دل گرفتگی کا عالم ہے! ہاتھ قلم سے کنارہ کش ہونا چاہتا ہے اور قلم خیالات سے! قومیں گرتی ہیں! یہاں تک کہ پاتال آ جاتا ہے تو رُک جاتی ہیں! مگر ہم، بحیثیت قوم، پاتال پر آ کر بھی رُک نہیں رہے! نیچے ہی نیچے جا رہے ہیں! اخلاق، شائستگی، شرافت، سب کچھ ختم ہو گیا ہے! دلیل گالی سے شروع ہوتی ہے۔ گالی پر ختم ہوتی ہے! طعن و تشنیع، دشنام طرازی، لُچپن، جوتم پیزار! اور یہ سب ان کا حال ہے جن کا شمار پڑھے لکھوں میں ہو رہا ہے! ناخواندہ ان سے بدرجہا بہتر ہوں گے!
اس میں شک نہیں کہ گنتی کے چند شرفا اس عامیانہ طرزِ گفتگو کے جبراً عادی ہو چکے مگر کبھی کبھی صدمہ اس طرح آتا ہے کہ پیس کر رکھ دیتا ہے! ایک شریف انسان ہے۔ سیاست سے بھی تعلق ہے۔ ایک عرصہ سے اخبارات میں لکھ بھی رہے ہیں۔ اس کالم نگار سے ان کا تعارف ہے نہ ملاقات۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک فریاد پوسٹ کی کہ لاہور کے نجی ہسپتال کورونا کے مریضوں سے لاکھوں روپے ایڈوانس مانگ رہے ہیں۔ اس پر ایک کمنٹ یہ تھا : ''اوئے لعنتی! ہسپتال کا نام بھی بتا‘‘!
زیادہ شرمناک بات یہ کہ کسی نے اپنے کمنٹ میں اس طرزِ تخاطب کی مذمت کی نہ بیزاری کا اظہار!!
ایک دن اور ایک رات اس کالم نگار کے ہاتھ کانپتے رہے! یا خدا! ہم کہاں پہنچ گئے ہیں! اور یہ تو وہ کمنٹ ہے جو کالم میں نہ چاہتے ہوئے بھی، لکھا جا سکتا ہے! ایسی مغلظات بکی جا رہی ہیں اور اس قدر افراط سے کہ انسان حیران ہوتا ہے کہ آسمان سے پتھروں کی بارش کیوں نہیں ہو رہی، زمین دھنس کیوں نہیں رہی! کوئی کسی کو ولدیت پر اشتباہ کا اظہار کر رہا ہے! کوئی کسی کی پردہ نشین کے بارے میں ناقابلِ بیان، ناقابلِ یقین، انگارے منہ سے نکال رہا ہے! کوئی کسی کے بزرگ، پیر، استاد کے بارے میں اشتعال انگیز الفاظ استعمال کر رہا ہے! عدم برداشت اور بات ہے! یہ تو عدم برداشت سے کوسوں آگے تک معاملہ پہنچ چکا ہے! سوشل میڈیا اوباش خانے میں بدل چکا ہے! اخبارات کی ویب سائٹس پر کالموں کے نیچے کمنٹس میں لوگ گالیاں لکھ رہے ہیں۔ آئی ٹی والے ایڈٹ کر کر، تھک چکے! ویب سائٹس والے ایک کو بلاک کرتے ہیں تو اس کی جگہ دوسرا اوباش آ جاتا ہے!
رات دن دہانوں سے آگ کے بھبکے نکل رہے ہیں۔ کالم نگاروں پر بُرا وقت آیا ہے۔ لفافہ صحافی کی اصطلاح یوں استعمال ہو رہی ہے جیسے اس ملک میں ہر لکھنے والا، دوسروں کے سامنے، گواہ بنا کر لفافے وصول کر رہا ہے! خدا کے بندو! جس پر الزام لگا رہے ہو، اس کے گناہ ہلکے اور اپنا نامۂ اعمال سیاہ کر رہے ہو! تم لفافہ صحافی کہہ کر بھول چکے مگر کل وہ خدا کی عدالت میں تم سے اس الزام، اس بہتان، اس افترا کا ثبوت مانگے گا۔ تم منہ کی کھائو گے اور اوندھے پڑے ہوگے!
لکھنے والا ڈاکٹر ہے تو ڈاکٹری کے پورے شعبے کو گالیاں دی جا رہی ہیں! لکھنے والا پروفیسر ہے تو کمنٹس میں شعبۂ تعلیم کی ایسی تیسی کی جا رہی ہے۔ سرکاری ملازم ہے تو اسے رشوت خور قرار دیا جا رہا ہے! پیشہ ور صحافی ہے تو صحافت ہی کو سرے سے شرمناک قرار دیا جا رہا ہے! اصل موضوع پر کوئی نہیں بات کرتا! کسی کے بارے میں ذاتی معلومات حاصل ہیں تو ان کی بنیاد پر زبانِ طعن دراز کی جا رہی ہے! تیس تیس، چالیس چالیس سال صحافت کے شعبے سے جو وابستہ رہے ہیں ان کی عزت وہ اٹھائی گیرے اچھال رہے ہیں جن سے ان کے اپنے محلّہ دار پناہ مانگتے پھرتے ہیں!
کیا یہ لوگ اپنے گھروں میں یہی زبان استعمال کرتے ہیں؟ کیا اپنے اعزہ و اقربا کو مخاطب کرتے وقت بھی ایسے ہی الفاظ کا استعمال کرتے ہیں؟ کیا یہ اپنی روزمرہ کی گفتگو میں، اپنی دکانوں میں، اپنے کارخانوں، دفتروں، سکولوں، کالجوں، مدرسوں میں ایک دوسرے سے بات کرتے وقت اسی طرح مخاطب کرتے ہیں؟ کیا انہیں یہی سکھایا گیا ہے کہ فلاں کے باپ کی تلاش جاری ہے اور فلاں کی ماں غیرت کے نام پر قتل کر دی گئی؟
تم سُنّی ہو یا شیعہ، بریلوی ہو یا دیو بندی، مسلم لیگی ہو یا جیالے، تحریک انصاف کے ہو یا جے یو آئی اے، کے پنجابی ہو یا سندھی، بلوچی ہو یا پختون، کراچی کے ہو یا گلگت کے، تم جو کچھ بھی ہو، تمہارے بزرگ، تمہارے پیشوا، تمہارے استاد، تمہارے لیڈر یہی لفظیات استعمال کرتے تھے؟تم امیرالمومنین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ پر جان چھڑکتے ہو! انہوں نے تو اُس دشمن کو چھوڑ دیا تھا جس نے ان کے رخِ انور پر تھوکنے کی جسارت کی تھی! کجا کہ اسے کچھ کہتے! امیرالمومنین حضرت عثمانؓ نے جان دے دی مگر قتل کرنے والوں کو ایک لفظ بُرا نہ کہا! امام شافعیؒ فرماتے ہیں، جب بھی امام جعفر صادقؓ کی خدمت حاضر ہوا، نماز میں مشغول ہوتے یا تلاوت میں۔
پھر قریب کا زمانہ دیکھ لو! کیا قائداعظم اور لیاقت علی خان کی ایسی زبان تھی! قائداعظم کو عمر بھر کسی سے اپنے کہے ہوئے الفاظ پر معذرت کرنا پڑی نہ الفاظ واپس لینا پڑے۔ یہ طرزِ تخاطب تم نے کہاں سے سیکھا؟ کس سے اخذ کیا؟ کہتے ہیں طرزِ گفتگو خاندانی پس منظر کا عکّاس ہوتا ہے۔ کیا خدانخواستہ، اب ہماری اکثریت کا خاندانی پس منظر مشکوک ہو چکا ہے؟ اناللہ و انا الیہ راجعون ۔ خدا کا خوف کرو! تمہارے یہ غلیظ کمنٹ، یہ گالیاں، یہ دوسروں کی ولدیت اور دوسروں کے حسب نسب پر ناگفتہ بہ حملے، عورتیں بھی پڑھتی ہیں، بچے بھی، بزرگ بھی! اب تو بڑی بوڑھیاں بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں! کچھ شرم کرو! پاسِ ادب نہیں تو اُس موت ہی کا خیال کرو جو چاروں طرف رقص کر رہی ہے! اب تو شرح اموات، چوبیس گھنٹوں میں سوا سو تک پہنچ چکی ہے! ابھی تو اوپر جا رہی ہے! یہ وقت نامۂ اعمال گندا کرنے کا ہے یا سنوارنے کا؟ تم اگر اب تک زندہ ہو تو اس زندگی کا کیا فائدہ جو دوسروں کے لیے اذیت کا سامان بنے؟
اور یاد رکھو! تمہاری گالی سے زرداری کو، نواز شریف کو، عمران خان کو، بلاول کو، مولانا فضل الرحمن کو کچھ نقصان نہیں پہنچنے والا! تم ان کو گالیاں دے کر اپنے عالمِ نزع کو درد ناک سے درد ناک تر کر رہے ہو! اختلاف کرو! گالی کیوں دیتے ہو؟ آج مریم نواز سیاست میں ہے۔ کل بے نظیر سیاست میں تھیں۔ ان کے لیے غلط الفاظ استعمال کرتے وقت یہ نہ بھولو کہ کل، کل نہیں تو پرسوں، پرسوں نہیں تو اس کے بعد، تمہارے گھر کی کوئی خاتون بھی سیاست میں داخل ہو سکتی ہے! تو کیا تم پسند کرو گے کہ اس کے لیے کل لوگ وہی زبان استعمال کریں جو آج تم بھٹو اور نواز شریف کی بیٹیوں کے لیے استعمال کر رہے ہو؟ اس کالم نگار کو مریم نواز سے ایک سو دس فیصد اختلاف ہے۔ بے نظیر بھٹو کبھی اس کی پسندیدہ رہنما نہیں رہیں۔ مگر خدا کی پناہ! کہ پاکستان کی ان بیٹیوں کیلئے کوئی غیر پارلیمانی لفظ استعمال کرنے کا کبھی سوچا بھی ہو! یاد رکھو! اس ملک کی ہر بیٹی تمہاری بیٹی ہے! ہر ماں تمہاری ماں ہے! ہر بہن تمہاری بہن ہے! دوسروں کی خواتین پر زبانِ طعن دراز کرو گے تو خود بھی محفوظ نہیں رہو گے۔ مجنوں پر سنگ اٹھاتے وقت اپنے سر کا بھی خیال کرلو! تمہارے کانوں میں تو یہ بول ڈالے گئے تھے ع
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سُن کر دعائیں دیں
تو پھر سوچو کہ کس کی پیروی کر رہے ہو؟ رہا یہ معاملہ کہ کون سچا ہے اور کون جھُوٹا، کون حق پر ہے اور کون باطل پر؟ تو یہ فیصلہ تم نے نہیں کرنا! نہ کسی نے تمہیں کہا ہے کہ فیصلہ کرو! صائب تبریزی کئی سو سال پہلے کہہ چکا؎
ای کہ مشغول بہ سنجیدنِ مردم شدہ ای
دست بردار ازیں کار کہ میزان آنجاست!
لوگوں کو جانچنے کا کام تم نے سنبھال لیا، حالانکہ اعمال تولنے والا ترازو تو کہیں اور ہے!