جس محترم شخصیت کو جناب ِوزیراعظم نے ملک کے تین چوتھائی حصے کا والی تعینات فرمایا ہے‘ کیا وہ اسے اپنے ہسپتال یا اپنی یونیورسٹی کا چیف ایڈمنسٹریٹر لگانا پسند فرمائیں گے؟ کیا وہ اجازت مرحمت فرمائیں گے کہ کوئی ہسپتال ان کی ذاتی دولت سے تعمیر ہو اور اس پر تختی ان کے کسی ملازم کے باپ کی لگا دی جائے؟ نہیں معلوم ان بنیادی اور اہم سوالوں کے جواب ملیں گے یا نہیں؟ مگر مناسب سمجھا کہ بی بی باربرا ٹک مین سے پوچھ لیں۔
باربرا 1912 میں امریکہ میں پیدا ہوئی۔ والد امیر کبیر شخص تھا۔ باربرا کا نانا صدر وُڈ رو ولسن کے عہد میں سلطنتِ عثمانیہ میں امریکی سفیر تھا۔ باربرا نے دنیا کے بہت سے بڑے بڑے ممالک دیکھے۔ بہت سی کتابیں لکھیں۔ چین‘ ہسپانیہ‘ میکسیکو‘ عالمی جنگیں۔ سب اس کا موضوع رہے۔ مگر ایک طلسماتی کام جو اُس نے کیا وہ اس کی تصنیف ''مارچ آف فولی‘‘ ہے۔ یعنی حماقتوں کا مارچ! جو اصول باربرا نے اس کتاب میں بتایا وہ قدم قدم پر درست ثابت ہوتا ہے۔ خاص طور پر ہمارے جیسے ملکوں میں!
تاریخی واقعات سے باربرا اس نتیجے پر پہنچی کہ فرد اپنی زندگی میں جو فیصلے کرتا ہے‘ وہ عقل مندی کی بنیاد پر کرتا ہے اور حکمت اور دانائی کو پوری طرح بروئے کار لا کر کرتا ہے۔ کاروبار کون سا کرنا ہے؟ کہاں کرنا ہے؟ مکان کہاں بنانا ہے؟ کس ملک میں آباد ہونا ہے؟ بچوں کی شادیاں کہاں کہاں‘ کس کس خاندان میں کرنی ہیں۔ ملازم کس کو رکھنا ہے؟ مزارعوں‘ ہاریوں کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے؟ یہ سارے فیصلے خوب سوچ سمجھ کر دانائی سے کیے جاتے ہیں۔ مگر یہی فرد‘ یا افراد‘ جب حکومت میں آتے ہیں تو ان کے فیصلوں سے حکمت‘ دانائی‘ عقل مندی‘ سب کچھ رخصت ہو جاتا ہے۔ اس نظریے کو ثابت کرنے کیلئے باربرا تاریخ سے کئی مثالیں دیتی ہے۔ مثلاً امریکہ کی ویت نام پالیسی حماقتوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس سے پہلے امریکہ جب برطانوی کالونی تھا تو برطانیہ نے پے در پے حماقتیں کیں اور یہ کالونی اس کے ہاتھوں سے نکل کر ''ریاست ہائے متحدہ امریکہ‘‘ میں تبدیل ہو گئی۔ دلچسپ ترین مثال‘ حکومتی حماقت کی جو باربرا پیش کرتی ہے وہ لکڑی کے گھوڑے کی ہے! یہ کہانی ہم سب نے سنی ہوئی ہے۔ یونانی جب ٹرائے کا شہر‘ طویل محاصرے کے باوجود فتح کرنے میں ناکام ہوئے تو انہوں نے چال چلی۔ لکڑی کا بنا ہوا بڑاسا گھوڑا‘ فصیل کے باہر چھوڑ کر‘ بظاہر پسپا ہو گئے۔ شہر پر ''سِٹی کونسل‘‘ کی حکومت تھی۔ اس حکومت نے فیصلہ کیا کہ حملہ آور بھاگ گئے‘ اور یہ گھوڑا مالِ غنیمت ہے‘ اسے شہر کے اندر لے جائیں۔ لوگوں نے بہت منع کیا‘ بہت سمجھایا کہ یہ دشمن کی چال لگتی ہے۔ اسے فصیل کے اندر نہ لائو۔ مگر حکومت نہ مانی۔ اسے اندر لے آئی۔ رات کو اس میں چھپے ہوئے یونان باہر نکلے۔فصیل کے دروازے کھول دیئے اور یوں جو شہر دس سال کی فوج کشی سے فتح نہ ہو سکا‘ ایک رات ہی میں مغلوب ہو گیا۔
ہمیں دنیا سے کیا غرض! اپنا گھر سنبھال لیں تو غنیمت ہے۔ اپنے وطن سے ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے باربرا کا نظریہ درست ثابت ہوتا ہے۔ غور کیجیے‘ شریف خاندان بنیادی طور پر لوہے کو ڈیل کرتے تھے۔ اسی فن سے ان کے کاروبار کا آغاز ہوا۔ بے پناہ ترقی کی۔ بھٹی سے کام شروع کیا اور کارخانوں کے انبار لگا دیئے۔ مگر سالہا سال کی حکومت میں ایک فیصلہ بھی ایسا نہ کیا کہ ملک کی واحد سٹیل مل بھی اسی طرح ترقی کر جاتی جیسے ان کے ذاتی کاروبار نے کی۔
قومی ایئر لائن کی مثال لے لیجیے۔ شاہدخاقان عباسی صاحب کی ذاتی ایئر لائن ترقی کرتی گئی۔ وہ کئی بار حکومت میں آئے مگر کوئی نسخۂ کیمیا قومی ایئر لائن پر نہ آزما سکے۔ ایک ایئر لائن مسلسل نیچے سے اوپر جاتی رہی۔ دوسری مسلسل اوپر سے نیچے آتی رہی!
جو بھی حکمران آیا‘ اس کے اثاثے بڑھتے رہے۔ خاندان امیر سے امیر تر ہوتے گئے۔ ملک غریب سے غریب تر ہوتا گیا۔ حکمران خاندانوں کے اثاثے بیرونِ ملک بڑھتے رہے‘ ملک مقروض ہوتا گیا۔
حکومت نے سب سے بڑا صوبہ ایک ایسے شخص کے سپرد کر دیا جس کا کوئی تجربہ تھا نہ ایکسپوژر! تحصیل ناظم سے براہ راست وزارت علیا! کیا ایسے فرد کو وہ اپنے ہسپتال یا اپنی یونیورسٹی کا انچارج بناتے؟ اس سوال کا جواب ہمیں بھی معلوم ہے اور آپ کو بھی!! وزیراعظم نے دن رات محنت کر کے ہسپتال بنایا۔ کسی ملازم کے والد کے نام پر نہیں‘ اپنی والدہ محترمہ کے نام پر نام رکھا۔ یہ ان کا حق تھا۔ سرکاری رقم سے جو ہسپتال بنا‘ اس پر وزیراعلیٰ کے والد کے نام کا کیا حق تھا؟ قوم کا باپ تو قائداعظم تھے! ان کے نام پر رکھتے! مادرِ ملت کے نام پر رکھ لیتے۔ افسوس! صد افسوس!
دوسروں پر یہی تنقید ہوتی رہی! خود آئے تو یہی کچھ کیا۔ بہت سوں کے نزدیک یہ کوئی بڑا ایشو نہیں! مگر یہ بہت بڑا ایشو ہے! یہ علامتیں ہیں‘ جن سے سفر کی سمت کا علم ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صوبائی اسمبلی نے اس کے لیے قرارداد پیش اور پاس کی! خوشامد کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈالی جاتی ہے‘ ان کی قراردادیں قبول نہیں کی جاتیں! ایک شخص نے امیرالمومنین عمر فاروقؓ کی خوشامد کی۔ آپ جھُکے‘ مٹھی میں مٹی اٹھائی اور اس کے منہ میں ڈال دی۔ مگر وہ اصل ریاستِ مدینہ تھی! یہاں صرف ریاست مدینہ کا نام لیا جاتا ہے! نام اور کام میں‘ اصل اور نقل میں‘ فرق ہوتا ہے!؎
بھٹک رہے ہیں مثالوں میں اب جو خاک بسر
تو اس لیے کہ ہمیں اصل سے جدائی ہوئی
رویوں میں یہ فرق کیسے آ جاتا ہے؟ اپنا پیسہ ہو تو ایک ایک پائی سوچ کر خرچ کی جاتی ہے۔ ریاست کا خزانہ لٹا دیا جاتا ہے! ریاستِ مدینہ کا اولین اصول یہ تھا کہ سرکاری پیسے کو اسی طرح سوچ سمجھ کر‘ سینت سینت کر‘ استعمال کرو جس طرح اپنا کرتے ہو! اسی پر عمل ہوتا رہا۔ خلیفہ بیت المال سے اپنی گزر بسر کے لیے اتنا ہی لیتے جتنا کوئی مزدور! یہ اصول خلیفۂ دوم نے وضع کیا کہ صوبے کا مالیات کا سربراہ‘ صوبے کے گورنر کے تحت نہیں ہوگا۔ وہ براہِ راست خلیفہ کو رپورٹ کرے گا۔ امیر المومنین علی مرتضی کرم اللہ وجہہ نے یہی اصول برقراررکھا۔ ایک صوبے کا گورنر ان کا قریبی عزیز تھا۔ اس نے صوبے کے سرکاری خزانے سے قرض لیا۔ مالیات کے سربراہ نے مقررہ مدت کے بعد واپسی کا تقاضا کیا۔ گورنر نے لیت و لعل سے کام لیا۔ مالیات کے سربراہ نے امیر المومنینؓ کو رپورٹ کی۔ آپ کے عمائدین نے مشورہ دیا کہ حالات خراب ہیں۔ شام کی فوج سے مقابلہ ہے۔ اس معاملے کو جانے دیں‘ مگر آپ نے فرمایا: نہیں! سرکاری خزانے کے ایک ایک پیسے کی حفاظت ہوگی۔ گورنر‘ بھاگ کر مکہ چلا گیا اور ایک روایت کے مطابق شامی فوج سے جا ملا۔ مگر سرکاری پیسے میں خیانت یا اس کے ضیاع کو امیر المومنین نے برداشت نہ کیا۔
پاکستان میں اس وقت جو جنرل فنانشل رُولز (GFR) رائج ہیں ان میں یہ اصول سرِفہرست ہے کہ خرچ کرتے وقت سرکاری رقم کو اسی احتیاط سے خرچ کیا جائے جس طرح ذاتی رقم خرچ کی جاتی ہے۔ یہ سختی فرنگیوں نے آ کر رائج کی۔ ہمارے بادشاہ تو سونے میں تولتے تھے اور موتیوں سے منہ بھرتے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی آئی تو کمپٹرولر اینڈ اکائونٹنٹ جنرل ساتھ لائی۔ اس کی کارکردگی دیکھنی ہو تو سکندر مرزا کے فرزند ہمایوں مرزا کی تصنیف ''پلاسی سے پاکستان تک‘‘ پڑھیے۔
پاکستان بنا تو ایک عرصہ تک ان اصولوں پر سختی سے عمل ہوتا رہا۔ بارہا گورنر جنرل یا وزیراعظم کی بات ماننے سے وزارتِ خزانہ نے معذرت کی! مگر پھر وزارتِ خزانہ حکمرانوں کی کنیز بن گئی۔ حکمرانوں کی کنیز نہ بنتی تو یہ نوبت نہ آتی کہ آج آئی ایم ایف کی کنیز ہے!