عزّت جو ہمیں راس نہ آئی

ایک سا کاغذ تھا جو سب کو دیا گیا۔ سب نے کم از کم کشتی بنانا تھی۔ کم از کم کشتی! زیادہ سے زیادہ جو کچھ بھی بنا سکتے تھے بنانے کی اجازت تھی۔ امتحان اس بات کا تھا کہ مواقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں یا نہیں! اس لیے کہ اس دنیا میں مواقع سب کو ملتے ہیں۔ امیر کو بھی غریب کو بھی‘ سفید فام کو بھی‘ حبشی کو بھی‘ زرد نسل کے انسان کو بھی اور جنوبی ایشیا کے نیم سیاہ اور نیم گندمی رنگ والوں کو بھی! مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے دو عوامل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اوّل عقل، دوم ہمّت! دونوں میں سے ایک بھی نہ ہو تو مواقع اس طرح دسترس سے دور ہو جاتے ہیں جیسے سمندر کے کنارے پائوں کو چومنے والی لہر جو دیکھتے ہی دیکھتے دور چلی جاتی ہے!
ایک سا کاغذ تھا جو سب کو دیا گیا۔ وقت کا ایک ہی ٹکڑا تھا جو سب کو میّسر کیا گیا۔ پھر یہ ہوا کہ کچھ نے کشتی بنا لی! کچھ ایسے خوش بخت اور جواں ہمت تھے کہ اسی کاغذ سے‘ وقت کے اُسی ٹکڑے میں‘ انہوں نے سمندر بنا لیا۔ مگر آہ! کچھ ایسے تھے جو کشتی تک نہ بنا سکے! انہوں نے کاغذ کو ضائع کر دیا۔ وقت کا ٹکڑا جو ان کی دسترس میں دیا گیا تھا‘ ان کے ہاتھ سے نکل کر‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے افق کے پار اتر گیا!
یہی حال قوموں کا ہے۔ قوموں کو مواقع ملتے ہیں اور وقت بھی! افسوس! صد افسوس! ہیہات !ہیہات! ہم وہ قوم ہیں جسے مواقع پلیٹ میں رکھ کر پیش کیے جاتے ہیں‘ پھر کیا ہوتا ہے؟ سروں پر دو ہتھڑ مارو! بال کھول لو! پگڑیاں اتار کر کمر سے باندھ لو، پھر بین کرو! عورتوں کی طرح ہاتھ اٹھا اٹھا کر‘ ہاتھ ہلا ہلا کر ‘ نوج پھٹکار کی آوازیں نکالو! ہم موقع تو ضائع کرتے ہیں ہیں! پلیٹ بھی توڑ دیتے ہیں!
ہمیں قدرت نے وہ موقع دیا تاریخ میں جو کم کم ملتا ہے۔ ہمارے سابق سپہ سالار کو مسلم دنیا کی افواج کا کمانڈر انچیف بنانے کی پیش کش ہوئی۔ سابق سپہ سالار نے کمال دانش کا ثبوت دیتے ہوئے تین شرائط سامنے رکھیں۔ اوّل، وہ خود مختار ہوگا۔ دوم، مسلمان ملکوں کے درمیان جھگڑا ہوا تو وہ حَکَم ہو گا! تیسری شرط سابق سپہ سالار نے ایسی دانائی بھری رکھی کہ قوم کو تحسین کرنا چاہیے تھی، یہ کہ اس اتحاد میں ایران کو بھی شامل کیا جائے گا!
مسلم دنیا کی مشترکہ افواج کی کمان!! سبحان اللہ! کیا اعزاز تھا! چودہ سو سال میں پہلی بار ایسا اتحاد بن رہا تھا۔ اور اس اتحاد کی سپہ سالاری کسی عرب کسی ایرانی کسی ترک کسی وسط ایشیائی کسی فار ایسٹرن کو نہیں بلکہ رسالت مآب ﷺ کے صدقے پاکستان کو مل رہی تھی! ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پوری قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح سابق سپہ سالار کی پشت پر کھڑی ہوتی‘ اس اعزاز کو ہضم کرنے کی کوشش کرتی۔ سول اور نان سول ایک صفحے پر ہوتے۔ میڈیا حوصلہ افزائی کرتا‘ سیاسی پارٹیاں اختلافات بھلا کر یکجہتی کا مظاہرہ کرتیں مگر افسوس! صد افسوس! ایسا نہ ہوا! ہم نے وہ ہڑبونگ مچائی کہ تلنگوں نے دلّی میں کیا مچائی ہو گی! ہم نے وہی مظاہرہ کیا جو نودولتیے رشتہ دار ایک دوسرے کو ٹھونگیں مار مارکر کرتے ہیں! دیکھتے ہی دیکھتے! تین تین انچ کی زبانیں دو دو گز کی ہو گئیں۔ پھر وہ زبانیں سانپ کی زبانیں بن گئیں۔ پھر ڈنک مارے گئے‘ زہر سے بھرے ہوئے! پھر حسد کا پودا یوں کھڑا ہو گیا جیسے دوزخ میں زقوم کا پودا کھڑا ہو گا! سابق فوجی‘ مراعات سے کھیلتے سابق فوجی‘ میدان میں کود پڑے۔ میڈیا نے دکانداری چمکانا شروع کر دی۔ نام نہاد دانشوروں نے بین الاقوامی تعلقات کا اپنا آدھا علم لُوٹ سیل پر لگا دیا۔ بہتّر فرقوں کو نہ دیکھ سکنے والوں کی بینائی اس قدر تیز ہو گئی کہ انہیں امریکہ اور روس کے دو بلاک نظر آنے لگے اور یہ بھول گئے کہ سیٹو اور سنٹو کس بلاک کے تھے جن میں پاکستان پیدائش کے فوراً بعد شامل ہو گیا تھا۔ پھر چشمِ فلک نے ایک عجیب ہی منظر دیکھا!ٖ سینیٹ کے چیئرمین جنہیں سرے محل سے لے کر فرانس کی حویلیوں تک‘ حج سکینڈل سے لے کر ترکی کے ہار تک‘ ایفی ڈرین سے لے کر گوجر خان کی درخشندہ دیانت تک کبھی کچھ نہ دکھائی دیا‘ جنہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے ضمیر سے کبھی نہ پوچھا کہ وہ ایک ہی خاندان کے کیوں غلام ہیں، خواہ اس خاندان کے بچے ہی ان پر حاکم کیوں نہ بن جائیں، جن کی جمہوریت پسندی کو وہ کروڑوں کے اخراجات نظر نہیں آ سکتے جو پارٹی کے دبئی ہیڈ کوارٹر جانے آنے اور پھر بار بار جانے آنے پر پانی کی طرح بہائے جاتے ہیں‘ جی ہاں انہی چیئرمین صاحب کو یہ بات بری لگ گئی کہ پاکستان کا سابق سپاہی عالمِ اسلام کی فوج کا کمانڈر انچیف بن رہا ہے۔ انہوں نے اِس ایشو پر منسٹر آف ڈیفنس سے جواب طلبی کر لی! بیچارے معصوم منسٹر آف ڈیفنس! جو اختیارات کے حوالے سے ڈیفنس تو کیا سول ڈیفنس تک کے منسٹر نہیں لگتے!
سابق سپہ سالار کی ممکنہ تعیناتی پر وہ قوم ''بیدار‘‘ ہو گئی جس کے ہاں ستر سال سے بیرون ملک نوے فیصد تعیناتیاں شخصی‘ خاندانی‘ گروہی، نسلی اور سیاسی بنیادوں پر ہو رہی ہیں۔ ماضی قریب ہی کی تو بات ہے جب ماڈل ٹائون کے چودہ قتل کا پَر ٹوپی میں لگانے والا نوکر شاہی کا ہیرو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں سفیر مقرر کر دیا گیا۔ اس ہیرو کا تعلق وزارت خارجہ سے تھا نہ وزارت تجارت سے اور نہ ہی تجارت سے! اِس دھاندلی پر‘ اس غضب کی Resource Mis-Allocation پر ہماری سینیٹ کو چھینک تک نہ آئی!!
ہیجڑے بھی اپنے ہاں بچے کی پیدائش پر وہ ہڑ بونگ‘ وہ اودھم اور وہ طوفانِ بدتمیزی نہیں مچاتے جو ہم نے اس پیش کش پر مچایا۔ ہم نے دنیا کو ثابت کر دیا کہ ہم کسی اعزاز کے اہل نہیں! ہمیں عزت و کامرانی راس ہی نہیں آتی۔ ہمیں کاغذ دو گے تو ہم سمندر تو کیا کشتی بھی نہیں بنا پائیں گے۔ کیا عجب‘ ہماری اس اندرونی ناچاقی اور بداتفاقی سے مایوس ہو کر یہ پیش کش ترکی کو یا ملائشیا کو یا مصر کو کر دی جائے!
ہم عجیب و غریب قوم ہیں۔ جتنے فیصد ناخواندگی‘ غربت اور بے روزگاری ہے‘ اس سے زیادہ فیصد تکبّر ہے۔ حالت یہ ہے کہ دائیں طرف دہلی میں‘ اور بائیں طرف تہران اور مشہد میں انڈر گرائونڈ ٹرین کب سے چل رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں ڈمپر اور ٹریکٹر ٹرالیاں لاکھوں کی تعداد میں چل رہی ہیں! واہ! کیا سہولت ہے! سینکڑوں افراد کو کچل کر کس آسانی سے مارا جا رہا ہے!
ہم پلک جھپکائے بغیر ‘ شرم کو لات مار کر ‘ ہر سانس میں دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اسلام کا قلعہ ہیں۔ حال یہ ہے کہ گلی گلی پھرنے والی مذہبی جماعتوں کے سرکردہ رہنما وعدہ خلافی کو جائز قرار دینے کے لیے اب یہ عام کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ وعدہ تو کیا ہی نہیں تھا! بس ایک بات کی تھی! جیسے وعدہ بات نہیں ہوتا نہ ہی منہ سے نکلتا ہے‘ جیسے وعدہ تو بلغم کا کنگھار ہوتا ہے جس سے نیکو کار پرہیز فرماتے ہیں!
اندازہ لگائیے! وفاق کے سربراہ نارووال میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد کو ہیلتھ گارڈ‘ بنفسِ نفیس دیتے ہیں تو ان کے ایک طرف سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والا وزیر کھڑا ہے تو دوسری طرف حافظ آباد (گوجرانوالہ) کی وزیر! ایسی تقریب بلوچستان یا سندھ یا کے پی میں کیوں نہیں ہو سکتی؟ وزیر اعظم کا دماغ شور مچاتا ہے کہ وہ زاہدان سے لے کر خنجراب تک کے قومی سربراہ ہیں مگر ان کا دل اصرار کرتا ہے کہ وہ سنٹرل پنجاب کے سربراہ ہیں۔ ان کی سوچ کا دائرہ فیصل آباد سے سیالکوٹ تک محدود ہے۔ انہیں اِس چھوٹی سی پٹی سے باہر کوئی ڈھنگ کا ایک شخص بھی نہیں ملتا جسے وہ وزیر خزانہ‘ یا وزیر بجلی پانی‘ یا وزیر منصوبہ بندی ‘ یا وزیر صحت ‘ یا وزیر ریلوے ‘ یا وزیر دفاع‘ یا وزیر تجارت لگا سکیں!
ہم مجموعۂ عجائب ہیں! ہمارے ہاں کسی تعلیمی ادارے میں کوئی طالب علم لیڈر قتل ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ ملک گیر سیاسی پارٹیوں کے سربراہ پڑھاتے ہیں! واہ! کیا وژن ہے اور کیا ہماری سوچ کا دائرہ ہے!
ہمارے بارے ہی میں کلام پاک میں کہا گیا ہے کہ گونگا۔۔۔کچھ کام نہیں کر سکتا! اپنے مالک کے لیے بوجھ ہے! جہاں بھی بھیجا جائے‘ خیر کے ساتھ واپس نہیں آتا! بوجھ ! بوجھ! زمین کا بوجھ!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں