راجہ ٹوڈر مل 1550ء میں پیدا ہوا۔ کچھ کہتے ہیں چونیاں ضلع لاہور کا تھا۔ کچھ اودھ کا بتاتے ہیں۔ یتیم تھا اور مفلس‘ مگر ٹیلنٹ اتنا تھا کہ اکبر اعظم نے اسے پوری سلطنت کا وزیر خزانہ مقرر کیا۔ اس سے پہلے شیر شاہ سوری نے روہتاس کے قلعے کی تعمیر کی نگرانی اسی کے سپرد کی تھی۔ جنگوں میں بھی بڑے بڑے معرکے سر کیے مگر اصل کارنامہ اس کا مالیات میں تھا۔ پٹواری سسٹم جو آج بھی جاری ہے، اسی نے شروع کیا۔ زرعی پیداوار کا سروے کیا۔ ٹیکس کی شرح مقرر کی۔ ماپ تول کے پیمانے فکس کیے۔ لگان کے حوالے سے صوبوں کو سرکار اور سرکار کو پرگنوں میں بانٹا۔ یہ سب اس کے کارنامے ہیں مگر ایک کارنامہ اس نے ہندوؤں کی ترقی کے لیے ایسا سرانجام دیا کہ اس کا ذکر بطور خاص لازم ہے۔
راجہ ٹوڈر مل جان گیا تھا کہ ترقی کا راستہ وقت کے ساتھ چلنے میں ہے نہ کہ رجعت پسندی میں۔ اس نے دھوتی اتار پھینکی اور وہی لباس اپنا لیا جو ترک امرا پہنتے تھے۔ وہ ایک مستقبل بین شخص تھا۔ اسے نظر آ رہا تھا کہ مغل حکومت جلد جانے والی نہیں۔ کاروبار مملکت کی زبان فارسی تھی۔ ہندو فارسی سے نا بلد تھے اور کتراتے بھی تھے۔ اس نے انہیں سمجھایا کہ ترقی کرنی ہے اور عہدے حاصل کرنے ہیں تو سرکاری زبان سیکھو تا کہ تورانی اور ایرانی امرا کے برابر بیٹھ سکو۔ شروع میں ہندوؤں میں اضطراب پیدا ہوا۔ مشکلات بھی پیش آئیں۔ مگر آخر کار اس کا نظریہ غالب آیا۔ ہندوؤں نے فارسی سیکھی اور حکومت میں دخیل ہوئے۔ وزیر بنے اور بیوروکریٹ بھی۔ ہندوؤں میں بڑے بڑے فارسی سکالر، مصنف، مترجم اور اساتذہ ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنے جدی پُشتی کتب خانے میں بہت سی ایسی کتابیں دیکھی ہیں جن کے مصنف ہندو تھے۔ انشائے مادھو رام کا نسخہ اب بھی ہمارے پاس ہے۔ ایک سکھ نے فارسی گرامر، فارسی نظم میں لکھی۔ اس کتاب کا نام، اگر ہمارا حافظہ غلطی نہیں کر رہا تو 'جواہرالترکیب‘ تھا۔ اس کا ایک مصرع ابھی تک ذہن میں محفوظ ہے۔ این اشارہ بر قریب و آن اشارہ بر بعید۔
تین سو سال بعد انگریز حکومت نے فارسی کی صف لپیٹی۔ سرکار اور روزگار دونوں کی زبان انگریزی ہو گئی۔ مسلمان انگریزی سے اسی طرح الرجک تھے جیسے مغل دور کے اوائل میں ہندو، فارسی سے تھے۔ اس الرجی کے اسباب بہت سے تھے جن پر بحث کا یہاں موقع نہیں۔ ہندو پہلے بھی ایک اجنبی زبان (فارسی) سیکھ کر ترقی کر چکے تھے۔ غیر زبان سیکھنے کی صلاحیت ان میں موجود تھی؛ چنانچہ دھڑا دھڑ انگریزی سیکھنے لگ گئے۔ مائنڈ سیٹ کا بھی فرق تھا۔
1824ء میں جب انگریزی حکومت نے کلکتہ میں ہندوؤں کے لیے ایک سنسکرت کالج قائم کیا تو ہندوؤں نے عرض داشت پیش کی کہ ہمیں سنسکرت کی نہیں انگریزی تعلیم کی ضرورت ہے، حکومت اس کا بندوبست کرے۔ اس کے برعکس 1835ء میں مسلمانوں نے جو عرض داشت پیش کی اس کا لب لباب یہ تھا کہ انگریزی تعلیم سے سرکار ہمیں عیسائی بنانا چاہتی ہے۔ تعلیم میں مسلمان ہندوؤں سے بہت پیچھے تھے۔ 1875ء میں پورے ہندوستان میں سترہ مسلمان بی اے تھے اور تین ایم اے‘ جبکہ سات سو پندرہ ہندو بی اے تھے اور ایک سو اکتیس ایم اے۔
اس صورت احوال کو سر سید احمد خان نے بھانپ لیا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ انگریز جلد جانے والے نہیں اور اگر مسلمان ہمعصر تعلیم میں پیچھے رہ گئے تو انگریزوں کی غلامی تو ہے ہی، ہندوؤں کے بھی دست نگر ہو جائیں گے؛ چنانچہ انہوں نے علی گڑھ کالج قائم کیا اور مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کیا۔ اس راستے میں سر سید کو ناقابل یقین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کفر کے فتوے لگے۔ مسلسل پروپیگنڈا کیا گیا کہ وہ 'کرسٹان‘ ہو چکے ہیں‘ مگر سر سید اور ان کے ساتھیوں نے عزیمت دکھائی‘ گالیوں پر صبر کیا اور فتووں کو جھیلا۔ صرف انیس برس میں علی گڑھ کالج نے ایک سو چھبیس گریجوایٹ اور ایک سو چوہتر انڈر گریجوایٹ پیدا کیے۔ انیس مسلمانوں نے وکالت کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ سر سید کی دل سوزی اور تشویش کا اندازہ لگائیے کہ 1880ء میں لکھا: ہم نے سنا ہے کہ ہائی کورٹ کی وکالت کے امیدواروں کی فہرست میں ایک بھی مسلمان نہیں‘ یہ بھی سنا ہے کہ ایک لائق تحصیل دار، عالمِ علومِ مشرقی، کو امیدوارانِ ڈپٹی کلکٹر کی فہرست میں اس لیے جگہ نہیں مل سکی کہ وہ انگریزی نہیں جانتا تھا۔ تحریک پاکستان میں علی گڑھ یونیورسٹی نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ قائدِ اعظم نے اسے مسلم انڈیا کا اسلحہ خانہ قرار دیا تھا۔
اردو ادب کے حوالے سے بھی سر سید کا اپنا مقام ہے۔ اس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ قرآن پاک کی تفسیر میں ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے‘ مگر اس اختلاف سے ان کی دوسری خدمات پر پانی نہیں پھیرا جا سکتا۔
سر سید پہلے شخص تھے جنہوں نے کانگرس کے عزائم کو بھانپا۔ جب ہندو انجمنوں نے اردو رسم الخط کی مخالفت کی تو سر سید کو کھٹکا لگ گیا تھا‘ پھر بھی وہ اتحاد کے لیے کوشش کرتے رہے۔ علی گڑھ کالج میں ہندو طلبا کو بھی داخلہ لینے کی آزادی تھی۔ شروع کے بیس برسوں ہی میں دو سو ہندو طلبہ مختلف امتحان وہاں سے پاس کر چکے تھے مگر جلد ہی سر سید کو کھُل کر کہنا پڑا کہ کانگرس کے عزائم مسلمانوں کے لیے خطرناک ہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ لیجسلیٹو کونسل (اُس وقت کی گویا اسمبلی) کے لیے اگر عام انتخابات منعقد کیے گئے تو کسی طرح مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں کے برابر نہیں ہو سکتی کیونکہ ہندوؤں کی تعداد بمقابلہ مسلمانوں کے چوگنی ہے۔ پس جو طریقہ انتخاب کا قرار دیا جائے گا‘ اس سے اگر ایک مسلمان ممبر ہو گا تو چار ہندو ہوں گے۔
غور کیجیے، کیا یہی دلیل بعد میں تحریک پاکستان کی بنیاد نہیں بنی؟ متحدہ ہندوستان میں ون پرسن ون ووٹ کا فارمولا مسلمانوں کے لیے سیاسی موت کا پیغام ہوتا۔ ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین اپنی کتاب ''حیات اقبال عہد بہ عہد‘‘ کے حصہ اول میں‘ جو اقبال اکادمی پاکستان لاہور نے 2015ء میں چھاپی، لکھتے ہیں: 29 دسمبر 1928ء کو دہلی میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس کا چار روزہ اجلاس سر آغا خان کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں نہرو رپورٹ کی مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف قرارداد منظور کی گئی۔ اقبال نے قرارداد کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہوں کہ نصف صدی قبل سر سید احمد خان مرحوم نے مسلمانوں کے لیے جو راہ عمل قائم کی تھی وہی صحیح تھی۔ تلخ تجربوں کے بعد اب ہمیں اس راہ عمل کی اہمیت محسوس ہو رہی ہے۔ ہمیں اب علیحدہ طور پر ایک پولیٹیکل پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے تین معمار ہیں۔ سر سید، قائد اعظم اور علامہ اقبال۔ ہندو اکثریت کے ظلم سے بچاؤ کی پہلی اینٹ سر سید نے رکھی تھی۔ کراچی ایئر پورٹ قائد اعظم کے نام پر ہے اور لاہور ایئر پورٹ اقبال کے نام پر! ہم تجویز کرتے ہیں کہ اسلام آباد ایئر پورٹ کا نام سر سید ایئر پورٹ رکھا جائے۔ ہمارے سیاستدانوں کی (کیا ماضی کے اور کیا حال کے) دُور کی نظر کمزور ہے۔ انہیں اداروں کے نام رکھتے وقت صرف اپنے قریبی رشتے دار دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر بھی کسی کے والد کے نام کی تختی لگ جائے، سر سید کی خدمات کا احساس اور شعور رکھنے والوں کو اس مطالبے کی حمایت کرنی چاہیے۔ کچھ لوگ سر سید کے مخالف بھی ہیں۔ بہت سے لوگ یہاں قائد اعظم کے بھی مخالف ہیں۔ مگر شورش کاشمیری نے کہا تھا:
شورش! ترے خلاف زمانہ ہوا تو کیا
کچھ لوگ اس جہاں میں خدا کے خلاف ہیں!