تعجب ہے، سٹیٹ بینک آف پاکستان پارلیمنٹ کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا اور آسمان سے پتھر نہ برسے!
ظَہَرَالْفَسَادُ فِی الْبَرِّ والْبَحْر... خرابی پھیل گئی ہے خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے نتیجے میں! اللہ کی سنت کیا ہے؟ وہ اپنے حق تو معاف کر دیتا ہے، اپنی مخلوق کے حقوق نہیں چھوڑتا! بائیس کروڑ آدم زاد حساب پوچھ رہے ہیں۔ پارلیمنٹ ان کی نمائندہ ہے۔ نظام سے اختلاف اپنی جگہ مگر جو نظام جاری وساری ہے، اس کی رُو سے پارلیمنٹ خدا اور رسول کے احکام کے بعد، با اختیار ترین ادارہ ہے۔ عوام کے دیے ہوئے ٹکڑوں پر پلنے والا سٹیٹ بینک پارلیمنٹ کی نافرمانی کی جرأت کر رہا ہے۔
یہ ہے وہ نافرمانی، یہ ہے وہ ڈھٹائی، یہ ہے وہ تکبر، یہ ہے وہ سامراجی رویہ، جس سے لوگ تنگ آجاتے ہیں تو پھر نتائج نہیں دیکھتے! پھر وہ اُٹھ پڑتے ہیں! کوئی ایک مُلّا عُمر ان کی قیادت کرتا ہے۔ بھتوں، جگا ٹیکسوں سے زچ ہو چکنے والے لوگ ڈنڈوں، لاٹھیوں ، لوہے کے راڈوں سے مسلح سٹیٹ بینک جیسے اداروں کو نیست و نابود کر دیتے ہیں اور بالائی طبقے کے رکھوالوں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو انہوں نے رومانیہ کے فرماں روا چاؤ شسکو کے ساتھ کیا تھا۔ غرور صفت چاؤ شسکو اپنی فرعون صفت بیوی کی معیت میں قید خانے کی دیوار کے ساتھ چوہے کی طرح چمٹا تھا، جب گولیوں نے ان دونوں غاصبوں کو بھون ڈالا!
اُس خدا کی قسم جس نے نامساعد حالات میں، انتہائی نامساعد حالات میں پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا، اُس پروردگار کی قسم جس نے ہمیں برلا، ٹاٹا، چٹرجی اور پٹر جی کے آہنی جبڑوں سے نکالا، کوئی اژدہا کنڈلی مار کر، کوئی نہنگ اپنا ناپاک پیٹ رکھ کر، کوئی بھیڑیا اپنے مکروہ پنجے گاڑ کر پاکستانی عوام کے حقوق پر نہیں بیٹھ سکتا۔ پچھلے پانچ سالوں کے دوران جن مفت خورے سرمایہ داروں، جن بھِک منگے وڈیروں اور جن بے چہرہ سیاست دانوں نے بینکوں سے قرضے لیے پھر معاف کرائے، ان کے نام، ان کے قرضوں کی تفصیل سینیٹ نے مانگی ہے۔ سینیٹ کیا ہے؟ پارلیمنٹ ہے۔ پارلیمنٹ کیا ہے؟ عوام کی نمائندہ ہے۔ سٹیٹ بنک کون ہے؟ عوام کا ملازم ہے۔ ایک ملازم مالک کے سامنے اکٹر جاتا ہے کہ تم جو کر سکتے ہو کرو، میں مفت خوروں کے نام نہیں بتاؤں گا!
کیوں؟ ابھی تو قیامت نہیں آئی! ابھی تو اتنا اندھیر نہیں پڑا کہ ڈاکہ ڈالنے والوں کے ناموں پر پردہ ڈالا جائے اور گھر کے مالکان خاموش رہیں۔ یہ قرضے جو ''معاف‘‘ کیے گئے، یہ میرے ادا کردہ ٹیکس کی رقوم ہیں۔ میں پیدائش سے موت تک ہزاروں لاکھوں ٹیکس ادا کر رہا ہوں۔ میرے بچے دودھ پر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ میں سگرٹ خرید تا ہوں تو اس پر ٹیکس ادا کرتا ہوں، ماچس لیتا ہوں تو اس پر ٹیکس ادا کرتا ہوں ۔ پٹرول ڈلواتا ہوں تو اس پر ٹیکس ادا کرتا ہوں۔ موبائل فون میں کارڈ ڈلواتا ہوں تو اس پر ٹیکس ادا کرتا ہوں۔ پھر ہر کال پر دوبارہ ٹیکس ادا کرتا ہوں۔ میں ریستوران میں چائے زہر مار کرتا ہوں تو سولہ فیصد ٹیکس وہاں دیتا ہوں۔ موٹر سائیکل یا کار قرضہ لے کر خریدتا ہوں تو اس پر ٹیکس دیتا ہوں۔ میں گھی، آٹے، چائے ، سبزی ،گوشت ، دال، مرچ مصالحے، بسکٹ کیک، کپڑے ، جوتے، ٹوپی، ادویات غرض ہر شے پر ٹیکس دیتا ہوں۔ میں گاڑی سے دو سو میل کا سفر کروں تو آٹھ مرتبہ میرے راستے میں وحشیانہ بیریئر لگا کر مجھ سے ٹیکس کے نام پر بھتہ وصول کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ میں مر جاؤں تو اپنے کفن کے لٹھے پر بھی ٹیکس دیتا ہوں۔ پھر کیا حق پہنچتا ہے کسی سٹیٹ بینک کو کہ میری خون پسینے کی حلال کی کمائی کو حرام کھانے والوں کی جیب میں ڈالے اور پھر میں نام پوچھوں تو کٹ حجتیاں کرے!
اور یہ بنک! یہ جو جابر گردن بلندوں کے سامنے ہاتھ باندھ کر، سرجھکا کر، ماتھا رگڑ کر قرضے دے بھی دیتے ہیں اور پھر کسی چون و چرا کے بغیر معاف بھی کر دیتے ہیں، ان بینکوں، ساہوکاروں کے اِن گماشتوں کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ غریب آدمی ان سے قرض لے کر آٹھ سو سی سی کی گاڑی خریدے اور ایک قسط بھی ادا کر دینے میں تاخیر کر دے تو یہ ظالم آکر گاڑی اچک کر لے جاتے ہیں۔ یہ مکانوں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ ان کی سفاکی کا یہ عالم ہے کہ کریڈٹ کارڈ پر لیے گئے بیس ہزار روپوں کے پیچھے یہ گاؤں کے قبرستان تک جا پہنچتے ہیں۔ یہ مقروض کے رشتہ داروں کو ہراساں کرتے ہیں۔ یہ جائداد قرقی کرنے پر تُل جاتے ہیں مگر وڈیروں، صنعت کاروں، سیاستدانوں کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ یوں کہ خدا کی قسم! ان کی سرینوں سے کپڑا اُٹھ جاتا ہے اور یہ برہنہ ہو جاتے ہیں۔
آپ اگر عام شہری ہیں اور ایک لاکھ، صرف ایک لاکھ کا قرضہ لینے بینک کے پاس جاتے ہیں تو گارنٹیاں، وارنٹیاں، قسمیں، حلف نامے لے لے کر اور سینکڑوں صفحات پر آپ کے انگوٹھے لگوا لگوا کر آپ کی عزتِ نفس کو تار تار کیا جائے گا۔ آپ کے دوستوں سے آپ کے کردار کے بارے میں سوال پوچھ کر آپ کی سماجی حیثیت میں نقب لگائی جائے گی۔ مگر جب کوئی با اثر شخص آئے گا تو اسے لاکھوں کروڑوں کا قرضہ دینے کے بعد اُس کے جوتے بھی پالش کیے جائیں گے۔
یہ سینہ زوری ہمیشہ کے لیے نہیں چل سکتی۔ یہ ملک چند وحشیوں کی چراگاہ نہیں۔ قائداعظم نے کسی بینک سے قرضہ لے کر معاف نہیں کرایا۔ اس قوم میں اب اتنا شعور آ چکا ہے کہ یہ روٹی اچک لینے والے کوّے کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنائے۔ یہ کوّے جن کے دل کالے ہیں، ہمارے بچوں کے منہ سے روٹی کے نوالے چھین کر عیش و عشرت کر رہے ہیں۔ ان جانوروں کو مزید ڈھیل نہیں دی جا سکتی!
سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی ہیں۔ اُنہیں اُس وقت کی لاج رکھنا ہو گی جو ان کے والد مرحوم نے قائداعظم کی خدمت میں گزارا۔ انسانی حقوق کی سوسائٹی نے انہیں ایوارڈ سے نوازا ہے۔ کیا قرض خوروں نے نام اخفا میں رکھ کر سٹیٹ بینک بنیادی حقوق کے قتل کا مرتکب نہیں ہو رہا؟ کیا رضا ربانی صاحب بے بس ہیں؟ کیا وہ نوکر شاہی کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے؟ ہمیں تو اتنا معلوم ہے کہ ایک سیاست دان کا وژن، نوکر شاہی کے وژن سے کئی سو، کئی ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے۔
قرضوں کے ذریعے قومی خزانے کی یہ نقب زنی سالہا سال سے جاری ہے۔ عشرے ہو گئے، دہائیاں گزر گئیں، ہر سال کروڑوں اربوں روپوں کے قرضے ہڑپ کر کے عوام کو مقروض کیا جا رہا ہے۔ اس قوم کا ہر فرد پہلے ہی ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے کا مقروض ہے۔ یہ تو قومی قرض (National Debt) ہے۔ کارخانے لگا کر، نفع جیب میں ڈال کر، جھوٹے سچے بہانے بنا کر قرضے معاف کرانے والے اس فی کس قرض پر مزید بوجھ ڈال رہے ہیں۔ بینک میں رقم رکھنے والوں کو منافع زیرہ کے برابر جاتا ہے، اس لیے کہ بینک نے زور آوروں کے قرضے معاف کر کے یہ رقم عام گاہکوں سے وصول کرنی ہوتی ہے۔ عام گاہک کا منافع کٹ کر، گھٹ کر، بے سروپا لوتھڑا رہ جاتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں! اور سینیٹ نے تو ابھی کوئی کارروائی بھی نہیں کی۔ صرف انفارمیشن طلب کی ہے کہ پانچ سالوں میں کس نے کتنے قرضے ہڑپ کیے۔ اس پر سٹیٹ بینک، ایک حرافہ کی طرح ادائیں دکھا کر بات کو ٹالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیا جناب رضا ربانی اس حرافہ کے غمزوں، عشووں سے متاثر ہو جائیں گے؟
یہ ملک دہشت گردی کے خلاف لڑ رہا ہے۔ جو جانتا ہے وہ جانتا ہے، جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ عوامی دولت سے قرضے لے کر ہڑپ کر جانا دہشت گردی کی بدترین قسم ہے۔ یہ وہ مجرم ہیں جو مالی دہشت گردی سے ہمیں ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں۔ اگر آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں، ضرور اِن کے خلاف مقدمے دہشت گردی کی عدالتوں میں چلیں گے۔ ان کے تنور نما پیٹوں سے قوم کی یہ دولت نکال کر خزانے کو لوٹائی جائے گی۔