تیری مجبوریاں درست؛ مگر

یہ باغ ہرا رہے گا۔ یہ حُسن دامنِ دل کھینچتا رہے گا۔ یہ ملک سلامت رہے گا!
یہ چراغ بجھنے کے لیے نہیں جلا۔ بہت سے پھونکیں مار چکے! اپنی سی کوشش بہت سوں نے کی۔ مگر خلّاقِ عالم نے اس کی حفاظت کی۔ وہ حفاظت کرتا رہے گا! جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی یہ شناخت ہے اور پناہ گاہ۔
وہ جو بغلیں بجاتے ہیں کہ اکہتر میں یہ ٹوٹ گیا، اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے اظہارِ مسرت کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے الگ وجود نے تحریکِ پاکستان پر مُہرِ تصدیق ثبت کر دی! بنگلہ دیش، مغربی بنگال میں ضم کیوں نہیں ہوا؟ تین اطراف سے بھارت میں گھِرا ہوا یہ ملک اپنی الگ شناخت اس لیے قائم رکھے ہوئے ہے کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے! بھائی بڑے ہو جائیں تو ایک گھر کے کئی الگ الگ یونٹ بن جاتے ہیں۔ یہ بد قسمتی تھی کہ جو بٹوارا امن و آشتی کے ساتھ ہو سکتا تھا، لڑ بھڑ کر ہوا! مگر بھائی، لڑ بھڑ کر بھی، بھائی ہی رہتے ہیں! خاتون وزیر اعظم بہت جلد تاریخ کی گرد میں چھپ جائے گی! پاکستان کے ساتھ مخاصمت اس کا ذاتی مسئلہ ہے، شمال مشرق کے مسلمانوں کا نہیں!
پاکستان کی بقا قدرت نے مقّدر کر دی ہے؛ تاہم کچھ ہاتھ پائوں ہم اہلِ پاکستان کو خود بھی ہلانے ہوں گے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہماری اکثریت کا مائنڈ سیٹ ہے! ہمیں مادّی انفراسٹرکچر سے زیادہ ذہنی انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے! اس میں دو آرا نہیں کہ ملک کو شاہراہوں، ہوائی اڈوں، پُلوں، کارخانوں اور پلازوں کی ضرورت ہے مگر اس سے بھی زیادہ، ہماری سوچ پُلوں اور شاہراہوں کی محتاج ہے۔ ہماری سوچ کے پُل ٹوٹے ہوئے ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے، ذہنی طور پر، دور ہیں! برداشت عنقا ہے۔ ملک دشمنی کے طعنے عام ہیں۔ جس طرح مذہبی حوالے سے اختلاف کرنے والے کو ہم جھٹ کافر کا خطاب دے دیتے ہیں، اسی طرح سیاسی تفاوت پر ملک دشمنی کا الزام لگا دیتے ہیں۔ ماضی میں غداری کی فیکٹریاں رات دن چلتی رہیں۔ کبھی کسی پر غداری کا لیبل لگا، کبھی کسی پر۔ اب غداری کی جگہ ملک دشمنی کی اصطلاح عام کی جا رہی ہے! جرم سرزد ہو تو سزا دینی چاہیے! ملک دشمنی کا طعنہ نہیں دینا چاہیے؎
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں!
سلامتی کو بیرونی دشمن سے نہیں، ہماری اپنی عدم برداشت سے خطرہ ہے! عدم برداشت کا عفریت قومی اِکائی کو پارہ پارہ کرنے کے در پے ہے ۔ اور تو اور، آج کا خطیب بھی خیالات اور الفاظ کا سہارا لینے کے بجائے آواز پر تکیہ کرتا ہے! جتنی آواز کسی کی اونچی ہے، اتنا ہی وہ زبردست مقرر گردانا جاتا ہے! نواب بہادر یار جنگ اور ابوالکلام آزاد سے لے کر شورش کاشمیری تک خطابت الفاظ کی روانی اور لہجے کے اتار چڑھائو سے عبارت تھی! چیخنے، دھاڑنے کا رواج نہ تھا! معروف صحافی نصراللہ خان عزیز نے ابوالکلام آزاد کی تقریر کا حال لکھتے ہوئے کہا تھا کہ یوں لگتا تھا جیسے روشنی کی کرنوں پر رقص کرتا ہوا مضامینِ تازہ کا ایک سیلاب ہے جو سٹیج پر سے ایک غیر معلوم چشمے سے ابل رہا ہے۔ گویا تقریر نور کی چادر کی طرح تمام مجمع پر چھائی ہوئی تھی۔ اقبال نے تو ماتم کیا تھا کہ ؎
میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہو گا
مسائلِ نظری میں الجھ گیا ہے خطیب
مگر یہ قصّہ پرانا ہے۔ علامہ کے زمانے میں ایسا ہوتا ہو گا۔ آج کل خطیب مسائل ہی سے بے نیاز ہے۔ فقط آواز کی گھن گرج باقی ہے!
کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ آواز کی آہستگی اور گفتار کی نرم روی برداشت کا پہلا سبق ہے؟ جو معاشرے ذہنی پختگی کو پہنچ گئے ہیں، ان میں چیخنے، دھاڑنے، للکارنے کی رِیت نہیں! ان کے جہازوں، ٹرینوں، بسوں، انتظار گاہوں، بازاروں میں شاید ہی کوئی اتنی بلند آواز سے بات کرتا ہو یا کسی کو بلاتا ہو کہ دوسرے حیران یا زِچ ہو کر اُسے دیکھنے لگ جائیں! نیپلز (ناپولی) میں مشرقی زبانوں کی بہت بڑی یونیورسٹی ہے۔ اطالیہ میں قیام کے دوران اس یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی کے سربراہ ڈاکٹر رحیم رضا سے دوستی ہوئی۔ کلکتہ سے تھے۔ تہران سے پی ایچ ڈی کی۔ وہیں اُس اطالوی خاتون سے اُن کی ملاقات ہوئی جو فارسی ادب پڑھنے ایران گئی تھی۔ اس سے رشتۂ ازدواج میں بندھے اور پھر روم میں آ کر گویا رومن ہو گئے۔ روم کی سیر کراتے ہوئے ایک خاص ریستوران میں لے گئے‘ جو سیاسی بحثوں کے لیے معروف تھا۔ کہنے لگے: الیکشن کے دنوں میں یہ ریستوران ہمہ وقت لوگوں سے چھلکتا ہے۔ خوب خوب بحثیں ہوتی ہیں مگر کوئی ایک مرد یا عورت بھی آواز بلند نہیں کرتی۔ بس مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے زیادہ شور نہیں ہوتا! کالم نگار سوچ میں پڑ گیا کہ ہمارے ہاں سیاسی بحثیں بلند آواز تو کیا، جسمانی لڑائیوں سے بھی محروم نہیں۔ تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں۔ رشتہ داریاں منقطع ہو جاتی ہیں۔ جیسے جھگڑے سیاسی نہ ہوں‘ جائیداد کے ہوں!
عدم برداشت شک کا بچہ جنتی ہے۔ تنقید پر دشمنی کا شک ہونے لگتا ہے۔ خاص طور پر اربابِ حکومت تنقید پر اور تنقید کرنے والوں پر شک کرتے ہیں کہ یہ ہمارے مخالف ہیں، اور ہمارے اقتدار کے در پے ہیں۔ حالانکہ بہت سے تنقید کرنے والے دل سوزی کی بنا پر تنقید کرتے ہیں۔ انہیں اصلاح مطلوب ہوتی ہے۔ گویا؎
اُن کے غصّے میں ہے دل سوزی، ملامت میں ہے پیار
مہربانی کرتے ہیں نامہربانوں کی طرح
پنجاب بیوروکریسی میں حالیہ اکھاڑ پچھاڑ اس شک کی تازہ ترین مثال ہے۔ اس پر تنقید ہو رہی ہے اور اربابِ اختیار اس تنقید کو مخاصمت پر محمول کر رہے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں! کوشش یہ سمجھانے کی ہو رہی ہے کہ منتظمِ اعلیٰ لائق نہ ہو تو ماتحت، جیسے بھی ہوں، ایک حد سے زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہو سکتے! سرکاری اہلکار اُس سلائی مشین کی طرح ہیں جس کی کارکردگی کپڑے کاٹنے اور سینے والے کاریگر پر منحصر ہے! بیوروکریسی قوتِ نافذہ کا نام ہے۔ پالیسی بنانا اہلِ سیاست کا کام ہے، اس لیے کہ عوام انہیں پالیسیاں بنانے کے لیے ہی تو چُنتے ہیں۔ تبادلوں کی ایک لہر نہیں، طوفان بھی آ جائیں تو اصل سوال یہی رہے گا کہ بیوروکریسی کی رہنمائی کرنے والا، پالیسی دینے والا اور نگرانی کرنے والا کون ہے؟ اس میں کتنی صلاحیت ہے اور اس کی کیا قابلیت ہے؟
بیوروکریسی کی کارکردگی تبھی جانچی جا سکتی ہے، جب وہ سیاسی مداخلت سے مکمل مبرا ہو! حکومت کا جو عزمِ صمیم تھا کہ پنجاب میں بیوروکریسی کو، خاص طور پر پولیس کو، سیاسی مداخلت کی زنجیروں سے رہا کیا جائے گا، تاحال پورا نہیں ہوا! مجبوریاں بھی ہیں مگر ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎
تیری مجبوریاں درست مگر
تو نے وعدہ کیا تھا، یاد تو کر
زنجیروں میں جکڑی ہوئی افسر شاہی سے کیا گلہ! اس کی مثال تو اُس شخص کی ہے جسے پانی میں پھینک دیا جائے اور پھر الزام لگے کہ دامن تر ہو گیا ہے! رات دن وعظ سنتے ہیں کہ ادارے اپنی اپنی حدود میں رہیں! بیوروکریسی بھی تو ایک ادارہ ہے۔ اس کی حدود میں مداخلت کرنے کا مطلب ہے کہ اسے کام نہ کرنے دیا جائے۔ اسے آزادی سے کام کرنے دیجیے۔ اس کے بعد مطلوبہ نتائج نہ دکھا سکے تو بے شک ٹانگ دیجیے مگر اُسے یہ کہنے کا موقع نہیں ملنا چاہئے کہ ؎
نا حق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں