کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آج اقوامِ عالم میں ہماری امتیازی حیثیت کا اصل سبب کیا ہے؟
یہ کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں؟ ہاں! یہ ہمارے امتیاز کا سبب تو ہے مگر صرف عالمِ اسلام میں! فرانس‘ چین‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ روس کیوں متاثر ہوں؟ وہ تو خود ایٹمی طاقتیں ہیں اور ہم سے کہیں پہلے یہ میدان مار چکی ہیں!
ہماری مسلّح افواج؟ ہمیں ان پہ فخر ہے اور اقوام عالمِ میں ہماری عزت کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے مگر نہیں! اصل سبب یہ نہیں!
اصل سبب جمہوریت کے لیے ہماری وہ خدمات‘ وہ قربانیاں اور وہ جدوجہد ہے جس کا عشرِ عشیر بھی مغربی جمہوری ملکوں کو نصیب نہیں ہوا۔
یہ سچ ہے کہ برطانیہ‘ امریکہ‘ کینیڈا جیسے ملکوں میں کبھی مارشل لا نہیں لگا۔ وہاں کی پارلیمانی روایات مضبوط ہیں۔ امریکیوں نے سول وار کا پل صراط تک پار کیا اور جمہوریت کو بچا لیا۔ مگر جو خدمات پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں نے جمہوریت کے لیے سرانجام دی ہیں‘ ان پر مغربی دنیا رشک تو کر سکتی ہے‘ ان کی مثال پیش کرنے سے معذور ہے!
جمہوریت کی خاطر جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو سیاست دان اس کے ساتھ ہو گئے۔ پھر اقتدار اپنے جانشین جنرل یحییٰ خان کو سونپ کر صدر ایوب نے جمہوریت ایک بار پھر بچا لی!
ذوالفقار علی بھٹو کی قربانیاں بھی جمہوریت بچانے کے لیے جنرل ایوب خان سے کچھ کم نہیں! مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ انتخابات جیت چکی تھی۔ اسمبلی کا اجلاس بلایا جانا تھا‘ مگر چودہ فروری 1971ء کو بھٹو صاحب نے یہ اعلان کرکے کہ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے‘ جمہوریت کو بچا لیا۔ جمہوریت کے لیے دوسرا بڑا کارنامہ انہوں نے 28 فروری 1971ء کو لاہور میں سرانجام دیا جب متنبہ کیا کہ جو اسمبلی کا اجلاس اٹینڈ کرے گا‘ ہم اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے‘ اور جسے جانے کا شوق ہو‘ وہ یکطرفہ ٹکٹ خرید کر جائے۔ چودہ مارچ 1971ء کو کراچی میں بھٹو صاحب نے جمہوریت کے گلے میں سونے کی ایک اور دمکتی ہوئی مالا ڈالی اور کہا کہ تم مشرقی پاکستان کی اکثریتی پارٹی ہو اور ہم یعنی پیپلز پارٹی مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی ہیں۔ اسی اجلاس میں انہوں نے الگ الگ انتقالِ اقتدار کا تصور پیش کیا۔ پھر آرمی ایکشن ہوا۔ ڈھاکہ سے بھٹو صاحب واپس پہنچے تو کہا ''خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘۔
اتفاق سے ایسا ہوا کہ بھٹو صاحب کی کوششوں کے ''باوجود‘‘ پاکستان تو نہ بچ سکا ہاں جمہوریت بچ گئی۔ جمہوریت کی خاطر بھٹو صاحب نے میرٹ کو قتل کر کے جنرل ضیاء الحق کو آرمی کا سربراہ بنایا۔ جب جنرل صاحب نے اس احسان کا بدلہ اتارتے ہوئے انہیں تختہ دار پر لٹکایا تو جمہوریت کی خدمت کرتے ہوئے ان کی جماعت نے احتجاج ہی نہ کیا! سوائے چند گنے چنے افراد کے جو کوڑے کھاتے رہے۔
سیاست دان سارے کے سارے جمہوریت کی خاطر ضیاء الحق کے ساتھ مل گئے۔ جاوید ہاشمی سے لے کر یوسف رضا گیلانی تک‘ سب ضیاء الحق کے شانہ بشانہ جمہوریت کے لیے خدمات سرانجام دیتے رہے۔
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو جمہوریت بچ جانے کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔ کوئی آنکھ نہ روئی۔ کوئی احتجاج نہ ہوا۔ پیپلز پارٹی کا ایک حصہ پیٹریاٹ بن کر جمہوریت کی خدمت کرنے لگ گیا۔ قاف لیگ جنرل صاحب کی دستِ راست بن گئی۔ ایم ایم اے نے تن من دھن سے سپہ سالار کی خدمت کی۔
جمہوریت کی خاطر بے نظیر بھٹو نے نیویارک میں بیش بہا پینٹ ہائوس نما اپارٹمنٹ لیا پھر اچھے شگون (FENG-SHUI) کی خاطر اس میں تبدیلیاں کیں‘ مگر ہوا وہی جو قدرت کو منظور تھا۔ موت سے چھٹکارا نہ مل سکا۔ جمہوریت کے لیے بی بی شہید نے دبئی میں ایک ایسا محل خریدا جس کی مثال الف لیلہ اور امیر حمزہ کی داستانوں میں بھی نہ ملے۔ فانوس جیسے کہکشائیں‘ فرنیچر جیسے آسمان سے بن کر اترا‘ دالان اور برآمدے جنہیں چاند سے دیکھیں تو ستارے لگیں۔ جمہوریت کی مزید خدمات سرانجام دینے کے لیے بی بی شہید یہ محل یہیں چھوڑ گئیں۔
جمہوریت کی خاطر محترمہ ماروی میمن سے لے کر جناب زاہد حامد تک اور جناب امیر مقام سے لے کر جناب دانیال عزیز تک سب جنرل پرویز مشرف کے دربار میں تعینات رہے اور رات دن جمہوریت کی خدمت کرتے رہے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ پرویز مشرف صاحب کا دورِ حکومت تمام ہو گیا۔ ادھر مصیبت یہ آن پڑی کہ جمہوریت کی خدمت ابھی ادھوری تھی؛ چنانچہ اس خدمت کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے یہ خاتون اور یہ حضرات اب مسلم لیگ نون میں ہیں! مجبوری کیا کیا کام کراتی ہے! جناب پرویز الٰہی بڑے چوہدری صاحب‘ جناب مشاہد حسین بھی اقتدار کی صعوبتیں جھیلتے رہے اور جمہوریت کی نیلم پری کی خاطر ایثار اور قربانی کے لازوال مظاہرے کرتے رہے!
ہمارے وزیراعظم اور ان کا سارا خاندان جمہوریت کی خدمت میں دن رات ایک کر رہے ہیں۔ دُخترِِ نیک اختر منتخب شدہ ہیں نہ کسی سرکاری عہدے پر تعینات مگر جمہوریت کی خدمت میں سب سے آگے ہیں‘ یہ جمہوریت ہی تھی جسے بچانے کے لیے جناب وزیرِ اعظم نے علاج لندن سے کرایا۔ کئی ہفتے عملاً‘ دارالحکومت لندن ہی رہا۔ پھر خصوصی جہاز پر واپس تشریف لائے۔ پاناما لیکس کا مسئلہ اٹھا تو جمہوریت کی خاطر وزیرِ اعظم کے ساتھی ڈٹ گئے۔ چھوٹے بھائی جمہوریت کو بچانے کے لیے بیسیوں بار برطانیہ‘ چین اور ترکی گئے‘ اور جاتے ہی رہتے ہیں! بھتیجا یوں تو ایم این اے ہے مگر جمہوریت کی خاطر صوبے کا نظم و نسق چلا رہا ہے۔ لاہور کو چونکہ جمہوریت کی زیادہ ضرورت ہے اس لیے اس کا بجٹ بھی بقیہ صوبے سے زیادہ ہے!
جمہوریت کو بچانے میں جناب وزیرِ اعظم کے اتحادی ان سے پیچھے نہیں! شانہ بشانہ چل رہے ہیں‘ مولانا شیرانی ملک کو پانچ حصوں میں تقسیم ہوتا دیکھ رہے ہیں‘ یہ خواب انہیں یوں نظر آیا کہ اس طرح ایک نہیں‘ پانچ اسلامی نظریاتی کونسلیں ہاتھ آ جائیں گی۔ ایک کو وہ سنبھال لیں گے۔ دوسری چار کو اُن کے متعلقین! اگر مسلم لیگ نون‘ مولانا شیرانی کی اتحادی نہ ہوتی تو ضرور کہتی ''تمہارے منہ میں خاک‘‘ مگر جمہوریت کی خاطر مسلم لیگ نون ساری کی ساری خاموش ہے اور مولانا کو یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ جہاں سے معقول مشاہرہ اور ڈھیروں ڈھیر مراعات‘ گاڑیاں اور جہازوں کے ٹکٹ رات دن بٹور رہے ہیں‘ اس ملک کو توڑنے کے خواب تو نہ دیکھیں۔ جانور بھی اُس تھالی میں چھید نہیں کرتا جس میں کھا رہا ہوتا ہے۔ بڑے مولانا صاحب جمہوریت کی خاطر‘ قبائلی علاقوں کو کے پی میں ضم کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون‘ خاموش ہے!
مگر جمہوریت کی خاطر‘ سب سے بڑی قربانی وزیر اعظم اور ان کے ساتھی‘ محمود خان اچکزئی کی پرورش اور کفالت کے ذریعے کر رہے ہیں۔ کل اس شخص نے بقائمی ہوش و حواس یہ درفنطنی چھوڑی کہ افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دے کر‘ ان کے لیے بارڈر سے لے کر اٹک اور میانوالی تک الگ صوبہ بنایا جائے جس کا نام افغانیہ رکھا جائے۔ محمود خان اچکزئی نے یہ فریاد بھی کہ ''افغان وطن خطرناک بحرانوں سے دوچار ہے‘‘۔
جمہوریت کی خاطر میاں محمد نوازشریف وزیراعظم پاکستان نے اِس مطالبے کا بُرا نہیں منایا۔ ورنہ ان کا اشارۂ ابرو ہوتا تو جناب طلال چوہدری‘ جناب دانیال عزیز اور جناب سعد رفیق محمود اچکزئی کی درفنطنی کے پرخچے اڑا کر رکھ دیتے۔ خاموشی نیم رضا! یعنی یہی سمجھنا چاہیے کہ مسلم لیگ نون کو اچکزئی کے اِس مطالبے پر کوئی اعتراض نہیں ہے! ورنہ اتنا تو کہہ ہی سکتے تھے کہ باقی پنجاب کو تو چھوڑو‘ صرف لاہور ہی سے ''افغان‘‘ قوم کے افراد نکال کر کچلاک لے جائو۔ مسلم لیگ نون کو چاہیے کہ سینیٹر میر حاصل بزنجو کے اس بیان کی تردید جاری کرے جس میں بزنجو نے افغان مہاجرین کو شہریت دینے کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ افغان مہاجرین کو کسی صورت بلوچستان میں قبول نہیں کیا جائے گا! مسلم لیگ نون کو بزنجو صاحب کے بیان کی فوراً مذمت کرنی چاہیے‘ ورنہ خدانخواستہ محمود خان اچکزئی مسلم لیگ نون سے ناراض ہو گیا تو کیا بنے گا! بلکہ افغان مہاجرین کو رائے ونڈ میں آباد ہونے کی بھی پیشکش کر دی جائے۔
تاہم جناب آصف زرداری کی خدمات جمہوریت کے لیے نمایاں ترین ہیں۔ ٹین پرسنٹ کا خطاب انہیں نہیں اصل میں جمہوریت کو ملا تھا۔ سرے محل سے لے کر پیرس کے نواح میں صدیوں پرانے محل تک‘ نیویارک اور دبئی میں طویل قیام‘ یہ سب ان کی خدمات ہی تو ہیں جو جمہوریت کے لیے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم اور ایان علی تو فقط دو جانباز ہیں جو منظر عام پر آ گئے ورنہ بیسیوں گمنام مجاہد رات دن جمہوریت کی خدمت‘ جناب زرداری کی لیڈر شپ تلے‘ سرانجام دے رہے ہیں۔
اور اب وہ بقول بلاول‘ وطن واپس آ رہے ہیں تو صرف جمہوریت کی خاطر آ رہے ہیں!
واہ! جمہوریت! تو کتنی خوش بخت ہے!