قائد اعظم دشمنی‘ براستہ سویڈن

قائد اعظم دشمنی اس ملک میں ایک فیشن رہا ہے‘ اب بھی ہے۔ ایک طرف کچھ مذہبی طبقات‘ دوسری طرف نام نہاد ''وسیع الظرف‘‘ حضرات! مگر یہ جیسے بھی ہیں اسی ملک کے باشندے ہیں۔ یہیں رہتے ہیں۔ جو کچھ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے‘ اس سے ان ہر دو طبقات کی رائے بہت حد تک بدل بھی چکی ہے!
تاہم قائد اعظم دشمنی کی ایک قسم وہ بھی ہے جو فصلی بیڑے لیے لیے پھرتے ہیں۔ ساری زندگی کسی اور ملک میں گزاری مگر رومانس کے لیے بھارت! اور دشمنی کے لیے قائد اعظم! ایسے ہی ایک صاحب سویڈن سے آ کر یہاں قائد اعظم دشمن حلقوں میں خوب پذیرائی پا رہے ہیں۔ بھارت کے اینکر انہیں ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں گویا ایک طارق فتح ہاتھ آ گیا ہے۔ معروف پاکستان دشمن بھارتی اینکر اروند سہارن کے ساتھ ان صاحب نے ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کے چھ سات ایپی سوڈ کیے ہیں۔ ایک ایک لفظ‘ ایک ایک فقرے سے گاندھی کی محبت‘ قائد اعظم کے ساتھ بُغض اور تحریک پاکستان سے نفرت امڈ امڈ پڑتی ہے۔ گاندھی کو مہاتما اور قائد اعظم کو جناح کہتے ہیں۔ تکیہ ہائے کلام دو ہیں ''میں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے‘‘! کتاب فروشی کے بھی کیا کیا روپ ہیں! دوسرا تکیہ کلام ہے: ''میں تو Public intellectual یعنی عوامی دانشور ہوں‘ میرا کام تو سچ کہنا ہے۔‘‘ اس ''سچ‘‘ کے کچھ نمونے ملاحظہ ہوں۔ (کوشش کی گئی ہے کہ حتی الامکان الفاظ انہی کے ہوں)
٭ عمران نے مودی کا ہٹلر کے ساتھ موازنہ غلط کیا ہے۔
٭ آرٹیکل 370 اور 35 اے‘ انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے۔ انڈیا کے اندر وہ جو چاہیں کریں‘ مودی کو 370 ختم کرنے کا مینڈیٹ بھارتی عوام نے دیا ہے۔
٭ آل انڈیا کانگرس ڈیموکریٹک تھی اور All-inclusive یعنی ہمہ گیر تھی۔ یہاں موصوف کہتے ہیں کہ مہاسبھا اور آر ایس ایس مسلم لیگ کی طرح ہندو مسلمان کی الگ الگ بات کرتی تھیں۔
٭ کانگرس کی کسی دستاویز میں ہندو ریاست بنانے کا ذکر نہیں ملتا۔
٭ مہاتما گاندھی نے ہندو مت کی جو بات کی وہ کامن انسانیت کی بات تھی جو قرآن‘ بائبل اور گیتا میں ہے۔
٭ جسونت سنگھ نے غلط لکھا ہے کہ لکھنئو پیکٹ کے بعد کانگرس کا رویہ غیر دوستانہ ہو گیا تھا۔ ایسا نہیں تھا۔ یہ تو مسلم لیگ تھی جس نے مزید مطالبات شروع کر دیئے۔
٭ گاندھی کا تحریک خلافت چلانا In good faith تھا۔
٭ جداگانہ انتخابات کا مطالبہ مان لینا کانگرس کی عظمت تھی‘ اس کا اصل کریڈٹ کانگرس لیڈرشپ کو جاتا ہے۔
٭ کانگرس نے جناح کو مسلم لیگ میں خود بھیجا تھا تاکہ وہ مسلم لیگ کو کانگرس کے قریب لائیں۔
٭ جناح کا جھگڑا گاندھی کے ساتھ ذاتی تھا (Personal resentment) ۔
٭ 1930ء کی رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں اقبال کو نہیں بلایا گیا تھا۔ خطبۂ الہ آباد میں اقبال نے الگ ریاست کا تصور صرف اس لیے پیش کیا کہ ان کی حیثیت اور اہمیت کو مانا جائے اور اگلی رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں بلایا جائے۔
٭ اور سویڈن کے اس باشندے کے شک اور زہریلے منفی خیالات کی انتہا اس کی اس بات سے لگائیے... ''جناح 1931ء سے 1934ء تک جو برطانیہ میں رہے تو اس عرصہ کی تفصیلات بالکل نہیں ملتیں۔ یوں لگتا ہے کہ اس عرصہ میں ریسرچ کرنے کیلئے پابندی لگی ہوئی ہے۔ مجھے لگتا ہے وہاں کسی نے انہیں اکسایا ہو گا کہ واپس جائو۔ اس عرصہ میں... کونسل میں انہوں نے مقدمات لڑے۔ تو... کونسل میں تو امیر لوگوں کے مقدمے ہوتے ہیں نا! تو یوں پیسہ کمایا۔‘‘
٭ مسلم لیگ نے ایک دن انگریز کے خلاف جیل نہیں کاٹی۔ کبھی انہوں نے انگریزوں کے ساتھ ٹکر نہیں لی۔ اس کے برعکس کانگرس کی جو روایت تھی وہ جدوجہد کی تھی۔ آپ کو تو ملک مل گیا جس کے لیے آپ نے ایک گھنٹہ جیل نہیں کاٹی۔
٭ برطانوی فوج نے پاکستان اس لیے بنایا کہ جناح اور مسلم لیگ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں جبکہ کانگرس تو استعمار دشمن تھی۔
٭ ہم اسی خطے کے لوگ ہیں۔ ہم سب جنوبی ایشیا کے ہیں۔ کیوں نہ بھارت کے ہاتھ میں ہاتھ دیں اور عظیم تر جنوبی ایشیا کے لیے کام کریں۔
یہ مشتے نمونہ از خروارے ہے۔ ایک مقام پر آ کر یہ صاحب حالتِ غضب میں ''نظریاتی بکواس‘‘ کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ یہ ''سچ‘‘ زیادہ تر ان کے ذاتی خیالات اور آرا پر مشتمل ہے۔ ورنہ کس تاریخی دستاویز میں درج ہے کہ اقبال نے الگ ریاست کا تصور محض رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں بلائے جانے کے لیے پیش کیا تھا۔ اور یہ کیسا سچ ہے کہ کانگرس تو ہمہ گیر اور انسانیت نواز تھی مگر مسلم لیگ‘ ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس کی طرح تھی!!
کسی گفتگو‘ کسی انٹرویو میں یہ صاحب بھارتی مسلمانوں کی بات نہیں کرتے۔ فرماتے ہیں کہ سندھیوں اور بلوچوں کو حقوق ملنے چاہئیں مگر بھارتی مسلمانوں کیلئے ان کے پاس ہمدردی تو دور کی بات ہے‘ حقائق کی بھی رمق نہیں! مودی کی تعریف کرتے ہیں کہ وہ تو اکھنڈ بھارت چاہتا ہی نہیں مگر یہ عوامی دانشور یہ نہیں جاننا چاہتا کہ گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر جب مودی کمنٹ لیا گیا تو کہنے لگا 'کار میں جا رہے ہوں اور کتا گاڑی کے نیچے آ جائے تو کیا کہہ سکتے ہیں‘‘۔ ابھی چار اپریل 2020ء کو بی جے پی کے معروف لیڈر اور پارلیمنٹ کے رکن سبرامنیم سوامی نے علی الاعلان کہا ہے کہ مسلمان برابر کے شہری نہیں ہیں۔ یہی بی جے پی حکومت کا اجتماعی مؤقف ہے۔ یہی ہٹلر کا یہودیوں کے حوالے سے مؤقف تھا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے مودی کو اسی بنا پر ہٹلر سے تشبیہ دی تو اس نام نہاد خود ساختہ دانشور کو سینے میں درد محسوس ہوا۔ کاش اس درد کا پچاسواں حصّہ بھی اس سینے میں بھارتی مسلمانوں کے لیے ہوتا۔ لگتا ہے‘امیت شاہ‘ ادتیا ناتھ اور کپیل مشرا کا نام بھی اس ''عوامی دانشور‘‘ نے نہیں سنا۔ ادتیا ناتھ کوئی عام بھارتی شہری نہیں‘ بہت بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ ہے اور کھلم کھلا غنڈوں کو مسلمان خواتین سے زیادتی پر اکساتا ہے۔ شہروں کے نام محض تعصب اور تنگ نظری کی بنا پر تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ صدیوں سے بھارت کے باسی مسلمانوں کو شہریت کے دائرے سے نکالا جا رہا ہے۔ ریٹائرڈ بھارتی فوجیوں کو بھی! اس لیے کہ مسلمان ہیں‘ آسام میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ تنگ نظری کا ایسا رویہ ہے جس کی مثال اسرائیل کے علاوہ کہیں نہیں ملتی۔ اسرائیلی خطوط ہی پر خصوصی جیل خانے بنائے جا رہے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کو GHETTOS میں دھکیلنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
بھارتی چینلوں پر اپنے آپ کو دانشور کہنے والے یہ صاحب کہتے پھرتے ہیں کہ 370 والی شق ختم کرنے کا مینڈیٹ بھارتی عوام نے خود دیا ہے۔ کوئی پوچھے کہ کیا دنیا کا طویل ترین کرفیو لگانے کا بھی مینڈیٹ دیا گیا ہے؟ کشمیری لڑکوں اور نوجوان لڑکیوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔ کتنے مہینے انٹرنیٹ کے بغیر رہنے پر مجبور کیا گیا۔ اب بھی اکثر و بیشتر بند کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ نوجوان حریت پسند جنید صحرائی کی شہادت کی خبر ملی ہے۔ گزشتہ چند ایام کے دوران پینتیس حریت پسندوں کو شہید کیا گیا ہے۔ آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے متعصب ہندوئوں کو جائیداد خریدنے اور آباد ہونے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ مگر ان نام نہاد دانشوروں کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا۔
پاکستان بن گیا۔ تمام شیطانی توقعات کے باوجود قائم و دائم ہے اور انشاء اللہ قائم و دائم رہے گا مگر قیامِ پاکستان کے مخالفین اور قائد اعظم کے دشمنوں کے لیے یہ صدمہ ابھی تک ناقابلِ برداشت ہے۔ زخم ہے کہ بھر نہیں رہا۔ رِستے رِستے ناسور بن چکا ہے۔ تعفّن سنڈاس کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے کلامِ الٰہی میں فرمایا گیا ہے کہ غصے میں اپنی انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں۔ مُوتُوا بِغیْظِکُمْ! مرو اپنے غصے میں!! ہاں اگر حسرت یہ ہے کہ گھر کی چھت پر ترنگا لہرائو تو سرحد پار کر جائو! وہاں تمہارے ساتھ سلوک مناسب کیا جائے گا!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں