آزاد ہے! افغانستان آزاد ہے! روسی ہار کر چلے گئے۔ امریکی شکست کھا گئے۔ نیٹو افواج نے دھول چاٹی۔ مجاہد اور غازی سرخرو ہوئے!
آزاد ہے! افغانستان کے پہاڑ، افغانستان کی زمین، افغانستان کے کوہ و دشت، سب آزاد ہیں! رہے افغان! تو چالیس لاکھ تو پاکستان میں ہیں! لاکھوں دنیا کے دوسرے ملکوں میں! امریکہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک‘ جاپان سے لے کر کینیڈا کے مغربی ساحل تک‘ جہاں بحرالکاہل کے کنارے خوبصورت ترین بستیاں آباد ہیں۔ افغان بکھرے پڑے ہیں۔
ملک باشندوں سے ہوتے ہیں یا پہاڑوں، درّوں اور خالی مکانوں سے؟؎
زندگی حسنِ بام و در تو نہیں
چند اینٹوں کا نام گھر تو نہیں
مسجد نبوی کے شمالی کنارے پر، بڑے بڑے ہوٹل ہیں۔ ان میں بازار ہیں اور ڈیپارٹمنٹل سٹور۔ ایک نوجوان سے عطر کی سب سے چھوٹی شیشی کی قیمت پوچھی! وہ قندھار کا تھا۔ پوچھا واپس قندھار کب جا رہے ہو؟ کہنے لگا: کبھی نہیں! کبھی بھی نہیں! کیوں؟ وہاں کبھی امن نہیں ہو سکتا!! پاکستان نے افغان مہاجرین کی میزبانی کے چالیس سال مکمل کر لیے ہیں۔ اس ''خوشی‘‘ میں ایک خصوصی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا! کانفرنس میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری اور وزیراعظم پاکستان نے شرکت کی! یہ کیسی آزادی ہے! یہ آزادی کی کیسی جدوجہد ہے! چالیس چالیس سال دوسرے ملکوں میں گزر گئے! نسلوں کی نسلیں وہیں پیدا ہوئیں! وہیں جوان ہوئیں! کاروبار وہیں کیے۔ رشتے ہوئے، مگر افغانستان آزاد ہے!
افغانستان آزاد ہے! مشرقی صوبے کپسیا میں ملیشیا کے 9 ارکان ہلاک ہو گئے۔ حکومت کے حمایتی تھے مگر افغان تھے! ہرات میں عسکریت پسندوں نے عدالت کے ایک جج کو پرسوں رات گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ سرکاری ملازم تھا مگر افغان تھا! ہفتے کے دن دو پولیس افسران کو مار دیا گیا۔ دونوں افغان تھے! مگر خدا کا شکر ہے افغانستان آزاد ہے!! افغان عورت نے ہرات کے گورنر سے پوچھا: عالی جاہ! جنت اچھی یا فرانس؟ گورنر نے اعتماد سے جواب دیا کہ اس میں کیا شک ہے جنت اچھی ہے! ابدی بہشت کا عارضی دنیا سے کیا مقابلہ؟ مگر عورت نے جواب الجواب دیا کہ عالی جاہ نہیں! ایسا ہوتا تو آپ کا بیٹا فرانس میں نہ ہوتا اور میرا بیٹا شہادت کے راستے جنت نہ سدھارتا!
ایک طبقہ ہمارے ہاں بھی تھا۔ اب بھی ہے! جو افغانستان کے تہوّر کو‘ ان کی قوّتِ غضب کو سراہتا ہے! خوب مدح و ستائش کرتا ہے۔ EULOGIZE کرتا ہے! فخر سے بتاتا ہے کہ افغان بہادر ہیں۔ بچہ بچہ بندوق چلانا جانتا ہے۔ نشانہ اس کا خطا نہیں جاتا! مگر افغان بچوں کی نشانہ بازی پر قصیدے پڑھنے والوں کے اپنے بچے؟؟ وہ کہاں ہیں؟ یا ان کے بچوں نے افغان بچوں کے شانہ بشانہ بندوقیں چلائیں؟ کیا یہ بھی نشانہ باز بنے؟ نہیں! ان کے ہاتھوں میں کتاب تھی! قلم تھا! آئی پیڈ تھا اور لیپ ٹاپ تھا! یہ تو بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھے۔ پھر امریکہ اور ولایت میں پڑھنے گئے۔ بیٹے بھی بیٹیاں بھی۔ اب بزنس کر رہے ہیں۔ کوئی کے پی کے ہسپتالوں کو میڈیکل سازوسامان سپلائی کرتا ہے۔ کوئی سوئٹزرلینڈ کی طرب گاہ میں کاروبار کر رہا ہے۔ کچھ لیڈر بننے کے مراحل طے کر رہے ہیں اور کانفرنسوں میں بلائے جاتے ہیں! ایک زمانہ تھا کہ لیڈری وراثت میں نہیں ملتی تھی۔ خمسہ لکھنے والے شہرۂ آفاق شاعر نظامی گنجوی نے بیٹے کو نصیحت کی تھی؎
جائے کہ بزرگ بایدت بود
فرزندئی من نداردت سود
میرا بیٹا ہونا کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا، جہاں بڑائی کی ضرورت ہو گی، اپنے روزِ بازو یا زورِ قلم سے بڑا بننا ہو گا! مگر یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں۔ اب خانقاہ، مدرسہ، اسمبلی کی نشست اور جاگیر کیساتھ بڑائی بھی وراثت میں منتقل ہو جاتی ہے!
اجڑ گئے! افغان اجڑ گئے! برباد ہو گئے! سکول‘ کالج‘ یونیورسٹیاں بند ہو گئیں! شاہراہیں ٹوٹ گئیں۔ سڑکیں نہیں، وہاں اب پگڈنڈیاں ہیں! بازار نہیں، قطار اندر قطار کھوکھے ہیں! سردیوں میں لباس مکمل نہیں! اناج ہیں نہ ادویات! ایک جوراب، ایک کاپی، ایک کمربند تک نہیں بنتا وہاں! سریا ہے یا سیمنٹ، گندم ہے یا گوشت، گھی ہے یا دال، سب کچھ باہر سے آ رہا ہے! کچھ مانگ کر، کچھ سمگلنگ سے! کچھ ایران سے، زیادہ تر پاکستان سے! کچھ اغوا برائے تاوان سے، کہ اغوا برائے تاوان ہی وہاں کی سب سے زیادہ نفع آور صنعت ہے! افغانوں نے اس فن کو انڈسٹری بنا دیا۔ اس کے ڈانڈے ہمارے علاقہ غیر تک پھیل گئے! پھر ایک اور MYTH پھیلایا گیا‘ اور خوب خوب پھیلایا گیا! ایک دل پذیر افسانہ! کہ امریکہ کو ناکوں چنے چبوا دیئے! امریکہ کو شکست ہو گئی! امریکہ نے دھول چاٹی!
امریکہ کی شیطنت کی کون ہے جو برائی نہیں کرتا! امریکی حکومت دنیا کی سب سے بڑی انتہاپسندہے! اس کی خفیہ ایجنسیاں، پانامہ سے لے کر جاپان تک، ہر جگہ اپنا جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ وہ فساد پھیلاتی ہیں، حکومتیں گراتی ہیں‘ تختے الٹتی ہیں! اسلحہ بیچنے والا یہ ملک، دادا گیری کرتا ہے۔ سب درست! مگر افغانستان میں اسے کیسے شکست ہوئی؟ خدا کے بندو! اس کا مقصد یہ تو نہیں تھا کہ افغانستان کو فتح کرکے ریاست ہائے متحدہ کی ایک اور ریاست بنا لے! اس کا مقصد افغانستان کو برباد کرنا تھا۔ تہس نہس کرنا تھا! انفراسٹرکچر کو‘ جو کچھ باقی تھا‘ روندنا تھا! لوگوں کو بے گھر کرنا تھا۔ آپس میں لڑانا تھا! اس میں امریکہ کامیاب ہوا اور خوب کامیاب ہوا! جو بغلیں بجا رہے ہیں کہ امریکہ کو شکست ہوئی، ان سے کوئی پوچھے کہ امریکی زیادہ مرے یا افغان؟؟ شہر کس کے برباد ہوئے؟ امریکہ کے یا افغانستان کے؟ لاکھوں مہاجر دنیا میں بے گھر، بے وطن پھر رہے ہیں۔ وہ افغان ہیں یا امریکی؟ کتابوں، کاپیوں، پنسلوں، کپڑوں سے محروم بچے امریکی ہیں یا افغان؟
بٹ گئے! افغان بٹ گئے! گروہوں میں بٹ گئے! اور سب گروہ متحارب! سب مسلّح! سب خون آشام! خونریزی پر تلے ہوئے، ہمہ وقت قتل و غارت میں مصروف! سرکاری فوج کے ارکان بھی افغان انہیں مارنے والے طالبان بھی افغان! افغانوں کو پتھر کے زمانے میں پہنچا کر امریکہ واپس جا رہا ہے! لیکن کہاں واپس جا رہا ہے؟ اس کے اڈے یہیں ہوں گے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ امریکی فوجیوں کے ساتھ امریکی ''مشیر‘‘ امریکی ٹھیکیدار اور امریکی ''سویلین‘‘ بھی رخصت ہو جائیں گے تو وہ غلط فہمی میں ہے!! امریکہ کا مقصد ملکوں کو فتح کرنا نہیں! ان کا اپنے ساتھ الحاق کرنا نہیں! امریکہ جب حملہ کرتا ہے تو مقصد اس ملک کو برباد اور بے یار و مددگار کرنا ہوتا ہے! عراق کے ساتھ یہی ہوا۔ عراق آج بھی خون میں نہایا ہوا ہے! سنی، شیعہ، عرب، کرد سب ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں! یہی مقصد اس کا افغانستان میں تھا! جو ویت نام کی مثال دیتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ ویت نام اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا ہے تو ایک استثنا ہے۔ ویت نام کو فائدہ یہ بھی تھا کہ نسلاً ایک اکائی تھا۔ مذہبی فرقے نہیں تھے! افغانستان عقیدوں، مسلکوں، زبانوں، نسلوں اور عصبیتوں میں بٹا ہوا ہے! وحدت اگر تھی تو پارہ پارہ ہو چکی ہے! 1747 سے لے کر، جب افغانستان بطور ریاست وجود میں آیا، 1979 تک، جب روسی آمو پار کر کے اندر گھسے، پختونوں نے غیر پختونوں پر حکومت کی پھر روسیوں سے مقابلہ ہوا تو تاجک اور ازبک پوری قوت کے ساتھ ابھرے! اب یہ غیر پختون اس طرح دب کر نہیں رہ سکتے جیسے دو سو تیس سال رہ چکے! المیہ یہ ہے کہ پختون اکثریت نئے منظرنامے کو تسلیم نہیں کرنا چاہتی! وہ ابھی تک خوابوں کی دنیا میں ہے۔ احمد شاہ ابدالی کا زمانہ واپس نہیں آ سکتا!
چالیس برس! نصف صدی سے صرف دس سال کم! پاکستان افغانوں کی میزبانی کے چالیس سال مکمل کرنے پر کانفرنس منعقد کر رہا ہے! پاکستان سے جو کچھ ہوا، کیا! اپنے دروازے کھولے، خوراک دی! رہائش بھی! لباس بھی! کاروبار بھی! بدلے میں کیا ملا؟ منشیات اور اسلحہ کی ریل پیل!
مگر کیا یہ افغانوں کے لیے فخر کا مقام ہے؟ یا انہیں سوچنا چاہئے؟ کب تک دوسروں کی میزبانی پر انحصار کریں گے؟؟