ذرا مجھے بھی بتا دیجیے گا

مدثر مختار‘ شکیل احمد‘ سعید احمد‘ محمد مصطفی اور افتخار احمد‘ پولیس کے اُس شعبے میں کام کرتے ہیں جوانسدادِ دہشت گردی کا ذمہ دار ہے۔ پولیس کے ان پانچ جوانوں نے‘ نئے سال کے دوسرے دن‘ بارہویں جماعت کے ایک طالب علم کو‘ مبینہ طور پر‘ عقب سے سترہ گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
اب اس معاملے میں چار فریق ہیں۔ اول: پولیس کا مؤقف ہے کہ رات کو انہیں اطلاع ملی کہ نامعلوم افراد ڈکیتی کی واردات کے بعد سفید رنگ کی گاڑی میں فرار ہوئے ہیں۔ڈکیتی والے سیکٹر کی طرف سے ایک سفید کار آتی دکھائی دی۔ انسدادِ دہشت گردی سکواڈ کے جوانوں نے کار کو روکا تو کار کی رفتار اور تیز ہو گئی۔ گاڑی کا تعاقب کیا گیا۔ بالآخر گاڑی کے ٹائروں پر فائر کرنا پڑا۔ اس فائر سے کار کا ڈرائیور موقع پر جاں بحق ہو گیا۔ دوم: مقتول کے والد کا مؤقف '' ذرا‘‘ مختلف ہے۔ اس کے بقول‘ ایک دن پہلے پولیس کے ان پانچ جوانوں کی مقتول کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔ انہوں نے دھمکی دی کہ وہ مزہ چکھائیں گے؛ چنانچہ انہوں نے گاڑی کا پیچھا کیا اور روک کر سترہ گولیاں ماریں۔ سوم: پوسٹ مارٹم ریکارڈ کے مطابق جسم کے گیارہ مقامات پر زخم تھے۔ تمام گولیاں پیچھے کی جانب سے ماری گئیں۔ چار گولیاں پیٹھ پر لگیں اور ایک سر کے پیچھے! چہارم: متعلقہ ڈی ایس پی نے مقتول کے والد اور دیگر اعزّہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تحقیقات کی رُو سے مقتول بے گناہ نکلا۔ ڈکیتی سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ ڈکیتی کیس کے مدعی سے لڑکے کی شناخت کرائی گئی تو اس نے بھی اسے پہچاننے سے انکار کیا۔
وفاقی وزیر داخلہ‘ جو پولیس کے بگ باس ہیں‘ مقتول کے گھر تعزیت کے لیے گئے۔ آئی جی پولیس اسلام آباد بھی گئے۔ دیگر وفاقی عمائدین نے بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ انصاف کیا جائے گا۔ اس یقین دہانی کے باوجود‘ مقتول کے احباب و اقربا نے مین شاہراہ کو بند رکھ کر احتجاج کیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کے لیے ہم ماضی کے عدالتی معاملات سے نظیر پیش کرتے ہیں۔ ملا نصرالدین نے اپنے پڑوسی سے کوئی برتن ادھار مانگا۔ واپس کیا تو پڑوسیوں نے برتن کو ٹوٹا ہوا پایا۔ مسئلہ عدالت تک پہنچا۔ یہی وہ موقع تھا جب ملا نصرالدین نے اپنا مشہور نظریہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا: اول تو برتن انہوں نے لیا ہی نہیں۔ اور اگر لیا تھا تو برتن ٹوٹا ہوا دیا گیا تھا۔اگر پہلے سے ٹوٹا ہوا نہیں تھا تو کم از کم ملّا نے نہیں توڑا۔ اسی نظریے کی روشنی میں ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اول تو موجودہ حکومت کے عہدِ ہمایونی میں پولیس ایسا کر ہی نہیں سکتی! حکومتی پارٹی کا نام ہی تحریکِ انصاف ہے جبکہ دُم چھلّا ''تبدیلی‘‘ ہے۔ اور اگر پولیس نے ایسا کیا ہے تو غلطی پولیس کی نہیں‘ مقتول کی ہے۔ اور اگر مقتول کی نہیں‘ پولیس کی غلطی ہے تو انصاف ضرور ہو گا، نہ صرف ضرور ہو گا بلکہ عوام کو ہوتا دکھائی بھی دے گا! اس کی مثالیں موجود ہیں۔ آپ کو اگر ایس ایس پی راؤ انوار صاحب اور مقتول نقیب اللہ محسود کا کیس یاد ہے تو یہ بھی یاد ہو گا کہ انصاف کے سارے تقاضے پورے کیے گئے تھے۔ایسا انصاف ہوا تھا کہ نوشیروان عادل کے زمانے میں بھی کیا ہوتا ہو گا۔ نقیب اللہ کا والد محمد خان اس انصاف پر اَش اَش کرتا دنیا سے رخصت ہو گیا۔ یہ تو امریکی حکومت نے ظلم کیا کہ راؤ صاحب کو بلیک لسٹ کر دیا ورنہ وطن ِعزیز میں تو وہ یوں محفوظ اور سلامت ہیں جیسے بتیس دانتوں میں زبان! آپ کو یہ بھی 
یاد ہو گا کہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس نے چودہ قتل کیے تھے۔ زخمی اسّی کے قریب اس کے علاوہ تھے۔ اس وقت تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی۔ چودہ قتل کیس کے داد خواہ‘ یعنی مدعی‘ علامہ طاہر القادری تھے جو تحریکِ انصاف کے ساتھ مل کر حکومتِ وقت کے خلاف تحریک چلا رہے تھے۔ تحریک ِانصاف نے اس کیس میں انصاف کے حصول کے لیے بہت سرگرم کردار ادا کیا۔ شریف برادران نے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پرنسپل سیکرٹری کو عبرتناک سزا یوں دی کہ اسے عالمی تجارتی ادارے میں سفیر مقرر کر کے بیرونِ ملک بھیج دیا۔ مگر بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی۔ موجودہ حکومت نے آکر اُس کیس کا ذکر اذکار تو کبھی نہ کیا مگر انصاف ضرور کیا۔ جن پولیس والوں نے یہ چودہ قتل کیے تھے انہیں کچھ بھی نہ کہا۔ بال تک ان کا بیکا نہ کیا تا کہ رہتی دنیا تک یہ قاتل نشانِ عبرت بنے رہیں۔ ان واضح اور تابناک مثالوں کی موجودگی میں یہ کیسے ممکن ہے کہ موجودہ حکومت نوجوان طالب علم کے قتل کے معاملے میں انصاف نہ کرے۔ جس آئی جی نے مقتول کے گھر جا کر تعزیت کی‘ اسے‘ اصولی طور پر اس واقعے پر جواب دہ ہوناچاہیے تھا۔ مگر ایسا ایک لمحے کے لیے بھی نہ سوچیے کہ اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ اسے بھی سزا یوں دی جائے کہ بیرونِ ملک سفیر مقرر کر دیا جائے۔ آخر نظیر تو موجود ہے۔
اس کیس میں پولیس کے ساتھ کچھ زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ مثلاً سترہ گولیاں پولیس کے ان پانچ شیر دل جوانوں نے کار کے ٹائروں پر چلائیں۔ مقتول اس وقت ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ آپ خود سوچیے کہاں ٹائر اور کہاں ڈرائیونگ سیٹ! اگر مقتول کار سے اتر کر ٹائروں کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو اس نے ہلاک ہونا ہی تھا۔ اس میں پولیس کو کیسے دوش دے سکتے ہیں آپ! ایک بادشاہ نے اپنے دربار میں ایک رفوگر کو مصاحب بنا کر رکھا۔ یہ رفوگر کپڑے نہیں‘ باتیں رفو کرتا تھا‘ یعنی ایسا ایڈوائزر تھا جو شاہی قول کو سچ ثابت کر دکھاتا۔ایک دن بادشاہ نے اہلِ دربار کو بتایا کہ ایک بار اس نے ایک ہرن کو گولی ماری جو بیک وقت ہرن کے سر اور پاؤں کو لگی۔ درباری واہ واہ کے ڈونگرے برسانے کے بجائے خاموش رہے اس لیے کہ ایسا ہونا ممکن ہی نہ تھا۔ آخر رفوگر اٹھا اور اس نے بھید کھولا کہ جس وقت جہاں پناہ نے گولی چلائی‘ عین اس وقت ہرن‘ اپنے پاؤں سے اپنا سر کھجارہا تھا!
سب سے زیادہ قابلِ اطمینان بات یہ ہوئی کہ جناب وزیر اعظم نے واقعے کا نوٹس لے لیا۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ نوٹس لینے کے بعد کیا ہوتا ہے۔ چینی‘ادویات اور آٹے کا بھی نوٹس ہی لیا گیا تھا۔دوسری بات جو کمال کی ہوئی ہے یہ ہے کہ اسلام آباد کے چیف کمشنر نے انکوائری کا حکم دیا ہے۔ اس جے آئی ٹی کا سربراہ پولیس ہی کا ایک افسر ہو گا۔ سبحان اللہ ! سبحان اللہ ! کیا کہنے ! گویا عوامی نمائندوں کو سارے معاملے سے آؤٹ کر دیا گیا۔ جے آئی ٹی بنانے والی بھی نوکر شاہی۔ اور جے آئی ٹی کی سربراہی خود پولیس کے پاس جبکہ قاتل بھی پولیس ہی سے ہیں ! اسے کہتے ہیں انصاف ہوتا دکھائی دینا!
اس ملک میں ہزاروں افراد پولیس کے ہاتھوں قتل ہو چکے اور مسلسل ہو رہے ہیں۔ آج تک کسی کو پھانسی نہیں ہوئی۔ ریاست مدینہ کا اصول تھا '' تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘ ... زحمت آپ کو یہ دینا چاہتا ہوں کہ جس دن اس نوجوان کے قاتلوں کو پھانسی کی سزا ملی ذرا مجھے بھی بتا دیجیے گا۔ احسان مند رہوں گا!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں