تیر کی طرح ایک ہرن درختوں کے جھنڈ سے نکلا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ بادشاہ نے جب گھوڑے کو مہمیز لگائی تو ہرن کافی دور جا چکا تھا۔ بہرطور بادشاہ اس کا تعاقب کرنے لگا ہرن کی خوش قسمتی کہ فاصلہ اتنا کم نہ ہو پایا کہ بادشاہ تیر چلاتا۔ گھوڑا بگٹٹ بھاگ رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں محافظ‘ عمائدین ‘ شہزادے‘ لشکری سب پیچھے رہ گئے ۔سیاہ ابر پہلے سے موجود تھے۔ بارش شروع ہوئی اور پھراس قدر موسلا دھار کہ بادشاہ نے جائے پناہ کے لیے ادھر ادھر دیکھا۔ ایک طرف ایک جھونپڑاتھا کچی کوٹھری نظر پڑی۔ اسی طرف رُخ کر لیا آواز سن کر اندر سے ایک بوڑھا کسان نکلا اور مہمان کو اندر لے گیا۔ واحد چارپائی جس پر بیوی بچے بیٹھے ہوئے تھے خالی کرائی اور اُس کونے میں رکھی جہاں چھت ٹپک نہیں رہی تھی۔ بادشاہ چارپائی پر بیٹھا۔ پھر ادھر ادھر دیکھا۔ کونے میں کسان کی بیوی سمٹی بیٹھی تھی۔ ساتھ بچے‘ ٹپکتی چھت سے پانی کے قطرے ان کے قریب ہی گر رہے تھے۔ بارش رکی تو مسافر اٹھا اور چلا گیا۔
دوسرے دن ہرکارے آئے اور کسان کو اٹھا کر دربار لے آئے۔ بادشاہ نے رقم سے بھری تھیلی دی کہ جھونپڑی کو پکّے کمرے کی شکل دے دے۔ کسان نے تھیلی واپس کر دی اور گویا ہوا کہ جہاں پناہ! عمر اسی ٹپکتی چھت کے نیچے گزری۔ آپ کو اس لیے زحمت ہوئی کہ کبھی یہ تکلیف دیکھی نہ تھی! ہم عادی ہیں۔ پھر ایک میں تو نہیں‘ اُس نواح میں اور بھی جھونپڑیاں ہیں!
کسان صاحبِ ذوق نہیں تھا۔ ورنہ بادشاہ کو یہ شعر ضرور سناتا ؎
اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
ہمارے وزیر اعظم بھی بادشاہ ہیں۔ اقبال نے کہا تھا ؎
سوادِ رومتہ الکبریٰ میں دلّی یاد آتی ہے
وہی عظمت ‘وہی ہیبت ‘وہی شانِ دلآویزی
عام آدمی کے لیے وزیر اعظم اسی طرح پریشان ہو جاتے ہیں جس طرح بادشاہ سونے کے تخت پر بیٹھ کر‘ ریشم و قاقم میں ملبوس‘ محلات کے اندر‘ غم زدہ ہوتے تھے! شفیق الرحمن نے لکھا ہے کہ فلاں کے آنسو پیسٹریوں پر ٹپ ٹپ گر رہے تھے!
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ پرسوں وزیر اعظم تختِ رواں یعنی ہیلی کاپٹر پر سوار‘ ایوان وزیر اعظم سے ایئر بیس چکلالہ تشریف لے جا رہے تھے بارش ہو رہی تھی۔ہیلی کاپٹر ایکسپریس وے پر اُڑ رہا تھا۔ وزیر اعظم نے نیچے دیکھا تو ٹریفک جام تھا۔ گاڑیوں کی طویل قطار کھڑی تھی۔ راوی لکھتا ہے کہ اس پر وزیر اعظم پریشان ہو گئے۔ فوراً ہدایت کی کہ دارالحکومت کی انتظامیہ ٹریفک کے اس ازدحام کی روک تھام کرے اور ٹریفک جام نہ ہونے پائے۔ خبر کا دلچسپ ترین بلکہ مضحکہ خیز حصّہ یہ ہے کہ ''وزیر اعظم کے ہوائی اڈے پر پہنچتے ہی انہیں اطلاع دی گئی کہ ہدایات پر عمل ہو گیا ہے‘‘ گویا جیسے ہی وزیر اعظم نے ہدایت جاری کی‘ انتظامیہ نے ''کھل جا سم سم ‘‘ کہا‘ بس پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے سڑکیں چوڑی ہو گئیں‘ انڈر پاس اور اوور ہیڈ پُل بن گئے۔ راستے کُھل گئے اور ٹریفک رواں ہو گئی! اس بات پر دل کرتا ہے پہلے ہنسا جائے‘ پھر رویا جائے اگر کوئی پوچھے کہ اے شیخ! ہنسے کیوں ہو اور پھر گر یہ کیوں کیا ہے؟ تو بتایا جائے کہ ہنسی اس لیے آئی کہ قوم کو ایسی خبروں سے بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش ہوتی ہی رہتی ہے۔ رہا رونے کا سبب! تو اس بدقسمتی پر رویا ہی جا سکتا ہے کہ بادشاہ سلامت یہ تو پوچھتے کہ ٹریفک ازدحام کا سبب کیا ہے! کون کون سی شاہراہیں اس کا باعث بن رہی ہیں اب تک انہیں کُھلا نہ کرنے کی ذمہ داری کس پر عاید ہوگی اور سزا کس کس کو دینا ہو گی!
پہلے تو جناب وزیر اعظم کی خدمت میں یہی عرض کیا جانا چاہیے کہ ؎
اے شمع!تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
بندہ پرور! آپ نے ایکسپریس وے صرف ایک دن ملاحظہ فرمائی اور پریشان ہو گئے۔ آپ کے محبوب عوام تو برسوں سے اس بدقسمت شاہراہ پر ذلیل و خوار ہو رہے ہیںیہ بدقسمت شاہراہ‘ انگریزی نام جس کا ایکسپریس وے ہے۔ اور جس پر بادشاہ کی‘ یعنی جناب وزیر اعظم کی نظر پڑی‘ وہی شاہراہ ہے جو لاہور سے جہلم تک اور چکوال دینہ ‘سوہاوہ منگلا ‘گوجر خان‘ مندرہ ‘روات‘ سہالہ اور درجنوں دوسری بستیوں کے مسافروں کو دارالحکومت لانے کا واحد ذریعہ ہے۔
خود اس ایکسپریس وے پردرجنوں آبادیاں ہیں۔ اسلام آباد کا بیشتر حصہ اب اسی شاہراہ کے کناروں پر آباد ہے۔ جب اس شاہراہ کو سگنل فری کرنے کا کام شروع ہوا تو عقل اور منطق کہتی تھی کہ آغاز روات چوک سے ہونا چاہیے۔ مگر عقل اور منطق شکست کھا گئیں اور آغاز زیرو پوائنٹ سے ہوا جو پہلے ہی نسبتاً آسودہ حال تھا!
جناب وزیر اعظم! جس نے بھی آپ کو اطلاع دی کہ ''ہدایات پر عمل ہو گیا ہے‘‘ وہ نوکر شاہی کا مرتکب ہوا ہے۔ وزیر اعظم ایک دن بھیس بدل کر ڈرائیوکر لیں اور زیرو پوائنٹ سے روات چوک تک تشریف لے جائیں۔ وزیر اعظم دیکھیں گے کہ گلبرگ چوک سے آگے شاہراہ حد سے زیادہ تنگ ہے۔ اس پر مستزاد سینکڑوں ٹرک ہیں جو پوری شاہراہ کو باپ کی جاگیر سمجھتے ہیں۔ وزیر اعظم یہ بھی دیکھیں گے کہ اُس جگہ سے‘ جہاں سڑک کے کنارے قائدِ اعظم کی تصویر لگی ہے‘ ٹریفک ازدحام شروع ہوتا ہے اور وہاں سے لے کر روات چوک تک کبھی گھنٹہ ‘ کبھی ڈیڑھ اور کبھی دو اڑھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں!
اس شاہراہ پر ٹریفک کا جتنا دبائو ہے مری روڈ پر اس سے کہیں کم ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میٹرو بس کے پہلے منصوبے کی مستحق یہی شاہراہ تھی! یہاں ایک بار پھر یہ بتانا از حد لازم ہے کہ جو چاہیں کرتے پھریں‘ آبادی کے نیچے پستے ہوئے ان شہروں کی ٹریفک کا واحد علاج زیر زمین ریلوے ہے۔ یہی علاج بھارتی شہروں میں ہوا اب تو وہاں دوسرے صف کے ‘ نسبتاً چھوٹے شہروں کے لیے بھی زیر زمین ریلوے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے تاشقند سے لے کر تہران تک‘ ہر جگہ یہی علاج کارفرما ہے! آخر ‘ یہی کرنا پڑے گا مگر ؎
آنچہ دانا کند‘ کند نادان
لیک بعداز خرابیٔ بسیار
کام تو نادان بھی وہی کرتا ہے جو دانا کرتا ہے مگرسو کوڑے اور سو پیاز کھانے کے بعد!
کاش لندن کے عالی شان سپر سٹور ہیرڈ میں وژن بھی دستیاب ہوتا! کاش!ہمارے حکمران‘ ہمارے پالیسی ساز‘ ہمارے ٹاپ کے بیورو کریٹ‘ دنیا بھر کے عالی شان بازاروں میں شاپنگ کرتے ہوئے‘ ایک چھٹانک وژن بھی کہیں سے خرید لیتے! وہ ممالک بھی اس سیارے پر بستے ہیں ‘جو شاہراہیں بناتے وقت آنے والے پچاس نہیں‘ سو سالوں کی ضرورت سامنے رکھتے ہیں! ہمارا ہر کام ایڈہاک‘ وقتی یعنی ڈنگ ٹپائو ہوتا ہے۔ شاہراہیں نہیں‘ ان شاہراہوں کے ذریعے خاندان پرورش پاتے ہیں! دِلِّی میں زیر زمین ریلوے کا منصوبہ بنا تو بین الاقوامی کنسورشیم بنایا گیا اور طے شدہ وقت سے پہلے منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ ہم بھی یہی کچھ کریں گے مگر بعداز خرابیٔ بسیار!اس لیے کہ کراچی لاہور اور اسلام آباد پنڈی کی ٹریفک کا سوائے زیر زمین ریلوے کے‘ کوئی حل مسئلے کو حل نہیں کرے گا!
وزیر اعظم کا شکریہ کہ عوام کی تکلیف دیکھ کر انہیں پریشانی ہوئی اور احکام جاری کیے۔ اب کرم فرمائیں اور ایک دن راستہ بھول کر جھونپڑی کے اندر بھی قدم رنجہ فرمائیں! اس شاہراہ پر‘ حاجبوں اور دربانوں کی ہٹو بچو بغیر‘ سفر کر کے دیکھیں!