یہ’’ لڑکے‘‘ کب بڑے ہوں گے ؟

شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال اور مولانا فضل الرحمن جو چاہیں ‘ کہتے رہیں‘ سچ یہ ہے کہ ایاز صادق نے جو کہا‘ نہیں کہنا چاہیے تھا۔یہ دلیل کہ اشتعال دلایا گیا‘ یا غدار کہا گیا‘ یا یہ کہنا کہ ایاز صادق نے جو کچھ کہااس کی نوبت کیوں آئی ‘ بودی دلیل ہے۔ ارے بھائی! آپ تو سرد و گرم چشیدہ تھے!بال آپ کے سیاست میں سفید ہوئے۔ سیاست تو نام ہی صبر کا ہے اور تدبر کا ! سیاست اپنے آپ کو کمپوز رکھنے کا اور مشتعل نہ ہونے کا نام ہے۔ اگر آپ نے بھی یہی کچھ کرنا تھا تو پھر آپ میں اور شبلی فراز اور شہباز گل جیسے نوآموز نوجوانوں میں کیا فرق رہا؟ غلط کہا ایاز صادق نے‘ خواہ کسی کے کہنے پر کہا یا اپنے طور پر کہا! وضاحتیں کرتے پھریے مگر تیر کمان سے نکل چکا۔ آپ نے گیند جس کی طرف بھی پھینکی ‘ کیچ بہر حال بھارت نے کر لی۔ عاقل ایسی بات ہی نہیں کرتے جس کی بعد میں سو وضاحتیں کرنا پڑیں! آپ نے پی ڈی ایم کیلئے وہ کام کیا ہے جو نادان دوست نے کیا تھا۔دوست کے چہرے سے مکھی ہٹانے کیلئے چہرے پر پتھر دے مارا تھا۔ مکھی اُڑ گئی اور چہرہ لہو لہان ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ ایک خفیہ اجلاس میں جو کچھ ہوا‘ آپ نے اسے کیوں فاش کیا ؟ آپ قومی نمائندے کے طور پر اس میں شریک تھے۔ یہ ایک امانت تھی۔ اسے عام کر کے آپ یقیناخیانت کے مرتکب ہوئے۔ کم از کم یہ غلطی تو آپ کو تسلیم کر لینی چاہیے۔
ابھی تو پی ڈی ایم ‘ برخوردار اویس نورانی کوبھگت رہی تھی ! گدی نشینی میں یہی تو مسئلہ ہے کہ بیٹا جتنے پانی میں بھی ہو‘ گدی پر بیٹھ جاتا ہے۔ اویس نورانی ‘ مولانا نورانی کے خلف الرشید ہیں۔کہاں مولانا نورانی مرحوم کی منجھی ہوئی سیاست اورمتانت اور کہاں ان کے جانشین ! تجربہ نہ گہرائی! سیاست میں مار کھائی نہ مضمرات سے آگاہی ! نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ بیٹھے بٹھائے پی ڈی ایم کا بڑا سٹیج بھی میسر آگیا۔ آؤدیکھا نہ تاؤ‘ آزاد بلوچستان کا نعرہ لگا دیا۔ اس کے بعد وہی وضاحتوں کا سلسلہ ! 
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر
اور کیا کہنے جناب فواد چودھری کے ! خطابت کا جوش تھا یا سیاست کا‘ جو کچھ وہ کہہ گئے‘ بھارتی لیڈر اس پر ان کا شکریہ ادا کرتے پھر رہے ہیں اور اپنی حکومت کو کہہ رہے ہیں کہ اس بیان کی بنیاد پر ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو بلیک لسٹ کرائیں۔ پاکستانی حکومت کے وزیر اور ترجمان ایاز صادق کے پیچھے تو پڑ گئے ہیں‘ فواد چودھری کا نام تک نہیں لے رہے۔ ہنسایا تو ایک وفاقی وزیر نے ہے جس نے ایک ٹی وی چینل کے انٹرویو میں کہا ہے کہ فواد چودھری کی زبان جوشِ خطابت میں لڑکھڑا گئی تھی مگر اویس نورانی نے جو کہا وہ زبان کا لڑکھڑانا نہیں تھا۔ شعر تو پامال شدہ ہے مگر اس موقع پر یاد آرہا ہے ؎
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی
گویا آپ کا جانور تو جانور ہے مگر ہمارا جانور ٹامی ہے !
کاش حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو کوئی سمجھانے والا ہوتا کہ غداری کے سرٹیفکیٹ نہ بانٹیں۔ایاز صادق نے غلط کہا مگر کھیل کی ابتدا حکومت کی طرف سے ہوئی‘ جس کے پاس شاید اور کوئی دلیل ہی نہ تھی۔ اس سے پہلے بھی یہ کالم نگار عرض کر چکا ہے کہ کفر اور غداری کے الزامات اس قدر لگائے جا چکے ہیں کہ اب یہ سکہ مزید چل نہیں سکتا۔ یہاں کس کس کو کافر نہیں کہا گیا ؟کسی کے پیچھے نماز باطل قرار دی جاتی ہے۔ کسی کا نکاح توڑ دیا جاتا ہے۔ایک مسلک کے مدرسے میں دوسرے مسلک کا طالب علم نہیں داخل ہو سکتا۔ یہاں تک کہ اکثر لوگ دوسرے مسلک کے خاندان میں بچوں کی شادی تک نہیں کرتے۔ کفر کی طرح غداری کے الزامات بھی اسی فیاضی سے لگائے گئے۔کبھی بنگالیوں پر‘ کبھی پختونوں پر‘ کبھی سندھیوں پر‘ کبھی بلوچوں پر اور کبھی اردو بولنے والوں پر ! پنجاب اب تک اس اعزاز سے محروم تھا ‘ اب وہ بھی اس طویل فہرست میں شامل ہو گیاہے
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں
بھارتی اور کشمیری مسلمان کیا سوچتے ہوں گے! جو اپنے پاکستانی بھائیوں کو غدار کہہ رہے ہیں وہ انہیں کیا سہارا دیں گے ! ہماری اپنی نئی نسل اس سے کیا سبق حاصل کرے گی ؟ یہ جوتم پیزار پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے۔تہتر سال ہو چکے ابھی تک اتنی ذہنی پختگی نہیں آسکی کہ برداشت اور شائستگی سے بات کریں۔ سعدی نے تو چالیس سال کی حد مقرر کی تھی۔
چہل سال عمر عزیزت گذشت
مزاجِ تو از حال طفلی نہ گشت
کہ چالیس سال کے ہو گئے مگر بچپنا نہیں گیا۔ لگتا ہے محلے کے لڑکے لڑ رہے ہیں! اس صورتحال میں میں کیا گفت و شنید ممکن ہے؟ اور اگر ممکن ہے تو کیا اس انداز میں جو مذاکرات ہوں گے ان کا کوئی نتیجہ نکلے گا ؟وزیر اعظم اپوزیشن کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ ان سے بات کریں۔ اپوزیشن وزیر اعظم کو اس لیے خاطر میں نہیں لاتی کہ بقول اس کے‘ اصل اقتدار ان کے پاس ہے ہی نہیں۔ اس صورتحال میں ڈیڈلاک کیسے ٹوٹے گا ؟ ایک مصیبت یہ ہے کہ وزیر اعظم کے پاس کوئی جہاندیدہ سیاستدان‘ کوئی گرگ باراں دیدہ نہیں ہے جو تدبر اور حکمت عملی سے کام لے اور بات چیت کا ڈول ڈالے۔ کوئی زیرک شخص ساتھ ہوتا تو وزیر اعظم کو مشورہ دیتا کہ ''چھوڑوں گا نہیں‘‘ کہنا بند کردیں۔یہ عدالتیں ہیں جو چھوڑنے یا نہ چھوڑنے کا فیصلہ کرتی ہیں۔ یہ جمہوریت ہے‘بادشاہی نہیں۔ یہ بادشاہ اور شہنشاہ تھے جو چھوڑنے یا لٹکانے کے فیصلے خود صادر کیا کرتے تھے۔ شیخ رشید پرانے سیاستدان ہیں‘ مگر گفتگو کا جو ڈھب ان کا ہے اس سے شاید ہی خیر کا کوئی پہلو نکلے۔ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ ہفتے جو تقریر قومی اسمبلی میں کی اس سے ان کی جہاندیدگی کا نہیں ‘ پُرزور شباب کا پتہ چلتا ہے ‘ اُس شباب کا جو اصل میں کب کا جا چکا!
اپوزیشن اور حزب اقتدار دونوں کو یہی کہنے کو جی چاہتا ہے کہ ؎
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا
اس لڑائی جھگڑے میں قومی اہمیت کے مسائل توجہ سے محروم ہورہے ہیں۔ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے پر جو رد عمل آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کاآیا ہے ‘ اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس سے یو این او میں ہماری پوزیشن کمزور نہیں ہو جائے گی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ اعلان ‘ الیکشن سے بالکل پہلے کیوں ؟ الیکشن کمیشن کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے؟ کیا یہ اعلان انتخابات پر اثرانداز ہونے کیلئے کیا گیا ہے ؟ وعدہ تو جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا تھا ! اس کا کیا ہوا؟ کیا وہ بھی‘ بے شمار دوسرے وعدوں کی طرح ‘ محبوب کا وعدہ فردا تھا ؟ اور کیا جنوبی پنجاب والے دو بیوروکریٹس کی تعیناتی کو الگ صوبہ سمجھ رہے ہیں؟ تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا۔مگر آثار و قرائن چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ گلشن میں علاجِ تنگیٔ داماں ہوتا نظر نہیں آتا !!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں