اس بہت بڑی دکان پر اڑتیس چالیس برس سے آنا جانا ہے۔ تاجر یعنی مالک سے دوستی تھی۔ کیش کاؤنٹر پر ایک بزرگ بیٹھا کرتے‘ کچھ عرصہ بعد ان کا انتقال ہو گیا تو یہ سیٹ ان کے نوجوان بیٹے نے سنبھال لی۔اب تو خیر اس کی داڑھی بھی سفید بالوں سے بھرتی جا رہی ہے۔ جب بھی جا نا ہوتا پہلے اس سے دعا سلام ہوتی‘پھر اوپر تیسری منزل پر جا کر اپنے دوست یعنی مالک کے پاس بیٹھ جا تا۔ گپ شپ ہوتی‘ چائے کا دور چلتا۔ ایک دن دکان میں داخل ہوا تو نوجوان خلافِ معمول کاؤنٹر سے باہر آگیا۔ ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گیا‘ اس کی آنکھوں میں آج غیر معمولی چمک تھی۔ کہنے لگا : صاحب نے چالیس لاکھ روپے میں مجھے مکان خرید کر دیا ہے۔ اب میں گھر والوں کو گاؤں سے لے آؤں گا اور بچوں کو پڑھاؤں گا۔ بہت خوش ہوں اسی لیے آپ کو بتا رہا ہوں۔ میں نے اسے مبارک دی۔ وہ اپنے صاحب کو دعائیں دینے لگ گیا۔ میں اوپر گیا تو اپنے دوست سے اس بات کا کوئی ذکر نہ کیا۔ اس کی عادت کا پتا تھا۔ ذکر کرتا بھی تو مسکرا کر بات ٹال دیتا۔ کئی برس اور گزر گئے۔ ایک دن موت کھڑکی کے راستے آئی‘ ہارٹ اٹیک ہوا اور میرا دوست بزنس کی ایک پوری ایمپائر یہیں چھوڑ کر‘موت کے ہمراہ‘ دروازے سے باہر نکل گیا۔
مری کی گھاٹیوں سے لے کر دارالحکومت کے مختلف سیکٹروں تک اس کی جائدادیں تھیں۔ نہیں معلوم‘ اپنے باقی ملازموں پر اس کی کیا کیا توجہات تھیں‘ مجھے تو ایک کارِ خیر ہی کا معلوم تھا۔ اس کی وفات کے بعد کئی دن تک‘ جب بھی اس کے بارے میں سوچتا ساتھ ہی اس کے کاؤنٹر والے ملازم کی شبیہ ذہن میں ابھر آتی۔مرحوم کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہو گا ؟ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں‘ مگر یہ یقینی بات ہے کہ اس کے اس ایک کام سے اُس کے ملازم کی آنے والی ساری نسلوں پر اثر پڑے گا۔پڑھنے والے پڑھ لکھ جائیں گے۔ جن کا رجحان کاروبار کی طرف ہو گا وہ شہر میں ملنے والے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ کیا عجب کوئی فوج میں جرنیل بن جائے‘ بینکار ہو جائے‘ سول سروس میں چلا جائے‘ صحافت میں نام پیدا کرلے۔ یہ صرف چالیس لاکھ روپے کی امداد نہیں تھی‘ یہ کئی نسلوں کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا‘ ایک ایسا موڑ جس سے آگے کی مسافت‘ پیچھے کے سفر سے یکسر مختلف تھی۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جن چند روپوں کی آپ کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں‘ وہ کسی اور کے لیے خزانہ ہوں گے۔ایک دوست کا نجی تعلیمی ادارہ ہے۔ اس میں ایک نائب قاصدہ تھی۔ میاں کئی عشرے پہلے جہاد کے لیے افغانستان گیا اور کبھی واپس نہ آیا۔ چار بیٹیوں کی ماں سکول میں نائب قاصدہ ہو گئی۔ اللہ کا نام لے کر اس نے بیٹیوں کو پڑھانا شروع کردیا۔ ادارے کا مالک اس کی مدد کرتا رہا۔ اس کے دوست بھی معمولی معمولی رقوم دیتے رہے مگر باقاعدگی کے ساتھ۔ اگر کوئی پانچ ہزار روپے ماہانہ بھی دیتا تھا تو اس غریب لیکن باہمت خاتون کے لیے گنجِ قارون سے کم نہ تھا۔ آج اس کی ایک بیٹی پروفیسر ہے‘ دوسری نرس ہے‘ تیسری ڈاکٹر ہے اور چوتھی ہیڈ مسٹریس ہے۔ ایک بار ٹیلی وژن پر لاہور کی ایک معمر خاتون کا انٹر ویو سننے کا اتفاق ہوا۔ خاندان کا واحد کفیل ایک لڑکا تھا جس کی ماہانہ آمدنی ( یہ بیس سال پہلے کی بات ہو گی ) دس ہزار روپے تھی۔ اُس خاتون کا ایک فقرہ ذہن پر کھد گیا اور کبھی اترا نہ شاید اتر سکے گا۔وہ یہ کہ گوشت اس کے گھر میں صرف عید کے موقع پر پکتا تھا‘وہ بھی بڑا! ذرا تصور کیجیے جو کنبے ہر ہفتے پورے پورے بکرے خر یدتے ہیں اگر مہینے میں ایک بار کسی ایسے مستحق خاندان کو کلو نہ سہی‘ آدھا کلو گوشت ہی خرید دیں تو ان محروموں کے لیے کتنی بڑی نعمت ہو گی۔ آپ جب پھل خریدتے ہیں تو ایک کلو انگور اگر اپنے ڈرائیور کے بچوں کے لیے بھی خرید لیں تو آپ کا بجٹ کریش نہیں کر جائے گا۔ سردیاں آتی ہیں تو بیگم‘ صاحب‘ بچے‘ سب گرم کپڑوں کی خریداری کرتے ہیں۔ کوٹ‘ جیکٹیں‘ مفلراور نہ جانے کیا کیا۔ ساتھ ہی اپنے ملازموں کو بھی ایک ایک گرم چادر یا ایک ایک سویٹر لے دیا کیجیے۔ ہمارے ایک دوست اپنے بچوں کے لیے جب بھی برگر‘ پیزا یا آئس کریم ڈیلیور کراتے ہیں تو گھر میں کام کرنے والے لڑکے کا حصہ بھی برابر کا ہوتا ہے۔ اس سے ان کے بچوں کی بھی تربیت ہوئی ہے۔ اب وہ بھی ملازم کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں ! پنڈی اسلام آباد میں حلوائیوں کی ایک بہت بڑی چین ہے۔ ایک برانچ اُس آبادی میں بھی موجود ہے جہاں ہم رہتے ہیں۔ دکان پر جائیں تو وردی پو ش لڑکے گاڑی کے پاس آکر پوچھتے ہیں کہ کیا پسند کریں گے۔ لوگ باگ گاڑی میں بیٹھ کر ہی سموسے‘ قلفی‘ رس ملائی یا گاجر کا حلوہ کھاتے ہیں۔ ایک بار ان لڑکوں سے پوچھا کہ کتنی تنخواہ لیتے ہیں؟ جواب حیرت انگیز اور افسوس ناک تھا۔ چھ ہزار روپے ماہانہ! مالک کا خیال ہے کہ یہ ٹِپ سے بہت کچھ کما لیتے ہیں جبکہ لڑکوں نے بتایا کہ صرف پچیس فیصد یعنی ایک چوتھائی گاہک ٹِپ دینا پسند کرتے ہیں۔ اگر ایسے بزنس مین‘ جن پر پیسہ ہُن کی طرح برس رہا ہے‘ ان لڑکوں کو دس یا بارہ یا پندرہ ہزار ماہانہ دے دیں تو گھاٹا پھر بھی نہیں ہو گا مگر ان بچوں کے کنبوں کو بہت فرق پڑے گا۔
سقوطِ ڈھاکہ کے وقت جو مغربی پاکستانی طالب علم وہاں کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے‘ انہیں جنگی قیدی بنا کر بھارت‘ مختلف کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ ان میں کچھ ہمارے دوست بھی تھے۔ ایک دوست بتاتے ہیں کہ فرش پر لگے ہوئے بستروں میں ساتھ والا بستر ایک بزنس مین کا تھا۔ نام شاید قاضی عبد السلام تھا۔ عمر اسّی سال تھی۔ قید کا سارا عرصہ مسلسل روزے رکھتے رہے۔ مگر بتانے والی بات اور ہے۔ قاضی صاحب کے ایک ساتھی بھی ان کے ہمراہ ہی قید میں تھے۔ انہوں نے ہمارے دوستوں کو بتایا کہ قاضی صاحب تقسیم سے پہلے کلکتہ میں تھے جہاں ان کا وسیع وعریض‘ عظیم الشان کاروبار تھا۔ معمول ان کا یہ تھا کہ جمعہ کے دن نئے کپڑوں سے گاڑی بھر لیتے اور سِحری کے وقت گھر سے نکل پڑتے۔ کلکتہ کے فٹ پاتھوں پر جو نیم برہنہ افراد سورہے ہوتے ان کے پاس کپڑے رکھتے جاتے اور ساتھ ایک ایک روپیہ۔( یاد رہے یہ ایک روپیہ تقسیم سے پہلے کا تھا)۔ یہاں تک کہ دن نکل آتا۔
غالب نے کہا تھا؎
رہا آباد عالم اہل ہمت کے نہ ہونے سے
بھرے ہیں جس قدر جام و سبو مے خانہ خالی ہے
آج اہلِ ہمت کم رہ گئے ہیں۔ تجوریاں بھری پڑی ہیں۔ مدد کے مستحق اصل میں وہ لوگ ہیں جو بھکاری نہیں بلکہ سفید پوش ہیں اور کم آمدنی والے ! ریڑھی پر رکھے ہوئے کیلوں کے چند گْچھے بیچنے والا بوڑھا‘ ردی جمع کرنے والا لڑکا‘ چند ہزار ماہانہ پانے والا گارڈ‘ پارکنگ میں ہر آتی جاتی گاڑی کا دروازہ کھولنے اور بند کرنے والا معمر شخص‘ سبزی منڈی اور فروٹ مارکیٹ میں سر پر ٹوکرا لیے ہوئے محنت کش‘ گلی کے موڑ پر ٹھیّا لگانے والا موچی‘ فٹ پاتھ کے کنارے درخت کے نیچے '' دکان‘‘ لگانے والا حجام‘ سکول کے گیٹ پر کھڑا ہوا چوکیدار‘ یہ سب وہ لوگ ہیں جو ہمارے لیے اس دنیا میں امتحان ہیں۔ اب یہ ہمارا اپنا چوائس ہے کہ اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام !