ایف آئی آر کٹ چکی ہے۔
مسماۃ مسلم لیگ نون کی وفاقی حکومت کے خلاف ایف آئی آر کٹ چکی ہے۔
اس ایف آئی آر میں مسماۃ پیپلز پارٹی کو بھی نامزد کیا گیا ہے اور سیّد قائم علی شاہ کو بھی‘جو ایک طویل عرصہ سندھ میں سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ قحط زدہ علاقوں کا دورہ کرتے وقت ان کے ساتھ جو لائو لشکر ہوتا تھا اور پروٹوکول کے جو ہنگامے ہوتے تھے‘ ان کی متحرک تصاویر (ویڈیو) ایف آئی آر کے ساتھ منسلک ہیں۔ اکثر مقامات پر وہ سوئے دکھائی دیتے ہیں۔ موجودہ وزیراعلیٰ کا نام بھی ایف آئی آر میں درج ہے کیونکہ بہرطور قتل اُن کے عہد میں‘ اُن کی ناک کے عین نیچے ہوا ہے۔
اس ایف آئی آر میں ایم کیو ایم کے بڑے بڑے ارکانِ قضا و قدر کے نام بھی مقتول کی رُوح نے اصرار کر کے ڈلوائے ہیں۔
مقتول کا نام محمد حسن ہے جو تین ماہ پہلے مارٹر کوارٹرز کراچی میں مسمی محمد عمران کے گھر تولد ہوا۔ اس کی طبیعت خراب ہوئی تو اسے سول ہسپتال کراچی میں لایا گیا جہاں وینٹی لیٹرز کی تعداد چھ (انگریزی میں سکس) تھی‘ نصف جس کا تین ہوتا ہے۔ مسمی محمد عمران‘ جو مقتول محمد حسن کا باپ ہے‘ ایف آئی آر کے مطابق وینٹی لیٹر کے لیے ہسپتال انتظامیہ کی منتیں کرتا رہا۔ ایف آئی آر میں وزیرِ صحت سندھ کا یہ بیان ایف آئی آر لکھنے والے نے انڈر لائن کیا ہوا ہے کہ ''کسی اور بچے سے وینٹی لیٹر لے کر اسے نہیں دے سکتے تھے‘‘
ایف آئی آر کے ساتھ پاکستانی اخبارات میں شائع شدہ ایک تصویر کی فوٹو کاپی لف کی گئی ہے۔ اس فوٹو میں مقتول محمد حسن کا باپ مسمی محمد عمران سکنہ مارٹر کوارٹرز کراچی ڈاکٹروں کے آگے ہاتھ جوڑ کر گڑ گڑاتا دکھائی دیتا ہے۔ مسمی محمد عمران کے چہرے پر جہانوں اور زمانوں کی بے چارگی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ اُس کے جُڑے ہوئے التجا کرتے ہاتھوں کے سامنے دو گنجے ڈاکٹر کچھ کاغذات دیکھتے نظر آتے ہیں۔ اس تصویر کو غور سے دیکھا جائے تو دیکھنے والے کوصاف نظر آتا ہے کہ مسمی محمد عمران کے ہاتھوں کو فرشتے چوم رہے ہیں۔ تصویر کو دوبارہ غور سے دیکھا جائے تو اُوپر سے قطرے ٹپ ٹپ گرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ قطرے اُن فرشتوں کے آنسو ہیں جو محمد عمران کے چہرے پر زمانوں اور جہانوں کی بے بسی دیکھ کر اپنی آنکھوں کو کنٹرول نہیں کر پا رہے۔
عدالت لگ چکی ہے۔ آواز دینے والا پکارتا ہے:
'ملزمہ مسماۃ مسلم لیگ نون حاضر ہو!‘
استغاثہ کی طرف سے فردِ جرم پڑھی جاتی ہے:
''چھ وینٹی لیٹر ‘ تین بار وفاقی حکومت کی سربراہی! محلات‘ کارخانے‘ فیکٹریاں‘ لندن کے فلیٹ‘‘۔
ملزمہ کا وکیل استغاثہ کی بات کاٹ کر کھڑا ہوتا اور عرض کرتا ہے:
مائی لارڈ! میری مؤکلہ نے عوام کی خدمت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ شاہراہیں بنوائیں۔ پھر مزید شاہراہیں بنوائیں۔ جب یہ سب شاہراہیں بن چکیں تو مزید شاہراہیں بنوائیں۔ مزید یہ کہ مسلم لیگ نون نے صوبہ پنجاب کی خوب خدمت کی۔ وفاق کے سربراہ نے صوبہ پنجاب میں فلاحی منصوبوں‘ شہر لاہور کو سمرقند بنانے کے لیے ساری ترکیبوں اور صوبے میں ایک ایک شہر کا میئر نامزد کرنے میں ذاتی دلچسپی لی!
استغاثہ کا فرشتہ پوچھتا ہے: کتنے ہسپتال بنوائے؟ وفاق کے سربراہ نے کتنے ہسپتالوں کے دورے کیے‘ کتنے سرکاری سکول اپنی آنکھوں سے دیکھے؟ مزید یہ کہ جس ہسپتال میں صرف چھ وینٹی لیٹر تھے‘ کیا وہ ہسپتال وفاقِ پاکستان کی حدود میں شامل تھا ؟ اگر شامل تھا تو وفاق کا سربراہ کس اُصول کے تحت اس سے بری ہو سکتا ہے؟ کیا وفاق نے سندھ کے ہسپتالوںکے بارے میں صوبائی حکومت سے کبھی کوئی رپورٹ طلب کی؟
ملزمہ کا وکیل اس پر خاموش رہتا ہے۔
پھر ایک آواز آتی ہے:
'ملزمہ مسماۃ پیپلز پارٹی حاضر ہو‘۔
استغاثہ بتاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا سربراہ پانچ سال ریاست کا سربراہ رہا۔ اس عرصہ میں اس نے کسی ہسپتال‘ کسی تعلیمی ادارے کا دورہ کیا‘ نہ دلچسپی لی۔ مزید یہ کہ اس پارٹی کی حکومت صوبے میں اتنے سال رہی کہ گنتی کرنے والے برسوں کی تعداد بھول گئے۔
صفائی کے وکیل نے اپنی مؤکلہ کے کارنامے گنوائے۔ ان کارناموں میں حج‘ ایفی ڈرین‘ گوجر خان‘ ڈاکٹر عاصم اور ایان علی کے نام بار بار سنائی دیتے تھے۔ وکیل نے یہ بھی بتایا کہ عوام کی فلاح کے لیے شہر شہر ‘ قصبے قصبے بلاول ہائوسوں کی تعمیر کے منصوبوں پر غور اور کچھ کچھ عمل ہو رہا تھا!
استغاثہ بار بار پکارتا رہا کہ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے لیے کچھ کیا گیا ہے تو پیش کیا جائے۔ وکیل صفائی خاموش رہتا ہے۔
پھر پکارنے والا پکارتا ہے۔ ایم کیو ایم حاضر ہو!
پوچھا جاتا ہے‘ طویل عرصہ کراچی پر کُلّی اقتدار کے دوران کتنے ہسپتال اور کتنے تعلیمی ادارے توجہ کا مرکز بنے۔
صفائی کا وکیل ایک طویل بیان پڑھ کر سناتا ہے۔ اس میں لندن‘ لٹکتے ہوئے رخساروں‘ سُرخ آنکھوں‘ ڈگمگاتی پھسلتی ہوئی تقریروں‘ بھتوں‘ کھالوں‘ ہڑتالوں‘ بوری بند لاشوں‘ ڈرل مشینوں اور بہت سے افراد کا زمین پر بیٹھ کر بے حس و حرکت یعنی مُردوں کی طرح ساکت رہ کر‘ تقریریں سننے کا ذکر تھا۔
ابھی وکیل صفائی اپنا بیان پڑھ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک طرف سے صولت مرزا قہقہے لگاتا سامنے آگیا۔ دوسری طرف بلدیہ ٹائون کی فیکٹری کا نقشہ لہرانے لگا جس میں سے نکلتے آگ کے شعلوں کی آنچ اس قدر تیز تھی کہ ایم کیو ایم کے سارے رہنما پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔
پھر ایک آواز آئی‘ کیا سول ہسپتال کراچی میں وینٹی لیٹر مانگتے مانگتے مر جانے والا تین ماہ کا انسان‘ فرات کے کنارے مرنے والے کتے سے بھی بدتر تھا؟
جواب میں ایک بسیط خاموشی‘ سناٹا بن کر سروں پر چھا جاتی ہے!
آواز دوبارہ آتی ہے۔
''شاہراہیں ایئرپورٹ‘ پُل‘ شہروں کے میئر‘ بیورو کریسی کا لاہور گروپ‘ شہر شہر بلاول ہائوسوں کی تعمیر‘ دبئی میں منعقد کردہ پارٹی کے اجلاس‘ کھالوں اور بھتوں کی رقم کا لندن بھیجا جانا‘ ان میں سے کوئی کارنامہ بھی ایک انسانی جان کا بدل نہیں ہو سکتا۔
پھر دیکھنے والوں نے عجیب تماشا دیکھا‘ فرشتوں کا گروہ ایک طرف سے آگے بڑھ رہا تھا! ان کے ہاتھوں میں گرز تھے۔ تین ماہ کا محمد حسن اُن کی قیادت کر رہا تھا!