کیا آپ نے کبھی لارڈ کلائیو کی تصویر دیکھی ہے؟
کلائیو! جو اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے اٹھارہ سال بعد پیدا ہوا اور مرنے سے پہلے اورنگ زیب عالم گیر کی سلطنت میں اتنے چھید کر گیا کہ آج تک سِل نہیں پائے! بنگال کو سلطنتِ برطانیہ کے تاج میں ٹانک دیا۔ جنگیں لڑیں۔ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پیٹھ پر رہا۔ فراڈ کیے‘ دھوکے دیے‘ وعدہ خلافیاں کیں‘ مگر انگریزی راج کی بنیادیں اتنی مستحکم کر دیں کہ دو سو سال تک برطانیہ برصغیر کو چھری کانٹے کے ساتھ آرام سے بیٹھ کر کھاتا رہا!
تو کیا آپ نے کلائیو کی تصویر دیکھی ہے؟ تاریخ کی کوئی پُرانی کتاب کھنگال کر دیکھ لیجیے۔ ہوبہو وہی تصویر ہے جو آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لگارڈے کی ہے۔ لگارڈے بی بی کی تصویر دیکھی تو حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ہمارے سارے سابق آقاؤں کی روحیں حلول کرکے اِس بی بی کی شخصیت میں جمع ہو گئی ہیں۔ کیا وارن ہیسٹنگز، کیا کرزن، کیا ولزلے، لگتا ہے سب کی پڑپوتی ہے!
ضمیر جعفری نے کہا تھا؎
کلائیو کی یہ بات آئی پسند
کہ وہ مر گیا
مگر کلائیو مرا نہیں زندہ ہے! آئی ایم ایف کیا ہے؟ ایسٹ انڈیا کمپنی ہی تو ہے! نام کا فرق ہے۔ کام وہی ہے۔ اندازہ لگائیے ہماری بے شرمی کا اور بے حیائی کا، نعرے لگا رہے ہیں، بھنگڑے ڈالے جا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی سربراہ نے کہا ہے پاکستان معاشی بحران سے نکل چکا۔
تو کیا اب معیشت کے بارے میں اُس ساہوکار کی رائے معتبر سمجھی جائے گی جس سے قرضے لے کر گزارہ کیا جا رہا ہے؟ ساہوکار تو چاہتا ہے کہ ہم قرضے لیے جائیں! قرضے اُس سے لیتے رہیں گے۔ وہ کہتا رہے گا ''تمہاری معیشت بحران سے نکل آئی ہے تاہم یہ قرض مزید لو‘‘۔
اگر پاکستان کی معیشت بحران سے نکل آئی ہے تو وزیر اعظم آنسو کیوں بہا رہے تھے؟ تیس سال سے حکمران ہیں اور ملک تو کیا، صوبہ تو کیا، اپنی بغل میں واقع رائے ونڈ کا ہسپتال تک نہیں ٹھیک کر سکے۔ وزیر اعلیٰ نے برملا اعتراف کیا:
''اگر موثر نگرانی کا سسٹم موجود ہوتا تو ادویہ کی خریداری میں تاخیر نہ ہوتی‘‘۔
گویا ان سارے عشروں میں موثر نگرانی کا کوئی سسٹم نہ بنا سکے! پھر نہلے پر دہلا یہ کہ شیخ چلی کی طرح دعوے!
میں قوم کے پیسے کو ضائع نہیں ہونے دوں گا۔
میں نے ہسپتالوں کو درست کرنے کا بیڑا اُٹھا لیا ہے۔
جب تک مریضوں کو معیاری طبی سہولتیں نہیں ملیں گی تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا۔
بخدا لوگوں کو ان دعووں‘ ان بڑھکوں پر ہنستے دیکھا ہے!
کیا پورے صوبے میں‘ اور پوری مسلم لیگ نون میں‘ اور پورے خاندان میں کوئی رجلِ رشید نہیں‘ جو رمق بھر متانت سکھا دیتا اور اس قسم کے مضحکہ خیز دعووں سے روکنے کی کوشش کرتا۔ ہسپتالوں کے دوروں کا ڈرامہ عرصے سے جاری ہے۔ قصور ہسپتال میں یہ ڈرامہ دو بار ہو چکا ہے۔ دوسری بار بھی حالت اتنی ہی بُری تھی جتنی پہلی بار! مگر وزارتِ صحت رکھنی بھی اپنے پاس ہے! اَلْہَاکُمُ التَّکَاثُر! یہ بھی تکاثر ہی کی ایک قسم ہے۔ مال و دولت کی طرح جاہ و اقتدار کی حرص بھی نہیں ختم ہوتی۔
آئی ایم ایف کی سربراہ نے اگر کہا کہ پاکستان معاشی بحران سے نکل آیا ہے تو اس لیے کہا کہ مہمان آئی ہے۔ سفارتی نزاکتوں سے آگاہ ہے۔ مگر سبحان اللہ! بی بی نے کیا بھگو بھگو کر لگائی ہیں! بھارت کے گروتھ ریٹ (شرحِ نمو) کا ذکر کر کے کرارا، مصالحوں سے بھرپور تھپڑ پاکستان کے گال پر رسید کیا ہے! ہماری بے شرمی کہ اسے تعریف سمجھ کر تین تین فٹ اچھل رہے ہیں!
بی بی لگارڈے وہ سب کچھ کہہ گئی ہے جسے اہلِ اقتدار سننا پسند نہیں کرتے۔ اس نے بتایا کہ قرضہ انیس ٹریلین (کھرب) روپے سے بڑھ چکا ہے جو کل قومی پیداوار کا 65 فیصد ہے! کسی معیشت کی اس سے خراب تر حالت کیا ہو گی! ایک اور کرارا تھپڑ یہ لگایا کہ بدبختو! قرضوں پر جتنا سود ادا کر رہے ہو اس کی مقدار تمہارے سارے ترقیاتی بجٹ سے بھی زیادہ ہے!
پھر لگارڈے کہتی ہے کہ شرحِ نمو بڑھانے کے لیے نجی سرمایہ کاری ضروری ہے۔ پاکستان میں نجی سرمایہ کاری، معیشت کا صرف دس فیصد ہے! جن ملکوں میں معیشت جاندار ہے وہاں نجی سرمایہ کاری کا تناسب اٹھارہ فیصد ہے اور جگر تھام کر سنیے کہ پاکستان کی برآمدات کل ملکی پیداوار کا صرف دس فیصد ہیں‘ جبکہ یہ چالیس فیصد ہونی چاہئیں!
نجی سرمایہ کاری کیوں نہیں ہو رہی! اس کا سبب بھی خاتون بتا گئی۔ کرپشن! اس وقت لگارڈے بی بی کے بقول کرپشن کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 168 ملکوں میں 117 ہے۔ یعنی 116 ملک ایسے ہیں جہاں کرپشن پاکستان کی نسبت کم ہے! کرپشن کی وجہ سے ملک کی شہرت اس قدر داغدار ہے کہ سرمایہ کاری کرتے ہوئے لوگ ڈرتے ہیں۔ کرپشن ہے یا نہیں، کرپشن کا تاثر ضرور موجود ہے۔ یہ تاثر بھی نجی سرمایہ کاری کے لیے زہرِ قاتل ہے! پھر ترقی تعلیم میں بھی ضروری ہے۔ سکول نہ جانے والا دنیا کا ہر بارہواں بچہ پاکستان میں ہے۔ باعزت ملکوں میں قومی آمدنی کا چار فیصد تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں فقط اڑھائی فیصد!
خواتین کی شمولیت معاشی جدوجہد میں، آئی ایم ایف کے بقول‘ حد سے زیادہ غیر تسلی بخش ہے۔ 30 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے سسک رہی ہے! مجموعی طور پر اس صورتحال کا سبب اس نے گورننس کی کمزوری کو بھی قرار دیا!
یہ سب کچھ‘ جو لگارڈے نے کہا، ایک طرف رکھ دیا گیا ہے اور ایک فقرہ کہ معیشت بحران سے نکل آئی ہے، خوب خوب اُچھالا جا رہا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی مریض کے بارے میں کہا جائے کہ خطرے سے تو نکل آیا ہے‘ ہاں گردے خراب ہیں اور پھیپھڑے کمزور ہیں اور سانس کی نالی میں ورم ہے اور جگر ضعیف ہے!
اپنی ٹیم سے نجی گفتگو میں لگارڈے خوب ہنستی ہو گی۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ حکمرانوں کی سرمایہ کاری کا کثیر حصہ بیرونِ ملک ہے۔ وہ یہ بھی جانتی ہو گی کہ گورننس نام کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن‘ سی ایس ایس کا امتحان لینے والا ادارہ ہے اور اس کے چیئرمین بی اے تھرڈ ڈویژن پاس ہیں۔ یہ صرف وزیر اعظم بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے یہ تقرری کس انصاف کے تحت کی۔ جس ملک میں وزیر اعظم کی غیر حاضری میں ان کی بیٹی ملک کو چلائے، اس کی گورننس کی اصلیت سے لگارڈے بخوبی واقف ہو گی! دو کروڑ سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر جوتیاں چٹخا رہے ہیں، ورکشاپوں میں گاڑیوں کے نیچے لیٹے ہیں، ریستورانوں میں دیگیں دھو رہے ہیں۔ سکولوں میں پینے کا پانی نہیں۔ دیہات میں ہزاروں اساتذہ دن کے وقت کھیتوں میں ہل چلا رہے ہیں، دکانوں میں سودا بیچ رہے ہیں۔
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ معیشت بحران سے نکل آئی ہے۔ گویا ایسٹ انڈیا کمپنی ملک پر قبضہ کر لینے کے بعد آزادی کی مبارک دے رہی ہے۔