے دوسرے افق تک چھا گئی ہے یہ کوئی سازش ہے نہ کوئی منصوبہ بندی۔ جو لوگ حکومت کے ساتھ ہیں اور وزیراعظم کے اردگرد ہیں وہ کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے۔ وہ بہت ذہین ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ''دیوانہ بکار خویش‘‘ ہشیار ہے‘ یہ سب وہ گروہ اور وہ افراد ہیں جو اس حکومت کے BENEFICIARIES ہیں۔ فائدے اٹھانے والے ہیں‘ مستفید ہیں! انہیں کیا پڑی ہے کہ حکومت اور میر سپاہ کے درمیان غلط فہمی پھیلا کر اُس دریا کا رُخ موڑیں جو ان کے کھیتوں کو سیراب کر رہا ہے؟ کسی نے یہ خبر بدنیتی یا سازش کے ارادے سے نہیں لیک کی۔ اصل وجہ وہ قبائلی طرز حکومت ہے جو میاں صاحب کے خمیر میں ہے اور جس سے وہ چھٹکارا نہیں پا سکتے۔
اللہ کے بندو! غور کرو! کیا تمہیں کوئی سسٹم‘ کوئی نظام‘ کوئی قاعدہ‘ کوئی ضابطہ دکھائی دے رہا ہے۔ رولز آف بزنس جو نظم و نسق کی بنیاد ہوتے ہیں‘ پارہ پارہ کر دئیے گئے ہیں۔ تقسیم کار‘ڈویژن آف ورکس‘ کا وجود ہی نہیں۔ حکومت کا کوئی شعبہ ‘جی ہاں‘ کوئی شعبہ‘ اٹھا کر دیکھ لو۔
OVERLAPPING یعنی تداخل کا بدترین نمونہ ہیِ‘ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ایک مرد کی کئی بیویاں ہوں تو اسے پولی گیمی POLYGAMY کہتے ہیں۔ یعنی کثرت ازدواج‘ تو جو نہیں جانتے وہ یہ بھی جان لیں کہ جب بیوی ایک ہو اور اس کے شوہر ایک سے زیادہ ہوں تو اسے POLYANDRY کہتے ہیں۔ معلوم نہیں اردو میں اس کے لیے کوئی لفظ مینوفیکچر ہوا ہے یا نہیں‘ بہرطور فارسی میں اسے ''چند شوہری‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا رواج آج بھی نیپال‘ تبت اور جنوبی بھارت کے بعض قبائل میں موجود ہے۔ ہمارے یہاں حکومت اسی چند شوہری یعنی پولی اینڈری کے سسٹم پر چل رہی ہے۔ یعنی ؎
بزمِ ساقی سے اٹھا ہے کوئی یوں رات گئے
پا بدستِ دگرے‘ دست بدستِ دگرے
کسی کا ہاتھ کسی کے پائوں پر ہے اور کسی کا پائوں کسی کے ہاتھ میں! وزارت اطلاعات کو لے لیجئے۔ کچھ محکموں کے سرکاری ملازم الگ یہ کام کر رہے ہیں۔ شہزادی کا میڈیا گروپ الگ مشہور ہے۔ وزارت اطلاعات کا تنظیمی ڈھانچہ تتر بتر ہے۔ پرنسپل انفارمیشن افسر کہاں ہے۔ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ سی پیک جو وزارت کمیونی کیشن کے پاس ہونا چاہیے تھا‘ منصوبہ بندی ڈویژن کے تھیلے میں ہے۔ قطر سے گیس لانی ہے تو ایک صوبائی وزیراعلیٰ یہ کام کر رہا ہے۔ دارالحکومت میں میٹرو چلانی ہے تو دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ عضو معطل ہے اور فیصلہ سازی ایک صوبے کے پاس ہے۔ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ بیک وقت وزیر خارجہ ہے اور ہر اُس اجلاس میں دکھائی دیتا ہے جہاں باقی وزرائے اعلیٰ نہیں بلائے جاتے جبکہ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کا نمونہ بنے ہیں۔ وزارت خارجہ پر مشیر مسلط ہیں جبکہ وزیر خارجہ ایک بھی نہیں۔ ہر وفاقی وزیر ہر اُس شعبے کے بارے میں بیانات دے رہا ہے جو اُس کے دائرہ اختیار میں موجود ہی نہیں۔ یعنی پطرس بخاری کے بقول سائیکل کا ہر پرزہ بج رہا ہے سوائے گھنٹی کے۔ بے شمار اہم فیصلوں کی پارلیمنٹ کو ہوا ہی نہیں لگتی۔ کابینہ کے اجلاس کی باقاعدگی سے ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اندازہ لگائیے‘ قبائلی نظام کا کہ وزیراعظم پارلیمنٹ میں تشریف لائیں یا کابینہ کا اجلاس بلائیں تو یہ ایک باقاعدہ خبر ہوتی ہے جو شہ سرخیوں کے ساتھ چھپتی ہے۔ ابھی اپریل میں میڈیا میں بھونچال آ گیا کہ وزیراعظم نے سات ماہ کے بعد کابینہ کا اجلاس بلا لیا ہے گویا ؎
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہے آسماں جیسے
وزیر داخلہ ایوان میں خارجہ پالیسی پر بولتے ہیں۔ صوبائی وزیر قانون‘ وفاقی معاملات پر طبع آزمائی فرماتے ہیں۔ چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ ایک وفاقی وزیر بھرے اجلاس میں فریاد کرتے ہیں کہ فلاں جانب سے ان کی وزارت میں مداخلت ہو رہی ہے۔ یہ ان کی بہادری تھی ورنہ مداخلت سے کون سی وزارت بچی تھی؟ یا بچی ہے؟ ایک وزیر نے تاریخ کا شعبہ بھی سنبھال لیا ہے۔ پرسوں ہی قوم کو سبق یاد کرایا ہے کہ وزیراعظم نے قائداعظمؒ ثانی کا کردار بار بار دہرایا ہے۔ تعجب ہے کہ اصل قائداعظمؒ نے قائداعظمؒ اوّل کا کردار ایک ہی بار ادا کیا۔ یعنی پاکستان بنوایا! تاریخ کے اگلے سبق میں قائداعظم ثالث اور قائداعظم رابع پر بھی نئے باب باندھے جا سکتے ہیں۔
صوبے پر نظر ڈالیں تو یہ عہدے پُر کرنا چنداں مشکل نہیں! فاطمہ جناح ثانی بھی موجود ہیں!
یہ ایک قبائلی نظام ہے۔ بھرپور‘ پورا پورا قبائلی نظام حکومت! خبر کا لیک ہونا سازش نہیں! اللہ کے بندو! سازش کے لیے ذہانت درکار ہے! یہ تو بدانتظامی اور نااہلی کا شاخسانہ تھا۔ قبیلے کے سردار نے ایک ایک کام اتنے افراد کو سونپا ہوا ہے کہ اب اسے خود بھی معلوم نہیں ہو رہا کہ کون سی غلطی کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائے!!!