فروری کے وسط میں کورونا کی مصیبت آ چکی تھی۔ یہ پانچواں مہینہ ہے۔
ان پانچ مہینوں میں بجلی کی سپلائی معطل نہیں ہوئی‘ گیس بند نہیں ہوئی‘ ٹیلی فون کام کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ موجود رہا اور موجود ہے! سرکاری ہسپتال برابر کام کر رہے ہیں۔ ہر یکم کو لاکھوں وفاقی اور صوبائی ملازمین کو تنخواہیں موصول ہو رہی ہیں۔ عسا کر جہاں جہاں بھی خدمات انجام دے رہے ہیں‘ ان کی ہر یونٹ کو تنخواہ وہیں پہنچائی جا رہی ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک پولیس مسلسل موجود ہے۔ دونوں سرکاری بینک‘ سٹیٹ بینک اور نیشنل بینک آف پاکستان ایک دن کے لیے بھی بند نہیں ہوئے۔ ڈاکخانے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ وزارت خزانہ سے لے کر ایف بی آر تک سب نے بجٹ کی تیاری میں رات دن ایک کیا۔ اضلاع اور تحصیلوں میں سرکاری اہلکار ڈیوٹیاں سر انجام دیتے رہے۔ اب یہ جو کہا جا رہا ہے کہ سرکاری ملازم گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں‘ تو پھر ریاست کے یہ تمام کام‘ کون انجام دیتا رہا؟ کیا یہ تمام امور جِنّات کے سپرد ہیں یا سبز پوش ملنگ دفتروں ‘ ہسپتالوں‘ شاہراہوں‘ بینکوں میں آ کر فرائض سنبھالے رہے؟
ہم میں سے اکثر کو معلوم ہے کہ ''پنچنگ بیگ‘‘ کیا ہے! جو نہیں جانتے ان کے لیے بتائے دیتے ہیں۔ پنچ مُکّے کو کہتے ہیں۔ ہوا سے یا فوم سے بھرا ہوا بیگ‘ جس پر مکے باز‘ مکے مارنے کی مشق کرتے ہیں‘ پنچنگ بیگ کہلاتا ہے۔ سرکاری ملازم پنچنگ بیگ ہے! سیاست دان سے لے کر عوام تک‘ سب اسے مُکے مارتے ہیں۔ سب اس پر مشقِ ناز کرتے ہیں! اس لیے کہ یہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ یہ پریس کانفرنس نہیں بلا سکتا۔ اخبار یا ٹیلی ویژن پر وضاحت نہیں کر سکتا۔ کرے تو انضباطی کارروائی (کنڈکٹ رُولز) کے تحت دھر لیا جاتا ہے! اس لیے اسے مُکّے مارنا محفوظ ترین سرگرمی ہے!وزرا اور مشیران کرام کی اچھی خاصی تعداد اپنے نجی کاروبار اور جاگیریں سنبھالنے میں مصروف رہتی ہے۔ کاروبارِ مملکت سرکاری ملازم چلاتا ہے۔ جس دن یہ گھر بیٹھ گیا‘ لگ پتہ چل جائے گا۔ اس لیے بات انصاف کی کرنی چاہیے۔ مرنا صرف سرکاری ملازم نے نہیں‘ طعنہ زنوں نے بھی ہے!کبھی جا کر ان سرکاری ملازموں کی کام کرنے کی حالت (Working Condition) دیکھیے۔ چند افسروں کی میز‘ کرسی‘ قالین اور پردوں پر نہ جائیے۔ ضلع کچہریاں ہیں یا ڈاکخانے‘ اکائونٹس کے دفاتر ہیں یا ریلوے کے شیڈ‘ ڈھنگ سے بیٹھنے کی جگہ ہے نہ ریکارڈ رکھنے کی! کرسی کا بازو ہے تو پشت نہیں! کہیں بلب نہیں‘ کہیں گھنٹی خراب ہے۔ کہیں بیوی بچوں کے علاج کے لیے سرکاری ہسپتالوں کے چکر لگا رہے ہیں‘ کہیں سکولوں میں داخلے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ شام گئے بھی دفتروں میں کام مکمل کر رہے ہیں۔ اور اب جب پہلی بار بجٹ میں تنخواہیں نہیں بڑھائی گئیں تو اس کے جواز میں یہ پروپیگنڈا کیا جانے لگا کہ یہ تو گھر بیٹھے ہوئے تنخواہ لے رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کے سامنے پھیلایا جانے والا کشکول توڑنے کی دعویدار حکومت نے آئی ایم ایف کے اشارۂ ابرو پر سرکاری ملازموں کی تنخواہیں نہیں بڑھائیں! مشیر خزانہ سے پوچھا جاتا ہے تو طرح دے جاتے ہیں! کچھ بزرجمہر یہ دلیل دے رہے ہیں کہ سعودی عرب میں تو تنخواہیں بیس فیصد کم کر دی گئیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ وہاں تنخواہیں تھیں کتنی؟ وہاں کی بھاری بھرکم عظیم الجثّہ تنخواہیں‘ بیس فیصد کم ہو کر بھی اچھی خاصی تنومند ہیں! پھر وہاں مہنگائی بڑھنے کی رفتار بھی پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے! یہاں آپ نے روپے کی قدر میں چالیس فیصد کمی کر دی۔ اوپر سے تنخواہ بھی نہیں بڑھا رہے! سو روپیہ‘ ساٹھ روپے کا رہ گیا ہے! مثالیں آپ سعودی عرب جیسے ملکوں کی دے رہے ہیں! ہنسا جائے یا رویا جائے؟
پارلیمنٹ کے ہر رکن کو اٹھائیس ریٹرن ہوائی ٹکٹ سالانہ ملتے ہیں۔ یہ اکانومی کلاس کے نہیں‘ بزنس کلاس کے ہوتے ہیں۔ پہلے یہ ٹکٹ صرف ارکان کی ذات تک محدود تھے۔ موجودہ عہدِ حکومت میں ان کا اطلاق ان کے خاندانوں پر بھی کر دیا گیا تا کہ کوئی ٹکٹ خرچ ہونے سے بچ نہ جائے۔ حکومت کو اگر بچت کرنا تھی تو ان عیاشیوں کو محدود کرتی! آخر ارکان پارلیمنٹ اکانومی کلاس میں کیوں نہیں سفر کر سکتے؟ کیا ملک کے معاشی حالات اس عشرت کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کا بجٹ 82 فیصد بڑھا دیا گیا۔ یہ صرف ایک ضلع کا احوال ہے! وزیراعظم نے اپنے احباب کو بھی مشیرانِ کرام کی فوج ظفر موج میں شامل کر رکھا ہے۔ جہازی سائز کی کابینہ ہے۔ کفایت شعاری کرنی ہے تو اس کی تعداد کم کیجیے۔سرکاری ملازم صرف وہ نہیں جس نے سوٹ پہن رکھا ہے‘نکٹائی لگا رکھی ہے اور گاڑی پر آتاہے۔ یہ تعداد تو سرکاری ملازموں کی کل تعداد کا مشکل سے ایک فیصد ہو گی۔ سرکاری ملازم کلرک بھی ہے‘ ڈرائیور بھی! نائب قاصد بھی! دفتری بھی! سپرنٹنڈنٹ بھی! ٹائپسٹ بھی! کی پنچ آپریٹر بھی! گریڈٖ گیارہ کا آڈیٹر بھی! انسپکٹر بھی! محرّر بھی! پی اے بھی! غم ہائے روزگار کا بارِ گراں پشت پر رکھے‘ یہ اہلکار کس طرح مہینے کے دن پورے کرتے ہیں‘ انہیں معلوم ہے یا ان کے خدا کو! ادویات کی قیمتیں آسمان کو چھُو رہی ہیں۔ آٹا‘ دال‘ سبزی‘ گھی‘ چائے‘ دودھ‘ مرچ مصالحہ‘ ڈبل روٹی‘ پھل‘ کیا ان سب کی قیمتوں میں استحکام ہے؟ کیا یہ نہیں بڑھیں؟ کیا جوتوں‘ کپڑوں‘ کپڑے دھونے والے صابن اور سرف کی قیمتیں وہی ہیں جو گزشتہ سال تھیں؟ کیا بسوں‘ ویگنوں‘ رکشہ کے کرائے وہی ہیں‘ جو پہلے تھے؟ وزارتِ خزانہ کے اربابِ حل و عقد ایک کلرک یا ایک نائب قاصد کا ماہانہ بجٹ بنا کر دکھا دیں! بے شک آئی ایم ایف کی اجازت لے کر یہ کارِ خیر انجام دے دیجیے! ذرا رہنمائی فرما دیجیے کہ یہ لوگ مہینہ کس طرح گزاریں؟
دنیا بھر کی حکومتیں کرپشن کے خاتمے کے لیے سب سے پہلے سرکاری ملازموں کی تنخواہیں بڑھاتی ہیں‘ یہ ایک پورا فلسفہ ہے! پورا طرزِ فکر ہے! سنگاپور کے معمار لی کوان ییو نے جدید سنگاپور کی بنیاد رکھی تو پہلی اینٹ یہی تھی۔ اس نے سرکاری شعبے میں تنخواہیں نجی شعبے کے برابر کیں۔ پھر عدلیہ سے اپیل کی اور سمجھایا کہ ان بڑھی ہوئی تنخواہوں کے بعد ہم کسی کو کرپشن پر پکڑیں تو آپ اس سے ہمدردی نہ کیجیے گا! یہی طرزِ فکر تمام ترقی یافتہ ملکوں میں کار فرما ہے! سرکاری ملازم کی زندگی پُر صعوبت بنا کر آپ اس سے کیا توقع رکھتے ہیں؟
لاکھوں‘ کروڑوں روپوں کا نظامِ حکومت چلانے والوں کو آپ چند سو‘ چند ہزار روپوں کے اضافے سے محروم رکھ کر آزمائش میں مبتلا کر رہے ہیں۔ یہ انصاف نہیں! امیر المومنین سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ‘ سے یہ فرمان منسوب ہے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے‘ ظلم کی نہیں چل سکتی! سرکاری ملازم کو اس نوبت تک نہ لے جائیے کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائے؎
درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
بیچ منجدھار‘ تختے پر باندھ کر چھوڑ دیا اور حکم یہ ہے کہ چھینٹا تک نہ پڑے!
ایک دنیا آئی ایم ایف کے ائیر کنڈیشنڈ دفتروں اور وزارت خزانہ کے قالینی برآمدوں سے باہر بھی آباد ہے! اس دنیا میں سگار ہیں نہ نکٹائیاں! ائیر کنڈیشنر ہیں نہ کافی کے دھواں دھار کپ! کلائیو اور کرزن کی چھوڑی ہوئی جُوٹھی انگریزی ہے نہ اعداد و شمار کے گتکے کا کھیل! اس دنیا میں بچوں کی فیسیں ہیں! مکان کا کرایہ ہے! بیوی کی دوا ہے! مہینے بھر کا راشن ہے! گیس‘ بجلی اور پانی کے بل ہیں! اور ایک غم زدہ خاموش سرکاری ملازم! خوف کھائیے! اس سے نہیں ڈرتے تو اس کے خدا سے ڈریئے! یہاں نہیں تو کل کسی اور عدالت میں آپ کو اس کا ماہانہ بجٹ بنا کر کسی کے سامنے پیش کرنا ہوگا!