کوئٹہ پہنچ کر سرائے میں سامان رکھنے کے بعد پہلا کام یہ ہوتا کہ میثم کو فون کرتا۔ وہ ایک سرکاری دفتر میں ملازم تھا اور میرا دوست ! یاد نہیں یہ دوستی کب آغاز ہوئی اور کیسے۔ بس دوستی ہونے کے لیے یہ کافی تھا کہ وہ فارسی بولنے والوں میں سے تھا۔ مزدوری کا وقت ختم ہوتا ‘ اس کا ‘ اور میرا بھی ‘ تو ہم دونوں نکل پڑتے۔ علمدار روڈ ہماری جولانگاہ ہوتی! طول طویل علمدار روڈ ! پہلے کسی ریستوران میں افغان کھانا کھاتے! قہوہ پیتے ! پیالہ در پیالہ ! پھر کتاب فروشوں کا رُخ کرتے ! اب تو معلوم نہیں ان کا کیا بنا ‘ مگر جن دنوں کی بات ہورہی ہے ‘ اُن دنوں علمدار روڈ پر کتابوں کی بہت سی دکانیں تھیں۔ بڑی بڑی دکانیں ! کتابوں سے چھلکتی! یہ لوگ ایران اور افغانستان سے بھی کتابیں درآمد کیا کرتے۔ کئی کتابیں علمدار روڈ سے خریدیں جن کی دستیابی پاکستان میں کہیں اور ممکن نہ تھی مثلاً منوچہری دامغانی کا دیوان ‘ نظامی کا کلیاتِ خمسہ ‘ عراقی اور ثنائی کے دواوین! ایسا بھی ہوا کہ مطلوبہ کتاب نہ میسر آئی تو کتاب فروش نے خصوصی طور پر در آمد کر کے مہیا کی۔
علم دار روڈ ‘ ہزارہ قبیلے کا مسکن ہے۔ ہزارہ ‘ اصلاً وسطی افغانستان سے ہیں۔ افغانستان میں صوبے کو ولایت کہا جاتا ہے۔ چار پانچ وسطی ولایتیں ‘ جہاں فارسی بولنے والے ہزارہ کی اکثریت ہے‘ ہزارہ جات کہلاتی ہیں۔ اہم ترین ولایت بامیان ہے۔ وہی بامیان جہاں بدھا کے مجسمے مسمار کئے گئے تھے۔ پھر اس کے جنوب میں واقع دائے کنڈی اور جنوب مغرب میں واقع غور ۔ غزنی‘ وردک اور کچھ دوسرے صوبوں میں بھی ہزارہ کی پاکٹس موجود ہیں۔ الجزیرہ نے مچھ کے سانحہ پر جو رپورٹنگ کی ہے اس کی رُو سے مقتولین میں دائے کنڈی کے ہزارہ بھی شامل ہیں۔ دائے کنڈی بہت دشوار گزار‘ کوہستانی اور غریب صوبہ ہے۔ اس کے مکین تلاشِ رزق میں مسلسل نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔
انیسویں صدی کے اوائل میں‘ یعنی پہلی برٹش افغان جنگ (1839ء) سے پہلے‘ افغانستان سے آئے ہوئے ہزارہ برٹش انڈیا میں موجود تھے۔ سرکار کی تعمیراتی کمپنیوں میں یہ لوگ مزدوری کرتے تھے۔ برطانوی ہند کی فوج میں بھی ملازمت کرتے رہے مگر بڑی تعداد میں ہزارہ ‘ افغانستان سے امیر عبدالرحمان کے دور میں ہجرت کر کے کوئٹہ آباد ہوئے۔ عبد الرحمان ‘ جسے ڈریکولا امیر بھی کہا جاتا ہے‘ انتہائی سخت گیر اور بے رحم تھا۔ اس نے ہزارہ کی نسل کُشی کی کوشش کی‘ ہزاروں کو قندھار اور کابل کے بازاروں میں غلام کے طور پر بیچ دیا گیا۔ بہت سے ہزارہ کوئٹہ اور کچھ مشہد چلے گئے۔ بیسویں صدی شروع ہوئی تو امیر عبد الرحمان کا بیٹا حبیب اللہ سریر آرا ہوا۔ اس کی پالیسی ہزارہ کے حوالے سے بہتر تھی مگر عدم اعتماد کا بیج بویا جا چکا تھا۔ مجموعی طور پر ہزارہ کے ساتھ امتیازی سلوک ہی جاری رہا۔ 1945-46ء میں ظاہر شاہ نے کچھ ٹیکس صرف ہزارہ پر لگا دیے۔ اس سے بغاوت پھوٹ پڑی۔ بغاوت کچل دی گئی مگر ٹیکس بھی ہٹانے پڑے۔
دو واقعات 1979ء میں ایسے رونما ہوئے جنہوں نے مشرقِ وسطیٰ اور پاکستان کا سارا سیاسی اور فکری لینڈ سکیپ بدل کر رکھ دیا۔ ہر ملک ‘ ہر گروہ اور ہر مکتبِ فکر ان دو واقعات سے متاثر ہوا۔ کوئی منفی طور پر کوئی مثبت انداز میں۔پہلا واقعہ افغانستان پر سوویت یونین کا حملہ تھا۔ اس معاملے میں پاکستان یوں الجھا کہ آج تک عواقب بھگت رہا ہے۔ اگر معاملہ صرف مجاہدین کی مدد اور فنڈز کی تقسیم تک رہتا تو کوئی مضائقہ نہ تھا مگر ضیا الحق کی پالیسیوں نے پورے ملک کو داؤ پر لگا دیا۔ ملک کے ویزا سسٹم کو پاؤں تلے روند ڈالا گیا۔ مغربی سرحد عملاً کالعدم ہو گئی۔ تب پوری دنیا کے عسکریت پسندوں کے لیے یہ سرزمین ہیڈ کوارٹر بن گئی۔ ہزاروں غیرملکی جنگجو ‘ اسلحہ سمیت‘ ملک میں آ گئے۔ راکٹ تک بازاروں میں عام بکنے لگے۔ منشیات کی ریل پیل ہو گئی۔ سارا ملک مہاجرین کے قدموں میں ڈھیر کر دیا گیا۔ ایران کی پالیسی کے بر عکس‘ مہاجر‘ پاکستان کے اطراف و اکناف میں پھیل گئے۔ تجارت‘ ٹرانسپورٹ ‘ رئیل اسٹیٹ‘ ہر شعبے پر ان کا قبضہ ہو گیا۔ مقامی تاجروں کے قتل کی خبریں اب بھی آتی رہتی ہیں۔ اس سارے قضیے نے ملک میں مسلکی عدم توازن پیدا کر دیا۔ ایک مسلک ''جہاد‘‘ کے حوالے سے ضیاالحق کے زیادہ قریب تھا۔ جو ملک اس معاملے میں مرکزی کردار ادا کر رہا تھا اس کی پالیسی اسی مسلک کے گرد گھوم رہی تھی۔ یہاں تک کہ مجاہدین کے ایک لیڈر کو اپنا نام عبدالرسول سے بدل کر عبد الرب رسول رکھنا پڑا کیونکہ مسئلہ فنڈز کے حصول کا تھا۔ یوں اس مسلک کے نام لیوا مضبوط ہوتے گئے اور اس حوالے سے عدم توازن بڑھ گیا۔
دوسرا واقعہ انقلابِ ایران کا تھا۔ ایران کے انقلاب نے رضاشاہ پہلوی کے غرور کی گردن مروڑ کر رکھ دی مگر انقلاب برآمد کرنے کا عندیہ مسلم ممالک میں اضطراب کا باعث بنا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس کا اثر پاکستان پر بھی پڑا۔ پھر اس کا رد عمل ظاہر ہوا۔ اختلافات نے جنم لیا ۔ دونوں طرف کے لوگ نشانہ بنے۔ ہزارہ کمیونٹی بھی اس کی لپیٹ میں آئی۔ یہ سب کچھ 1979ء کے بعد شروع ہوا اور بدقسمتی یہ کہ ابھی تک یہ آگ بجھائی نہیں جا سکی۔ سریاب روڈ کوئٹہ پر ایک درجن پولیس کے کیڈٹ جو ہزارہ تھے‘ بھُون دیے گئے۔ میکانکی روڈ پر نماز جمعہ کے دوران پچپن ہزارہ حملے کا نشانہ بنے۔ دس محرم کے دن لیاقت بازار میں ساٹھ عزاداروں کو شہید کر دیا گیا۔ ستمبر 2010ء میں بم پھٹا اور 73 ہزارہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ ایک طویل فہرست ہے۔ خون کی ایک لکیر ہے جو دور تک چلی گئی ہے۔ لہو کے دھبے ‘ پچھلے تو کیا دھلتے ‘ ان میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
مذہب کے نام پر ایسی ایسی باتیں کی گئیں جو چودہ سو سال سے کسی نے کہیں نہ سنیں۔ ملائیشیا میں غیر مسلموں کو اللہ کا لفظ استعمال کرنے سے منع کر دیا گیا۔ بنگلہ دیش میں فتویٰ دیا گیا کہ مساجد سے کرسیاں ہٹا دو۔ ہمارے ہاں کہا جانے لگا ہے کہ اللہ کو خدا نہ کہو۔ گویاچودہ صدیوں کے اسلامی لٹریچر کو دریا برد کر دیا جائے۔ ہر معاملے میں اشتعال ‘ ہر بات پر منفی طرزِ فکر اور منفی ہی طرزِ عمل! جھگڑے ہی جھگڑے! اختلافات کو دبانے کے بجائے ہوا دی جاتی ہے۔ یو ٹیوب پر نام نہاد واعظین اور مناظرین جو حشر برپا کر رہے ہیں اس پر پابندی نہ لگائی گئی تو یہ آگ پھیلتی ہی رہے گی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اگر کوئی واعظ‘ اتحاد کی بات کرتا ہے ‘ اختلافات کے بجائے اُن پہلوؤں پر زور دیتا ہے جو مشترک ہیں‘ محبت کی تلقین کرتا ہے تو اُس کا اپنا مکتب فکر ہی پنجے جھاڑ کر اس کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔ یہ صرف کسی ایک یا دو مسالک کا مسئلہ نہیں ‘ ہر مسلک کے اندر بھی ‘ مخالفتیں‘ سب و شتم اور دشمنیاں پیدا کی جا رہی ہیں‘ اختلافات کی آگ پر پانی ڈالنے کے بجائے تیل چھڑکا جا رہا ہے ؎
اے خاصۂ خاصانِ رسل! وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے