حضور والا! ہم صاف پانی کے بغیر رہ لیں گے! ہم پہلے بھی دریاؤں‘ چشموں اور ندی نالوں کا پانی پیتے رہے ہیں۔ ہم نے وہ زمانے بھی دیکھے ہیں جب گھوڑوں‘ گدھوں پر گھڑے رکھ کر دس دس میل دور سے پانی لایا جاتا تھا۔ ہم نے کیڑوں، مینڈکوں، جونکوں والا پانی پیا۔ ہم نے وہ پانی بھی پیا جس کا رنگ مٹیالا ہوتا تھا، کبھی سرخ، کبھی چائے کی طرح کا! مگر ہم زندہ رہے!
بندہ پرور! ہم فاقے کر لیں گے۔ جوار، باجرے اور جو کی روٹی کھا لیں گے۔ چٹنی پر گزر بسر کر لیں گے۔ ہم نے پہلے بھی برے اور کڑے دن دیکھے ہیں۔ ہم ستوئوں، مکی کے بھُٹوں، موٹھ کی پھلیوں اور بھُنے ہوئے چنوں سے بھوک کی آگ بجھاتے رہے ہیں۔ ہم مسور اور ساگ کھانے کے عادی تھے اور پھر اُنہی کی جانب پلٹنے میں ہمیں کوئی عار ہے نہ دقت! ہم بسیار خور ہیں نہ خوش خوراک! ہمیں لذت اور مزے سے کوئی سروکار نہیں! ہم تو قوتِ لا یموت پر جیتے رہے ہیں اور پھر بھی جی لیں گے۔ انواع و اقسام کے پکوانوں سے چھلکتے ہوئے دستر خوان ہماری ضرورت کبھی بھی نہیں تھے۔
جہاں پناہ! ہمیں خوش لباسی کا عارضہ بھی لاحق نہیں! ہم تو اُس سرزمین کے بیٹے ہیں جہاں صدیوں سلے ہوئے کپڑوں کا تصور ہی نہ تھا۔ تہمد تھا یا دھوتی یا لُنگی! جسے لنگوٹی کی صورت دے دیتے تھے! یہ تو سکندر اعظم آیا تو یونانی قینچی لائے۔ آپ بے شک ہمیں لباس ہائے فاخرہ نہ مہیا کیجیے۔ ہم تار تار لباس بھی پہن لیں گے! چیتھڑے بھی اوڑھ لیں گے۔ ہمیں کُلاہ چاہیے نہ کفش! ہم تو رسیوں سے بنی ہوئی چپل پہن سکتے ہیں۔ لکڑی کی کھڑاؤں پر گزارہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں موزے درکار ہیں نہ جرابیں! دو اَن سِلی چادروں سے ہم موسموں کی سختیاں گزار سکتے ہیں!
ظلِ الٰہی! ہم اپنے بچوں کی تعلیم کے بغیر بھی زندگی کی گاڑی کھینچ سکتے ہیں! وہ پہلے بھی کھیتوں، کانوں، فیکٹریوں، کوٹھیوں اور حویلیوں میں کام کر کے جوان ہوتے تھے۔ اب بھی ایسا کر سکتے ہیں! ہم نے انہیں آکسفورڈ بھیجنا ہے نہ کیمبرج اور نہ ہی ہارورڈ! ہم ان سے مزدوری کرا لیں گے۔ انہیں قلی بنا دیں گے یا سائیس یا چوبدار! ہمارے پاس کون سی سلطنتیں ہیں کہ ہمارے بچے کل ان کے وارث بنیں گے! ہمارے پاس کاروبار ہے نہ جاگیریں۔ صنعتی ایمپائرز، نہ ساہوکارہ کہ بچے ان پڑھ ہوئے تو سنبھال نہ سکیں گے!
والا مرتبت! آپ ہمیں کچھ بھی نہ دیجیے! ہمیں بھوکا، پیاسا، ننگا رہنے دیجیے‘ مگر ہمیں بغیر قصور، قتل ہونے سے بچا لیجیے۔ ہمیں نذرِ آتش ہونے سے بچا لیجیے۔ ہمیں سڑکوں پر گھسیٹے جانے سے بچا لیجیے۔ ہمیں ہجوم گردی سے بچا لیجیے۔ ہم پتھر کھا کر نہیں مرنا چاہتے۔ ہم گھونسے، لاتیں اور ٹھوکریں کھا کر نہیں مرنا چاہتے۔ ہم گولی کا نشانہ بن کر نہیں ختم ہونا چاہتے۔
اس ملک میں کوئی حکومت ہوتی، کوئی قانون ہوتا، کوئی انصاف ہوتا، کوئی نظام ہوتا، کوئی سسٹم ہوتا تو عمران حنیف کے قاتل کو ہیرو بنانے والے، اس کی پذیرائی میں جلوس نکالنے والے، اس کا ساتھ دینے والے، تھانے پر قبضہ کرنے والے آج جیل میں ہوتے۔ تمام مکاتب فکر کے مقامی علما نے عمران حنیف کے قتل کو قتل ناحق قرار دیا۔ جلوس میں شامل ایک ایک شخص پہچانا جا رہا ہے مگر حکومت کوئی قدم نہیں اٹھا رہی۔ جانے کہاں ہے؟ ہے بھی یا نہیں! اس تحریر کا عنوان:To Whom It May Concern اسی لیے رکھا جا رہا ہے۔ ہمارا محافظ کون ہے! حکومت؟ ریاست؟ پارلیمان؟ ضلعی انتظامیہ؟ یا کوئی بھی نہیں! اگر کوئی ہوتا تو اُس بے گناہ بچے کو زندہ نہ جلایا جاتا جو جان بچانے کے لیے کھیتوں میں بھاگتا رہا‘ جسے ہجوم نے پکڑ کر زندہ نذر آتش کر دیا‘ جس کی ماں چیختی رہی‘ ہجوم کے سامنے گڑگڑاتی رہی لیکن سب نے آنکھیں میچے رکھیں۔ پھر قدرت کا نظام حرکت میں آیا۔ اسی گاؤں کے باہر تیل کا ٹینکر الٹا۔ لوگ، بے شرم لوگ، کھاتے پیتے لوگ، تیل لُوٹ کر لے جانے کے لیے پاگلوں کی طرح امڈ پڑے۔ جہاں سے بچے کو مارنے کے لیے لاؤڈ سپیکر پر لوگوں کو بلایا گیا تھا، اسی سے لوگوں کو پھر بلایا گیا کہ آؤ اور مفت تیل لوٹ لو۔ پھر آگ بھڑکی، ایسی آگ جو بجھنے والی نہیں تھی۔ جس جگہ بچہ بھاگتا رہا اور پکڑا گیا اور جلایا گیا اُسی جگہ، ٹھیک اُسی جگہ، جلانے والوں کو آگ نے گھیرا اور راکھ کر دیا۔ عمران حنیف کے قاتل کا جلوس نکالنے والوں کو نہ پکڑا گیا تو قدرت کا نظام پھر انگڑائی لے گا۔
خوشاب کے لوگوں نے جو بویا ہے، اسے کاٹ کر رہیں گے۔
ہم میں سے ہر ایک کی زندگی اُس نرم دھاگے سے بندھی ہے جس کا دوسرا سرا ہجوم کے ہاتھ میں ہے! بے رحم، بپھرے ہوئے اندھے بہرے ہجوم کے ہاتھ میں! ہجوم ہماری زندگیوں کا مالک ہے! ہم میں سے جس نے بھی اپنے ماتحت کو نوکری سے نکالا، کسی کی بد دیانتی کو چیلنج کیا، کسی میڈیکل رَیپ کو ملنے سے انکار کیا، کسی کی فائل پر کوئی جائز اعتراض کر دیا، کسی کو اپنی زمین پر ناجائز قبضہ نہ کرنے دیا، کسی سے ہمارا کسی عام دنیاوی معاملے پر جھگڑا ہو گیا تو ہم پر کوئی بھی، کسی بھی نوعیت کا حساس الزام لگ سکتا ہے، کسی لاؤڈ سپیکر کے بھبکے میں جان پڑ سکتی ہے، پھر خیر نہیں! پھر جو کچھ کرنا ہے ہجوم ہی نے کرنا ہے! اس کی مرضی ہے تو پٹرول چھڑک کر آگ لگا دے (ایسا ہوا ہے) چاہے تو گلیوں میں گھسیٹ گھسیٹ کر مار دے (ایسا بھی ہوا ہے) چاہے تو مکوں، گھونسوں، ٹھوکروں‘ ڈنڈوں‘ تھپڑوں سے جان لے لے (یہ بھی ہوا ہے) چاہے تو تھانے پر دھاوا بول کر گھسیٹ کر باہر نکالے اور مار دے (یہ بھی ہوا ہے اور کئی بار ہوا ہے)
آج تک ہجوم میں شامل کسی کو سزا نہیں دی گئی۔ آج تک لاؤڈ سپیکر کا ایسا استعمال کرنے والے کسی شخص کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔ حتیٰ کہ قاتل کو ہیرو بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں!
اس ملک کے بہت سے ماں باپ اپنے بچوں کو بیرون ملک سے واپس نہیں آنے دے رہے اس لیے کہ جہاں وہ رہ رہے ہیں وہاں کوئی حکومت تو ہے! کوئی ریاست تو ہے! کوئی نظام عدل تو ہے! کوئی ایسی پارلیمان تو ہے جو ایک ایک شہری کی جان کی حفاظت کا ذمہ لیتی ہے۔ وہاں انہیں کوئی ہجوم جلا سکتا ہے نہ مار سکتا ہے نہ قاتل کو ہیرو بنا سکتا ہے۔ یہاں بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ہجرت کر کے اُن ملکوں میں بس جائیں جہاں وہ محفوظ رہیں۔ وہ ان کے ہجر میں رو لیں گے۔ ان کے فراق میں دل زخم زخم کر لیں گے مگر انہیں اس جنگل سے بھگانا چاہتے ہیں جہاں ہجوم مار سکتا ہے، راستہ بند کر سکتا ہے، تھانے پر قبضہ کر سکتا ہے، تھانہ جو ریاست کی علامت ہے! تھانہ جو ریاست کا چہرہ ہے! جس ملک میں ریاست کا نمائندہ، ٹریفک کا سپاہی، پجارو کے نیچے دن دہاڑے کچل دیا جائے اور قاتل کا بال بیکا نہ ہو سکے، بے وقوفو! وہاں ہمارے بچوں کی حفاظت کون کرے گا! تم کس کھیت کی مولی ہو؟ عبرت پکڑو عمران حنیف کے انجام سے، اس کے قاتل کی پذیرائی سے اور جلوس میں شامل لوگوں سے جو یوں محفوظ ہیں جیسے بتیس دانتوں کے درمیان زبان!
اور اب اسے کوئی غیب کا ہاتھ انڈیل دے گا
کہ صبر کی انتہا سے بستی چھلک رہی ہے!